Thursday, October 6, 2016

Oct2016: Public Safety Commission

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پولیس سیفٹی کمیشن

محکمۂ پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے اُن تمام قواعد و ضوابط کی ہر ایک شق پر بیک وقت اور بیک رفتار عمل درآمد کرنا ہوگا‘ جسے ’بلند و بانگ دعوؤں‘ میں انقلابی تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دیا جاتا ہے۔ صوبائی فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ صرف تکنیکی الفاظ پر مبنی اچھے قوانین تخلیق کرنا ہی کمال نہیں یا ضرورت پوری نہیں کر سکتے جب تک کہ اِن پر عملاً عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ بڑھتی ہوئی آبادی اُور جرائم کے تیزی سے بدلتے ہوئے اَنداز کا مقابلہ کرنے کے لئے ’پولیس فورس‘ کتنی تیار اُور آمادہ ہے‘ اِس بات کو کھول کر بیان کرنے کی قطعی کوئی حاجت یا ضرورت نہیں کیونکہ تنقیدی اسلوب و بیان کی وجہ سے ’’صاحب (بہادر) ناراض بھی ہو سکتا ہے!‘‘

پولیس آرڈر 2002ء‘ کے تحت ہر ضلع میں ’’پبلک سیفٹی کمیشن‘‘ بنانا وقت کی ضرورت ہے اُور سب جانتے ہیں کہ یہ بات ’’پولیس آرڈر 2002ء‘‘ کا جز بھی ہے۔ اَب سوال یہ ہے کہ مذکورہ کمیشن کے لئے جن اَفراد کا انتخاب کرنا ہے تو اُن میں کیا خصوصیات ہونی چاہیءں کیونکہ قانون تو صرف عہدیداروں کا تعین کرتا ہے‘ اُس کے پاس ایسی کوئی کسوٹی نہیں جس پر نیت اور دل کی تہہ میں چھپی باتیں جانچنے کی اہلیت ہو؟ کیا ہم موقع پرستوں اور سیاست دانوں کے اردگرد منڈلانے والوں کو ہی موقع دیں گے‘ جیسا کہ دیگر صوبائی اداروں ساتھ ہوا‘ اور سوائے راکھ کچھ ہاتھ نہیں یا پھر دوران ملازمت اچھی ساکھ اور تعلیم یافتہ لوگوں کو انتخاب کیا جائے گا؟ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ’پبلک سیفٹی کمیشن‘ کو اُس کی ظاہری و باطنی (روح اور کارکردگی) کے لحاظ سے معنوی وجود جیسی حقیقت ہونا چاہئے۔ کمیشن کا اپنا الگ سیکرٹریٹ (مرکز) ضروری ہے‘ تاکہ جو کاروائی بھی ہو وہ باقاعدہ دستاویزی اور نظم و ضبط کی پابند رہے۔ 

کمیشن کی بنیادی ذمہ داری یہ ہو کہ ہر مہینے (بلاناغہ) میٹنگ (غوروخوض کی نشست) کرے جس میں ’ڈی پی اُو‘ سے متعلقہ ضلع کی لاء اینڈ آرڈر (جرائم نامہ)‘ محکمے کی کارکردگی بشمول جن مقدمات میں تفتیش جاری ہے اُن کی ’پراگریس رپورٹ (کارکردگی کی تفصیلات)‘ طلب کی جائے اور پھر اِس ’پراگریس رپورٹ (کارکردگی کے معیار پر مبنی تفصیلات)‘ پر غور کرنے کے بعد اصلاحات تجویز کی جائیں۔ کمیشن کے اراکین کی جانب سے اصلاحات بطور تجاویز مرتب کرنے کے عمل میں ذرائع ابلاغ اُور دیگر دانشور طبقات سے بھی رہنمائی لی جاسکتی ہے۔ اِصلاحات پر اتفاق کرنے کے بعد پولیس نگران (کسی ضلع کے ’ڈی پی اُو‘) کو پابند ہونا چاہئے کہ وہ اِن اصلاحات کو عملی طور پر نافذ کرے گا جبکہ عوام کے منتخب بلدیاتی نمائندے اِس پر نظر رکھ سکیں۔ علاؤہ ازیں ’’پبلک سیفٹی کمیشن‘‘ میں ایک ’’کمپلینٹ سیل (شکایت کے اِندارج کا مرکز)‘‘ بھی ہونا چاہئے جس سے عوام و خواص رجوع کر سکیں اُور پولیس کی کارکردگی یا دھونس دھاندلی‘ اختیارات کے غلط استعمال یا اِمتیازی برتاؤ سے متعلق اپنی شکایات یا تجاویز کا اندارج کرسکیں۔ تصور کیجئے کہ پولیس کی کارکردگی کا کوئی بھی معیار کس طرح مقرر یا اخذ کیا جاسکتا ہے جبکہ عوام کی شکایات اور رائے کو خاطر خواہ اہمیت نہ دی گئی ہو!؟ 

پولیس کی کارکردگی پر ’کراس چیک (مستقل نظر رکھنا)‘ ضروری ہے۔ ’’پبلک سیفٹی کمیشن‘‘ کے پلیٹ فارم پر صرف پولیس کا محکمہ ہی نہیں بلکہ ضلعی انتظامیہ اور دیگر محکموں کہ جن کی عوام سے براہ راست رابطہ کاری (ڈیلنگ) رہتی ہے اُنہیں بھی کمیشن کے سامنے جوابدہ بنایا جائے تو بات بنے گی۔ اسی طرح ڈویژن کی سطح پر بھی پبلک سیفٹی کمیشن کے نمائندے ہونے چاہیءں‘ جن کے سامنے کمشنر‘ ڈی آئی جی اور دیگر ڈویژنل سطح کے اعلیٰ اہلکاروں کو جوابدہ ہونا چاہئے۔ 

صوبائی سطح پر ’’پبلک سیفٹی کمیشن‘‘ جیسی اتھارٹی (بااختیار ادارے) تہہ در تہہ احتساب کو عملاً ممکن بنا سکتے ہیں لیکن یہ ’’ہدف (گول)‘‘ تب ہی حاصل ہوگا جبکہ پبلک سیٖفٹی کمیشن کے لئے اہل اراکین کا انتخاب کیا جائے اُور اِسے کمشنر کی صوابدید پر چھوڑ کر رسمی خانہ پُری کرنے پر اکتفا (بھروسہ) نہ کیا جائے۔ کمیشن ایک آزاد ادارہ ہونا چاہئے۔ پولیس آرڈر کی من پسند شقوں پر عمل درآمد کرنے کی بجائے اِس پوری دستاویز پر پڑی ہوئی گرد جھاڑنے کی بہرحال ضرورت ہے۔ پولیس اَفسروں کو پابند بنایا جا سکتا ہے کہ وہ متعلقہ اضلاع کی ڈسٹرکٹ (ضلعی) اسمبلیوں کو اپنی کارکردگی کے بارے باقاعدگی سے مطلع کریں۔ کسی متعلقہ ضلع کے ناظم کی بھی بطور خاص ’ذمہ داری‘ بنتی ہے کہ وہ خود تک پہنچنے والی پولیس سے متعلق عوامی شکایات یا اپنا مشاہدہ یا دیگر بلدیاتی منتخب اَراکین کی آراء سے وقتاً فوقتاً ضلعی پولیس سربراہ کو آگاہ کریں۔ 

کارکردگی پولیس کی ہو یا کسی دوسرے ادارے کی بہتری و اصلاح کے لئے ہر اِکائی کو اپنے حصے کی ذمہ داریاں اَدا کرنے کے لئے ’خلوص نیت‘ سے عملی کوششیں کرنا ہوں گی اُور بجائے شاہی مزاج رکھنے والے افسران اعلیٰ سے اصلاح کی ’بلندوبالا توقعات‘ وابستہ کرنے‘ حسب قواعد اُن تمام اداروں کا قیام عملاً ممکن بنایا جاسکتا ہے‘ جس میں موجودہ انتظامی ڈھانچے کے برعکس ’کم سے کم اختیارات‘ اُور ’زیادہ سے زیادہ ذمہ داریاں‘ مقرر (متعین) کی جائیں۔ اداروں‘ افراد اُور نظام کی کارکردگی (آؤٹ پٹ) کا احتساب ہو کیونکہ بناء احتساب اور بناء جوابدہی کوئی بھی نظام (سسٹم) چاہے سماعتوں یا نمائشی مقاصد کے لئے کتنا ہی اچھا (جامع) دکھائی و سنائی دے‘ لیکن کافی نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment