Tuesday, October 4, 2016

Oct2016: Remembering Muharram in different ways, why?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
محرم الحرام: مشترک اقدار!



امن و سلامتی سے ماخوذ ’دین‘ کے ماننے والوں کو کسی اضافی تمہید کے ذریعے انسانیت کے احترام کی ترغیب دلانا ’منطقی‘ نہیں لیکن اگر شعور دامن گیر رہے۔ 

’’اِسلام‘‘ کسی بھی عمومی صورت یا صورتحال میں‘ کسی بھی انسان کی زندگی اُور جان و مال کی حرمت کو باطل قرار نہیں دیتا اُور یہی وجہ ہے کہ اہل مغرب کی ایک بڑی تعداد مشرف با اسلام ہو رہی اور اِسلام ہی دنیا کا سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ جاری بحث کا پہلا پڑاؤ ’’محرم الحرام سیکورٹی پلان‘‘ دوسری منزل ’’محرم الحرام اُور امن و امان‘‘ اور اِس تیسرے مرحلۂ فکر پر توجہات اُس بنیادی پیغام کی جانب مرکوز کرنی ہیں‘ جس کے بیان و رسائی کے لئے الگ الگ اظہار کے وسائل سے استفادہ ہو رہا ہے لیکن اگر کربلا کے ’مسلسل و جاری ذکر‘ کی اہمیت سمجھ لی گئی ہے تو اِس ’قدر مشترک‘ کے ذریعے توحید شناسی‘ قول و فعل کی اصلاح‘ اعمال کی تطہیر‘ ایک دوسرے کی جان ومال کا تحفظ‘ عبادات کا خلوص اُور خشوع حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ امن کا قیام بھی ممکن ہے لیکن اگر کربلا کے ذکر میں روحانی برکات و فیوض کے ساتھ عملی پیغام بھی تلاش کرنے کی مشق کر لی جائے۔



پشاور ایک گلدستے کی مانند ہے۔ جس میں ہر مذہب‘ فرقے یا مسلک سے تعلق رکھنے والوں کے پھول پیوست ہیں۔ ’باہمی احترام و مثالی رواداری‘ پشاور کا مستند تعارف و حوالہ رہا ہے۔ یہاں کے درخشاں ماضی کا ایک باب وہ وقت بھی تھا جب دہشت گردی اور انتہاء پسندی تو بہت دور کی بات‘ معمولی جرائم تک رونما نہیں ہوتے تھے۔ گلی محلوں کو آہنی دروازے لگا کر بند نہیں کیا جاتا تھا۔ ایک قسم کی چاہت اور اپناہیت عام ہوا کرتی تھی جس میں اجنبیت کا گزر تک نہ تھا لیکن پھر خطے پر جنگ مسلط ہوئی اور دو عالمی طاقتوں کے ٹکڑاؤ نے ’حق و باطل‘ کے واضح تصورات رکھنے والوں کو بھی روند ڈالا۔ 

کلاشنکوف کلچر کے ساتھ عدم برداشت آئی۔ اچھے اور بُرے دہشت گردوں کی اصطلاحات ایجاد ہوئیں‘ جس کے بعد دنیا نے ہماری تباہی اور تنزلی کا تماشا دیکھا۔ اگر اِس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ کوئی دشمن ہمارے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر پاکستان کو کمزور کر رہا ہے تو پھر اصلاح و بہتری کی گنجائش یقیناًنکالی جاسکتی ہے۔



توجہات مرکوز رہیں کہ محرم الحرام 1438ء ہجری کا آغاز اسلامی کلینڈر کے اُس ’واقعۂ کربلا‘ سے بالخصوص منسوب ہو چکا ہے جو سن 61ہجری میں پیش آیا اُور آج بھی اِس کی یاد صرف اہل اسلام کے ہاں مسلکی اختلاف کے ساتھ الگ الگ طریقوں سے نہیں منائی جاتی بلکہ غیرمذہب بھی حق وباطل کے معرکے اور جذبۂ حریت بیدار رکھنے کے لئے اِس ذکر میں شریک ہوتے ہیں۔ 

پشاور میں محرم الحرام کے دوران صرف مجالس عزأ یا ماتمی جلوس ہی برآمد نہیں ہوتے اور نہ ہی اِمام بارگاہوں کی حد تک ’شہدائیکربلا‘ کی قربانیوں کے تذکرے محدود رکھے جاتے ہیں بلکہ اہلسنت والجماعت مسلک دیوبند کی ترجمانی کرنے والی ’انجمن تبلیغ قرآن و سنت‘ پشاور میں 2 سے 10محرم الحرام تک 9 اجتماعات کا انعقاد کرتی ہے جن میں سے 8 اجتماعات مختلف جامع مساجد (بالترتیب شیخ آباد‘ اخون آباد‘ فردوس چوک‘ لاہوری گیٹ‘ چوک ناصر خان‘ قصہ خوانی‘ ہشتنگری اُور نمک منڈی) جبکہ دس محرم کے روز جلسۂ سیرت ’فاروق اعظمؒ چوک (اندرون کوہاٹی گیٹ)‘ منعقد کیا جاتا ہے۔ 

انجمن کے جنرل سیکرٹری مولانا حسین احمد مدنی کے بقول ’شہدائے اسلام کانفرنس‘ کے عنوان سے خراج عقیدت پیش کرنے کا یہ سلسلہ 1952ء سے جاری ہے اور رواں برس (1438ہجری) ہونے والی 65ویں کانفرنس میں مقامی مقررین کے علاؤہ 6 مقررین اُوکاڑہ‘ ساہیوال‘ لاہور‘ ایبٹ آباد‘ راولپنڈی اور نوشہرہ سے مدعو کئے گئے ہیں۔ اِسی طرح شہدائے کربلا کی سیرت‘ واقعات اُور تناظر و محرکات پر روشنی پر ڈالنے کے لئے فقہ حنفی ہی سے تعلق رکھنے والے ’اہلسنت والجماعت (عرف عام میں فاضل بریلی کے مکتب تحقیق و تعلیم کے علمبرداروں)‘ کی نمائندہ تنظیم ’اِدارہ تبلیغ اِلاسلام‘ اَپنے قیام کے 68ویں برس 9 اجتماعات بالترتیب نوتھیہ‘ غلہ منڈی‘ سرکی‘ گنج‘ سبزی منڈی‘ ناصر خان اُور گھنٹہ گھر کے مقامات پر انعقاد کی تیاریاں مکمل کر چکی ہے۔ ’اِدارۂ تبلیغ الاسلام‘ کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری خواجہ غلام فاروق کے مطابق اس سال راولپنڈی‘ فیصل آباد‘ چنیوٹ اور سرگودھا سے 9 مقررین کو مدعو کیا گیا ہے۔ 

مجالس عزأ ہوں یا سیرت کے عام اجتماعات‘ سیکورٹی اداروں کے لئے اِن سے نمٹنا آسان نہیں کیونکہ بیرون پشاور سے آنے والے مقررین بسااوقات شعلہ بیانی یا روانی میں پشاور یا خیبرپختونخوا کے کشیدہ حالات کی نزاکتوں (باریکیوں) کا خیال نہیں رکھتے یا جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف منتظمین بعدازاں مشکلات کا شکار ہوتے ہیں بلکہ پشاور پھر 1992ء کے مقام پر جا کھڑا ہوتا ہے۔ اِس صورتحال میں سیکورٹی اِداروں سے زیادہ اگر سیاسی قیادت فعالیت کا مظاہرہ کرے اور تمام فریقین کو اِس بات پر قائل کیا جائے کہ بیرون پشاور سے مقرر مدعو کرنے کی بجائے مقامی مقررین کی زبانی ہی ذوق کی تسکین کر لیا کریں تو پشاور کے ماضی و حال سے بخوبی آشنا مقامی مقررین کبھی بھی ایسی کوئی غیرمستند بات بحوالہ یا بناء حوالہ نہیں کریں گے یا دُہرائیں گے‘ جس سے کسی مسلک کی دل آزاری ہو۔ 

امن وامان کا قیام اُس وقت تک ممکن نہیں ہوگا‘ جب تک مسالک کے درمیان ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا احترام عام نہیں ہو جاتا۔ اِس ہدف کے حصول‘ کے لئے دردمندی کا مظاہرہ اور پشاور سے محبت میں سرشار پرخلوص منظم و مسلسل کوششوں کی اَشد ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment