Wednesday, October 5, 2016

Oct2016: Constable-Voice for the rights!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پولیس فورس: حق تلفی کا اَزالہ!

شاعر مصطفی زیدی کا کلام حسب حال ہے ’’کیسے سمجھاؤں کہ اُلفت ہی نہیں حاصل عمر: حاصل عمر اِس الفت کا مداوا بھی تو ہے۔۔۔ زندگی حسرت خس خانہ و برفاب سہی: کچھ ’دہکتے ہوئے شعلوں کی تمنا‘ بھی تو ہے!‘‘ دہکتے ہوئے شعلوں کی تمنا کرنے والی کانسٹیبل ’’رافیعہ قسیم بیگ‘‘ پشاور پولیس کا اِفتخار ہیں‘ جنہوں نے اپنی اعلیٰ تعلیم کو آڑے نہیں آنے دیا اور بجائے سفارش اہلیت کے بل بوتے پر بطور سپاہی ’پولیس فورس‘ میں ملازمت اختیار کی لیکن اُن کی خواہش اور کوشش ہے کہ پولیس کے ملازمتی ڈھانچے میں اصلاحات کی جائیں‘ پڑھے لکھے‘ ذہین اور قربانی و خدمت کے جذبے سے سرشار نوجوان لڑکے لڑکیوں کو پولیس فورس کا حصہ بنایا جائے اور انفرادی طور پر اُنہیں حسب تعلیم و قابلیت کم سے کم ’سترہ گریڈ‘ کے عہدے پر تعینات کیا جائے۔ 

یاد رہے کہ پولیس کا ملازمتی ڈھانچہ سپاہی (کانسٹیبل) سے شروع ہوتا ہے۔ جس کے بعد ہیڈ کانسٹیبل‘ اے ایس آئی‘ سب انسپکٹر‘ انسپکٹر‘ اے ایس پی / ڈی ایس پی‘ ایس پی‘ ایس ایس پی / اے آئی جی‘ ڈی آئی جی‘ ایڈیشنل آئی جی اور پھر انسپکٹر جنرل (آئی جی) کے درجات طے کرنے والوں کے لئے ’تعلیم‘ کی اہمیت و ضرورت سے زیادہ تجربہ اور تعلقات کام آتے ہیں اور عجب یہ بھی ہے کہ پولیس کا ملازمتی ڈھانچہ کچھ اِس انداز میں مرتب کیا گیا ہے کہ اِس میں عمومی طور پر اعلیٰ حکام کو بھی ’’مداخلت‘‘ کا اختیار نہیں کہ وہ جب چاہیں کسی اہلکار کو اُس کی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر‘ اُس کے حق کے مطابق محکمانہ ملازمتی ترقی دے سکیں۔ 


محترمہ رافیعہ حال ہی میں پانچ روزہ تربیتی کورس میں شرکت کے لئے ایبٹ آباد تشریف لائیں تو ہزارہ ڈویژن کے صدر مقام کے موسم اُور قدرتی حسن سے مالا مال وادیوں کی تعریف کئے بناء نہ رہ سکیں! ایبٹ آباد اُنہیں جرائم میں ملوث کم عمر بچوں کے حقوق و تحفظ (چائلڈ پروٹیکشن) سے متعلق قوانین و قواعد کے بارے ایک تربیتی کورس میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ کورس کے پچیس شرکاء میں رافیعہ کم عمر اور واحد خاتون تھیں تاہم اُن کے انتخاب کی بنیادی وجہ یہ (بدنیتی) تھی کہ ’’سہالہ میں پاسنگ آؤٹ کے لئے اُنہیں مدعو کیا گیا جہاں ’خوش شکل‘ خوش گفتار‘ ذہین (سمارٹ) اُور اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ رافیعہ کو خیبرپختونخوا کی نمائندگی کرنا تھی لیکن یہ بات اُن کی ایسی سینیئرز کو گوارہ نہیں تھی جو انگریزی میں اپنا نام لکھنے کے بھی قابل نہیں! اور تبھی یہ ترکیب نکالی گئی کہ رافیعہ کو تربیتی کورس کے بہانے ایبٹ آباد بھیج دیا جائے۔ بہرکیف اُس نے کورس نمایاں اعزاز کے ساتھ مکمل کیا اور چونکہ وہ اِن دنوں ’وکالت‘ کر بھی رہی ہے تو یہ اُس کے لئے مزید علم حاصل کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ وہ ایک ’فاسٹ لرنر‘ ہے‘ جس نے سرکاری تعلیمی اداروں سے استفادہ کیا۔ کبھی ٹیوشن نہیں لی اور نمایاں نمبروں کے ساتھ سال 2010ء میں پشاور یونیورسٹی سے ’انٹرنیشنل ریلیشنز (آئی آر)‘ میں ماسٹرز کرنے کے بعد سال 2014ء میں ’ایم اے‘ اکنامکس مکمل کیا۔ سپاہی رافیعہ اِن دنوں وکالت (ایل ایل بی) کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں! وہ 17دسمبر 2009ء کو بطور ’کانسٹیبل‘ پولیس فورس کا حصہ بنیں اُور سات برس بعد پچیس ہزار روپے ماہوار تنخواہ کے عوض ’سپاہی‘ کے عہدے پر ہی برقرار ہیں! صرف پشاور پولیس ہی نہیں بلکہ رافیعہ ’خیبرپختونخوا‘ کی سطح پر فورس کے لئے وقتاً فوقتاً کارآمد ثابت ہوئی ہیں لیکن اُنہیں زیادہ تر بطور ’شو پیس (نمائش)‘ ہی کے لئے ’’اِستعمال‘‘ کیا جاتا رہا ہے۔ 

غیرملکی وفود کے سامنے فر فر (روانی سے) انگریزی زبان میں بات چیت کرنی ہو یا پولیس کی کارکردگی سے متعلق تلخ و شریں سوالات کے تحمل سے جوابات دینا ہوں‘ رافیعہ کی خوداعتمادی ہر جگہ مشکلات کا حل ثابت ہوئی لیکن اُس کی مشکلات کا کسی کو احساس نہیں۔ رافیعہ کا پولیس میں مستقبل کیا ہوگا اور کیا وہ حسب خواہش و اہلیت ’17گریڈ‘ کا عہدہ حاصل کر پائیں گی؟‘ یہ ایک مشکل سوال ضرور ہے لیکن جواب چاہتا ہے۔ یقیناًاگر حکام چاہیں تو اُنہیں ’پولیس کا معاون ترجمان(اسسٹنٹ پی آر اُو)‘ کے عہدے پر ترقی دی جاسکتی ہے جو سترہ گریڈ کا عہدہ ہے۔ ماضی میں اِس طرح کی مثالیں موجود ہیں جب ڈی ایس پی کے عہدے پر براہ راست بھرتی کی گئی اور اگر کوئی کام ایک مرتبہ ہو سکتا ہے تو دوسری مرتبہ کیوں نہیں؟ اندرون پشاور کے علاقے ’سرد چاہ (ٹھنڈی کھوئی)‘ سے تعلق رکھنے والی رافیعہ (سن پیدائش 24 جنوری 1987ء) کو حسب تعلیم و قابلیت ’اہمیت و مقام‘ ملنا چاہئے جس کے لئے وہ پراُمید ہیں اور اگر ایسا کیا جاتا ہے تو اِس سے مزید تعلیم یافتہ خواتین کو بھی ’پولیس فورس‘ جوائن کرنے کی ترغیب ملے گی۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اُور پولیس فورس کے صوبائی سربراہ سے توقعات ہیں کہ وہ محکمہ پولیس کے ’سافٹ امیج‘ اُبھارنے کے ساتھ ایک خاتون کو اُس کا (جائز) حق دلانے کے لئے ملازمتی قوانین و قواعد میں موجود گنجائش کھوج نکالیں گے۔ 

تحریک انصاف کی مرکزی و صوبائی قیادت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ ’تھانہ کلچر‘ تبدیل کرنے کے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ’’تعلیم یافتہ‘ روشن خیال اُور رافیعہ کی طرح فرض شناس‘‘ افرادی قوت کی اشد ضرورت ہے جس سے پولیس فورس کا ’’عملی آؤٹ پٹ‘‘ مثالی و صنفی طور پر متوازن بنانے کے ساتھ‘ خوداحتسابی متعارف کرانے اور پولیس فورس کے بارے عمومی منفی تاثر زائل کرنے کے علاؤہ اِس اہم ادارے کی کارکردگی میں ’’نکھار‘‘ لایا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment