Friday, September 16, 2016

Sept2016: Challenges of Afghan Refugees Repatriation

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مہاجرین وطن واپسی: نیا باب!
افغان مہاجرین کی وطن ’واپسی کا مرحلہ وار عمل‘ زیادہ نازک اور فیصلہ سازی زیادہ احتیاط کی متقاضی ہے کیونکہ اِسلامی بھائی چارے‘ اِنسانی (بشری) حقوق اُور تہذیب و اَخلاقیات کے اپنے تقاضے بھی توجہ طلب ہیں۔ افغان تاریخ کا ایک اُور باب رقم ہو رہا ہے‘ جس میں پاکستانی قوم کے کردار‘ اجتماعی ’ایثار و قربانی‘ کے حوالے سے اگر کچھ ایسا لکھ دیا جاتا ہے جس سے چار دہائیوں پر پھیلی ’محنت‘ پر پانی پھر جائے تو ایسا کرنا دانشمندی نہیں ہوگی۔ افغان مہاجرین کی اکثریت نہ تو جرائم پیشہ ہے اور نہ ہی عسکریت پسندی اور دہشت گردی پر یقین رکھتی ہے لیکن ایک قلیل تعداد میں بہروپیوں نے ہر کس و ناکس کو مشکوک و مشتبہ بنا دیا ہے اُور پاکستان کی داخلی سلامتی کے تقاضے یہ ہیں کہ ’رجسٹرڈ و غیررجسٹرڈ‘ مہمانوں کو باعزت رخصت کیا جائے اور ایسے مواقع (امکانات) پیدا کرنے پر زیادہ غوروخوض ہونا چاہئے جس سے افغان مہاجرین کی رضاکارانہ وطن واپسی کا عمل خوش اسلوبی سے انجام پائے۔


پاکستان کی پارلیمانی سیاسی جماعتوں افغان مہاجرین کے حوالے سے ’قومی حکمت عملی (پالیسی)‘ تشکیل دینے کے لئے ’اکیس ستمبر‘ کو نشست طلب کی گئی ہے‘ جس سے چاروں صوبوں‘ افغانستان کے نمائندے اُور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) سے تعلق رکھنے والے فریقین اُن کوششوں کو مربوط اور مؤثر بنانے پر بات چیت کریں گے تاکہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی میں جہاں کہیں ’کوآرڈیشن‘ (رابطوں) میں کمی بیشی ہے تو اُسے دور کرنے کے علاؤہ اِس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ’کسی بھی صورت ’غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے ساتھ ظلم یا زیادتی نہ ہو۔‘ اطلاعات کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں میں پیش پیش پولیس کا محکمہ کم مالی وسائل رکھنے والے ’افغان مہاجرین‘ کا استحصال کر رہے ہیں اور مہاجرین سے ہتک آمیز سلوک کے علاؤہ اُن سے رعائت کرنے کے لئے بھاری رشوت بھی طلب کی جاتی ہے۔ پاکستان کے دامن پر اِس قسم کا داغ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہونا چاہئے اور یقیناً’آل پارٹیز کانفرنس‘ میں ایسی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے قانون کی آڑ میں قانون شکنی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔


پوری دنیا جانتی ہے اور پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف بھی کرتی ہے کہ محدود وسائل و بحرانوں کے باوجود پاکستان برسوں سے افغان مہاجروں کی میزبانی اور اُنہیں ایک ایسے وقت میں پناہ دیئے ہوئے ہیں جبکہ حالات سازگار نہیں تھے لیکن اب چونکہ افغانستان میں عالمی امداد سے تعمیروترقی اور آبادکاری و بحالی کے نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے تو اپنے ملک سے دور رہنے والوں کو بھی اِن کاوشوں میں حصّہ لینے کا موقع ملنا چاہئے۔ یقیناًافغان مہاجرین کے متعلق اچانک سخت رویہ اختیار کرنا برسوں کی میزبانی کو خاک میں ملانے کا سبب ہوگا‘ جو دانش مندی نہیں ہوگی لیکن ہمارے فیصلہ ساز جو مہاجرین کے بارے ہر کسی سے بات کر رہے ہیں لیکن افغان مہاجرین کو اعتماد میں نہیں لے رہے کہ آخر کن حالات اور کن واقعات کے تناظر میں پاکستان کی مجبوری بن چکی ہے کہ وہ افغانوں سمیت جملہ غیرملکیوں کو وطن واپس بھیجنا چاہتا ہے۔ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کی بیخ کنی لازم تاہم بے قصوروں کو ناکردہ خطاؤں کی سزا نہیں ملنی چاہئے۔ 

کل جماعتی قومی کانفرنس سے قبل ایسے تمام افغان مہاجرین کے انجام بارے بھی قوم کو بتایا جائے جنہوں نے جعلی شناختی دستاویزات حاصل کر رکھی تھیں۔ کیا سرمایہ دار اُور بااثر افغان مہاجرین چاہے وہ کسی بھی درجے کی قانون شکنی میں ملوث ہوئے ہوں یا اب بھی ہیں تو کیا اُن سے بھی برابری کی بنیاد پر سخت گیر معاملہ کیا جائے گا؟ افغان مہاجرین کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ اور ہنڈی کا کاروبار کرنے والوں کی شاطرانہ چالیں اور پاکستانی قوانین میں سقم بھی قومی سطح پر زیرغور آنے چاہیءں جن کا فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جس طرح جنگ کی تباہ کاریوں‘ دہشت گردی کے خوف و دہشت اور بدعنوان سیاسی قیادت کے باعث معاشی ابتر حالات کے باعث افغان ہجرت پر مجبور ہوئے‘ اگر اب افغانستان میں ویسے حالات نہیں رہے تو اُنہیں ضرور واپس جانا چاہئے۔ اِس سلسلے میں یکساں ذمہ داری امریکہ اُور افغانستان انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ افغانستان میں حالات معمول پر برقرار رکھنے کے لئے اپنی کوتاہیوں اور کوششوں کا جائزہ لیں۔ 

افغان مہاجرین کی واپسی بہرحال عزت و احترام اُور ایسے حالات میں ہونی چاہئے کہ یہ مہاجرین برضا و رغبت ’خوشی خوشی‘ واپسی پر آمادہ ہوں اور واپسی پر انہیں افغانستان میں تمام بنیادی سہولیات سمیت جان و مال کا تحفظ بھی میسر ہو۔ فیصلہ سازوں کے پیش نظر یہ زمینی حقائق بھی رہنے چاہئے کہ ماضی میں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ’رضاکارانہ‘ طور پر واپس جانے کے بعد بھی پاکستان لوٹ آئی کیونکہ نہ تو افغان حکومت اور نہ عالمی براداری نے حسب وعدہ سہولیات فراہم کی تھیں۔ مہاجرین کی واپسی کا عمل ’مستقل‘ ہونا چاہئے جس کے لئے مستقل پالیسی اور قیام میں مزید توسیع نہ دینے کے لئے ’پاکستان کے مفاد پر مبنی نکتۂ نظر‘ سے سوچنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment