ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
محرم الحرام اُور امن و امان!
بنیادی قضیہ کیا ہے؟
آخر سال کے دیگر مہینوں میں اِس قدر ’ہنگامی حالات‘ کا سامنا کیوں نہیں کرنا پڑتا؟
محرم سیکورٹی پلان کے تحت دو اکتوبر کو شائع ہوئی (گذشتہ) تحریر میں پولیس کی وضع کردہ اُس حکمت عملی کے خدوخال اُور عام آدمی (ہم عوام) کے نکتۂ نظر سے حفاظتی انتظامات کا سرسری جائزہ پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ فیصلہ سازوں کے شاہانہ مزاج‘ تن آسانی اُور حالات کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی روش زیربحث لائی جائے۔ علاؤہ ازیں مختلف مکاتب فکر کو دعوت فکروعمل دی جائے کہ وہ خیبرپختونخوا کے طول وعرض اور بالخصوص صوبائی دارالحکومت پشاور کی سطح پر شعوری اور فکری رغبت و آمادگی کے ساتھ ایسی رضاکارانہ تحاریک (عمل) کا حصہ بنیں جس سے پشاور کا امن بحال ہو‘ بھائی چارہ عام ہو‘ انسانی خون کی حرمت و عزت بڑھے اور پھر اِس رواداری کے ثمرات صوبے کے دیگر اضلاع تک پھیلتے چلے جائیں کیونکہ اگر ’امن و امان‘ بحال کرنے کی ذمہ داری صرف اُور صرف قانون نافذ کرنے والے (حکومتی) اداروں کو سونپ دی جاتی ہے تو اِس کا نتیجہ یہی برآمد ہوگا کہ ہرسال کی طرح اِس سال اور آئندہ بھی محرم الحرام کا آغاز ہوتے ہی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جائے گی کہ اُن کی جان و مال اور مذہبی یا مسلکی جذبات و احساسات‘ رسومات اور عبادات کو سنگین قسم کے خطرات لاحق ہیں! جن کا سوائے اِس کے کوئی دوسرا حل نہیں کہ ’’تمام معمولات زندگی معطل کر دیئے جائیں!‘‘
محرم الحرام کا آغاز امن و امان کے لئے دعاؤں‘ نیک خواہشات اور سیکورٹی پلانز کی صورت ہوتا ہے‘ جس کی ضرورت سال 1992ء سے پیش آ رہی ہے جب یوم عاشور (دس محرم بوقت عصر) کوہاٹی گیٹ میں دو مسالک کے درمیان تصادم میں جانی ومالی نقصانات ہوئے اور اُس وقت کی ضلعی انتظامیہ اور ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار خاموش تماشائی بنے تباہی و بربادی اور خونریزی کا کھیل دیکھتے رہے۔ جس کے بعد سے سال کا کوئی بھی مہینہ یا موقع ہو‘ پشاور کی وہ روائتی مذہبی رواداری اور معمولات معمول پر نہ آسکے۔ اگر اُس وقت بناء کسی ’دستاویزی محرم سیکورٹی پلان‘ امن وامان برقرار رکھنے کے ذمہ داروں کو اپنے فرائض کی غفلت پر سزائیں دی جاتیں۔ کسی بھی فرقے کے انگلیوں پر شمار ہونے والے شرپسندوں کو انجام تک پہنچایا جاتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ عینی شاہدین‘ عوام کے خون اور پشاور کے امن سے رنگے ہاتھ توانا نہ ہوتے!
بنیادی بات یہ ہے کہ اگر سال کے دیگر مہینوں میں کسی سیکورٹی پلان کی ضرورت پیش نہیں آتی تو پھر ایسا محرم ہی میں کیوں ہوتا ہے‘ جس کی حرمت کے سبھی قائل ہیں؟ اِس سوال کا جواب سمجھنے کے لئے ماضی و حال کے سیاسی فیصلہ سازوں کی عدم دلچسپی ہے جس کی کئی ایک مثالیں بطور خاص پیش کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر تحریک انصاف (موجودہ صوبائی) حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ’پشاور‘ کئی لحاظ سے کم ترین ترجیح دکھائی دیتا ہے۔
ماضی میں محرم سے قبل روایت رہی ہے کہ وزرائے اعلیٰ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں نمائندہ وفود کو طلب کرکے قانون نافذ کرنے والے ماتحت محکموں کو یہ پیغام دیتے کہ اُن کی کارکردگی پر نظر ہے اور اگر پولیس فورس نے مصلحت یا کسی بھی فرقے کی طرف جھکاؤ کا مظاہرہ کیا تو ایسی کارکردگی (کوتاہی) کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا لیکن افسوس کہ ’انتخابی سیاست‘ جیسی ’ذاتی ترجیح‘ کی وجہ سے پشاور سے منتخب ہونے والی صوبائی اور قومی اسمبلی کی قیادت نے ’تجاہل عارفانہ‘ اختیار کر رکھا ہے اور وہ یا تو بظاہر انتہاء درجے کی جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں یا پھر ’پشاور‘ اُن کی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں اُور یہاں سے منتخب ہو کر‘ یہاں کے وسائل سے اپنی ’شان و شوکت‘ میں اضافہ کرنے والوں کے لئے یہ بات ضروری ہی نہیں کہ وہ پشاور سے اپنا ’دلی تعلق‘ بھی جوڑیں۔ پشاور کو محبوب سمجھیں۔
جنوب مشرق ایشیاء کے اِس قدیم ترین‘ زندہ و تاریخی شہر کی رونقیں‘ مذہبی آزادی اُور ثقافتی و سماجی رونقیں بحال کرنے میں اپنا کلیدی و حسب ضرورت کردار ادا کریں۔ اس سال منتخب بلدیاتی نمائندوں بشمول پشاور و دیگر اضلاع میں ضلعی ناظمین کی موجودگی کسی نعمت سے کم نہیں اُور اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بہترین سے بہترین عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اُس امن کی بحالی بناء آرام سے نہیں بیٹھیں گے‘جس کا ایک جہان متمنی اور جس کا خلاصہ شہدائے کربلا کی سیرت و تعلیمات کا نچوڑ بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment