Wednesday, October 5, 2016

Oct2016: Questioning the Sri Lanka Development!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سری لنکا: بولتے سوالات!

’دعا‘ اُور ’دوا کی تاثیر‘ سے متعلق جنوبی بھارت کے ایک جزیرہ پر بسنے والے ’سری لنکن‘ باشندوں کا ماننا ہے کہ ’’علاج کی صرف وہی تدبیر شفایابی کا باعث بنتی ہے‘ جس میں مریض کا اپنے ’طریقۂ علاج‘ اُور ’دوا‘ کے مؤثر ہونے پر یقین غیرمتزلزل ہو۔‘‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ’بے یقینی‘ میں ’دَوا‘ اور ’دُعا‘ دونوں اپنا اپنا اَثر کھو دیتے ہیں۔ ’سیلون‘ اور ’سراندیپ‘ کے ناموں سے معروف رہے ’سری لنکا‘ کی تہذیب دو ہزار سال پرانی ہے‘ جو بدھ مت‘ ہندو مت‘ اسلام اُور عیسائیوں کو ماننے والے چار بڑے مذہبی گروہوں کی سرزمین ہے لیکن یہاں کسی دین کا دوسرے سے تصادم دکھائی نہیں دیتا۔ ایک ہی سڑک کے دائیں ہاتھ گرجا گھر اور بائیں ہاتھ (بلمقابل) بدھ مت کا مندر دیکھا گیا اور دونوں ہی میں عبادت کرنے والوں کی آمدورفت جاری تھی۔
سری لنکا ائرپورٹ پر امیگریشن کا عمل سیاحت یا کسی دوسرے مقصد سے آنے والے غیرملکی مسافروں کو خود سرانجام دینا پڑتا ہے لیکن برق رفتار طریقۂ کار کی بدولت یہ مرحلہ جلد ہی طے ہو جاتا ہے جس کے بعد سری لنکا میں داخل ہونے کی قانونی اجازت پانے والوں کے پاس ائرپورٹ سے باہر جانے کے 2 راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ پہلا راستہ کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے کا ہے کہ اگر کسی مسافر کے پاس ایسی برقی مصنوعات یا اشیاء ہیں کہ جن پر سری لنکا قانون کے مطابق درآمدی ٹیکس (کسٹم وغیرہ) ادا کرنا ضروری ہے تو اُس کے لئے کسٹم حکام نے الگ سے ’ایگزٹ پوائنٹ‘ بنا رکھا ہے جبکہ گرین چینل کے ذریعے بناء سامان کی جانچ پڑتال کئے ائرپورٹ سے باہر نکلا جاسکتا ہے اور ڈیوٹی پر موجود اہلکار کسی ایسے مسافر کی جامہ یا سامان کی تلاشی اُس وقت تک نہیں لیتے جب تک کہ اُس پر شک یا مخبری نہ ہو۔ 

بہرکیف ’پاکستان سری لنکا یوتھ ایکسچینج پروگرام‘ کے تحت 12 افراد پر مشتمل ’چوتھا دستہ‘ لاہور (علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ) سے کولمبو (بندرانائیکے انٹرنیشنل ائرپورٹ) پہنچا تو مقامی وقت کے مطابق صبح کے پونے پانچ بجے تھے لیکن ائرپورٹ پر ایک کے بعد دوسری فلائٹ اُتر رہی تھی اور مسافروں کی آمدورفت کے ہجوم سے ثابت تھا کہ سری لنکا کی معیشت و اقتصادی جس بہتری کی جانب گامزن ہے اُس کے ثمرات صرف قیادت تک محدود نہیں بلکہ اِس سے عام آدمی کی زندگی میں بھی بہتری آئی ہے اور اِس تبدیلی کو ہزارہ ڈویژن کے 3 تعلیمی اِداروں (ماڈرن ایج پبلک سکول‘ ماڈرن سکول سسٹم اُور مانسہرہ پبلک سکول) کے چنیدہ طلباء و طالبات (ہاجرہ سلطان‘ حبیب اللہ‘ وریشہ علی‘ خدیجہ مہ رخ‘ قاضی میرعالم‘ نعیم حماد‘ وجاہت شفقت‘ طبیبہ خان) اور اُن کی رہنمائی و تعارف کے لئے ہمراہ 4 اساتذہ نے بھی محسوس کیا جو چار سے بارہ اکتوبر تک سری لنکا کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں اور دیہی علاقوں کے مطالعاتی دورے میں تعلیمی نظام کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے علاؤہ نہ صرف سری لنکا کی ’یوتھ پالیسی‘ کے خدوخال کا جائزہ لیں گے بلکہ اپنے مشاہدے‘ مطالعے اور سوالات کے ذریعے سری لنکا کے ’ادارہ شماریات (statistics.gov.ik) کے اُس دعوے کی حقیقت کے بارے میں یقین کو پختہ کریں گے کہ سری لنکا میں شرح خواندگی بانوے (92.63) فیصد سے زیادہ ہے اور ستائیس فیصد سے زیادہ لوگ کمپیوٹر علوم کے بارے میں خواندگی رکھتے ہیں! کیا سری لنکا کی ’شرح خواندگی‘ میں اس قدر اضافہ اُس کے ہاں طرزحکمرانی (جمہوریت) کے مستحکم ہونے کا سبب بھی بنا ہے یا اعلیٰ سرکاری عہدوں سے لیکر سیاسی جماعتوں کے قائدین اور وزارتوں پر سرمایہ دار قابض ہیں؟
سری لنکا کی سڑکوں پر ٹریفک کا منظم نظام دیکھنے کو ملتا ہے۔ 

چھوٹی بڑی نجی یا سرکاری گاڑیاں ہوں یا موٹرسائیکل یا آٹو رکشہ‘ دارلحکومت کولمبو کی گنجان آباد سڑکوں پر ہر کوئی ٹریفک قواعد کی پابندی کرتا دکھائی دیتا ہے جسے ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں کہ اگر کسی موٹرسائیکل پر دو افراد سوار ہوں تو دونوں نے ہیلمٹ پہن رکھے ہوں گے حتیٰ کہ اگر اُن کے ساتھ اُن کا بچہ بھی سوار ہوتو اُس نے بھی ایک چھوٹا سا ہیلمٹ پہن رکھا ہوگا۔ زیبرا کراسنگ‘ حد رفتار کے اعلانات اور ٹریفک کے خودکار سنگلز کے علاؤہ اکا دکا ٹریفک پولیس کے مستعد اہلکاروں کی اپنے کام سے کام رکھنے کی روش سے کولمبو کی سڑکوں کی تنگی کا احساس نہیں ہوگا۔ 

دارالحکومت کی بلندوبانگ عمارتوں‘ کارپٹ کی طرح صاف ستھری چمکدار شاہراہیں اور اُن کے اطراف میں رہنے والوں غریبوں کی بستوں کو پردے لگا کر چھپانے کی کوشش کی گئی ہے! 

سری لنکا کی تاریخ کا یہ تاریک اور سب سے زیادہ تکلیف پہنچانے والا پہلو یہی ہے کہ یہاں ترقی کی دور میں کسی لحاظ سے کمزور و ناتواں معاشرے کی اکائیوں کو ساتھ لیکر چلنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ غیرملکی درآمد شدہ مہنگی گاڑیاں ایک طرف لیکن پبلک ٹرانسپورٹ سے لٹکے ہوئے انسان اور دھنسی ہوئی آنکھوں سے بولتے سوالات ہر ایک صاحب شعور کو جھنجوڑ کر پوچھتے دکھائی دیئے کہ ۔۔۔ ’’سرکاری وسائل کی تقسیم میں عدل کب قائم ہوگا؟‘‘ نتیجہ تو بس یہی سمجھ آیا ہے کہ چاہے کہ بدھ مت ہو‘ ہندو یا مسلمان اور عیسائی‘ بات صرف سری لنکا کے اِن چار ادیان کے ماننے والوں کی حد تک محدود نہیں بلکہ سرمایہ داروں کا جہاں کہیں بس چلتا ہے وہ غریبوں کو نچوڑنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پاکستان سے سری لنکا اُور سری لنکا سے آن کی آن میں پاکستان کا سفر کرنے کے بعد مزید کچھ بھی لکھنے کو دل نہیں کر رہا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


GROUP PHOTO
 4th Youth Exchange Program participants visited the National YOUTH Service Council in Colombo on Oct 05, 2016

No comments:

Post a Comment