Friday, October 7, 2016

Oct2016: Graveyard for Christians

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قبرستان: ایک ضرورت!

مسیحی براداری سے تعلق رکھنے والے ایک قاری نے خیبرپختونخوا حکومت کی توجہ ’مسیحی قبرستان‘ کی جانب سے مبذول کراتے ہوئے ایک سطر میں یہ قابل غور بات بھی لکھی کہ ’’اگرچہ اَقلیتوں میں مسیحی براداری کی اَکثریت غریب طبقات سے تعلق رکھتی ہے اور تعلیم کی وجہ سے سرکاری و نجی ملازمتوں میں مسیحی براداری کا تناسب بھی بڑھا ہے لیکن صوبائی حکومت اگر چاہے تو کم مالی وسائل رکھنے والے اقلیتی افراد کا معاشی و مالی سہارا (سپورٹ) بن کر ملک کے دیگر حصوں کے لئے روشن مثال قائم کر سکتی ہے۔‘‘ مختصر برقی مکتوب (اِی میل) کے لب و لہجے میں کہیں تلخی‘ کہیں شرینی اور کہیں محتاط رہنے کے باوجود گلے شکوے درج ہیں۔ مسیحی قبرستان الگ کیوں ہونے چاہیءں جبکہ مسیحی بھی اپنے مردوں کی مسلمانوں کی طرح تدفین کرتے ہیں اور بیرون ملک رہنے والوں کی قبریں کیا مسلم قبرستان میں ہوتی ہیں؟ 

قبرستانوں کا مذہبی تشخص کیا معنی رکھتا ہے اور کیا یہ برقرار رہنا چاہئے؟ قبرستانوں کے لئے اراضی اگر سرکاری وسائل سے خریدی جاتی ہے تو پھر اِس پر سب کا مساوی حق کیوں نہیں ہے؟ مسلم اور اقلیتی قبرستانوں کو اکھٹا بھی تو کیا جا سکتا ہے جیسا کہ کسی قبرستان کا ایک حصہ چاردیواری یا واضح علامات کے ذریعے مسیحی برادری کے لئے مخصوص ہونے میں کیا امر مانع ہے۔ جہاں تک مسیحی یا اقلیتی برادری کی مالی سرپرستی (ماہانہ وظیفہ) مقرر کرنے کی بات ہے تو اِس میں ایک سے زیادہ ’سپورٹ پروگرام‘ موجود ہیں جو وفاقی و صوبائی حکومتوں کے تعاون سے چلائے جاتے ہیں اور اِن میں اقلیتوں سے کوئی تعصب یا امتیاز نہیں برتا جاتا لیکن باوجود اِس کے اگر ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اور ریاست کے پاس مالی وسائل کی بھی کمی نہیں تو وہ عوام کی بہبود اور بالخصوص ایک ایسی براداری کے اراکین کو بنیادی سہولیات و ضروریات کی فراہمی کے بعد ’’احسان‘‘ بھی تو کیا جا سکتا ہے جو مبینہ طور پر ’باوجود کوشش‘ بھی ایک مسلم اکثریتی معاشرے میں یکساں بنیادوں پر رہن سہن یا ملازمتی مواقع نہیں رکھتے۔



خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرح پشاور کے گردونواح میں قبرستان کے لئے اراضی خرید کر مختص کرنا قطعی مشکل نہیں۔ اِس مقصد کے لئے حکومت کی ملکیتی اراضی کا کوئی خاص‘ الگ حصہ بھی مختص کیا جاسکتا ہے اور اگر یہ کام منصوبہ بندی کے ذریعے کیا جائے تو مسیحی برادری کے لئے رہائشی بستی بھی بنائی جاسکتی ہے جہاں اُن کے مکانات اُور قرب و جوار میں متصل قبرستان‘ گرجا گھر اور دیگر ضروریات موجود ہوں۔ ایسی کسی بستی کی حفاظت بھی زیادہ آسان ہوگی اور مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے پوری آزادی کے ساتھ وہاں اپنی عبادات و مذہبی رسومات ادا کرسکیں گے۔ جہاں تک پشاور کے موجودہ قبرستانوں کا احوال ہے تو تجاوزات کی وجہ سے قبرستان خود مسلمانوں کے لئے سکڑ گئے ہیں تو مسیحی براداری کو یہ گلہ نہیں کرنا چاہئے کہ اُن کے لئے قبرستان کی اَراضی کم پڑ گئی ہے بلکہ صورتحال تو یہ ہے کہ جہاں کبھی قبریں ہوا کرتی تھیں اب وہاں قطار در قطار مکانات بن گئے ہیں‘ فرق صرف اتنا ہے کہ قبروں کی جگہ بننے والے مکانات میں رہنے والوں کو ’زندہ‘ شمار کیا جاتا ہے! 

قبرستانوں کی اراضی انتخابی سیاست کرنے والوں نے اپنے حامیوں میں تقسیم کی‘ منافع بھی کمایا اور اب ہر عام انتخاب میں ووٹ بھی اُنہی کے نام ہوتے ہیں! پشاور کے آباواجداد کی آخری آرامگاہوں کا نام و نشان مٹانے والے منتخب ہوکر اپنی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے شاید سوچ بھی نہ رہے ہوں کہ اُنہوں نے کس قدر خسارے کا سودا کیا ہے۔ قبرستانوں میں گلیاں‘ نالیاں‘ ٹیوب ویل اور سرکاری سکول بنانے والوں کے ناموں کی تختیاں ’ملزمان کی نشاندہی‘ کرتی ہیں‘ اے کاش کہ پشاور کے رہنے والوں کو اِس کا احساس ہو جائے!



پشاور کی مسیحی براداری کی جانب سے مکتوب میں کہا گیا ہے کہ ’’جب کبھی بھی کوئی نئی قبر کھودی جاتی ہے تو اُس مقام پر پہلے سے دفن رہے انسانی مردے کی ہڈیاں برآمد ہوتی ہیں۔‘‘ قابل ذکر ہے کہ پشاور میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والوں کی آبادی ’30 ہزار‘ کے لگ بھگ ہے جن کے لئے 2قبرستان مخصوص ہیں۔ ایک گورا قبرستان چھاؤنی کی حدود میں شہر کے رہنے والوں کے لئے فاصلے پر ہے اور دوسرا قبرستان ’وزیرباغ‘ سے ملحقہ ہے جہاں قبروں کے لئے مزید گنجائش باقی نہیں رہی۔ 9 کنال پر پھیلے ’گورا قبرستان‘ اور 14 کنال رقبے پر ’وزیرباغ‘ کے مسیحی قبرستان کا عالم یہ ہے کہ ہر ایک قبر کم سے کم چار یا پانچ مرتبہ تدفین کے لئے استعمال ہو چکی ہے۔ 

مسیحی برادری کی اکثریت کا تعلق کم آمدنی والے طبقات سے ہے جو صاحب ثروت مسلمانوں کی طرح‘ اپنی مدد آپ کے تحت قبرستان کے لئے اراضی خریدنے کی مالی سکت نہیں رکھتے اور انہوں نے یہ بات پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے گوش گزار بھی کی‘ جنہوں نے ’کمال مہارت‘ سے معاملہ ضلعی حکومت کو سونپتے ہوئے ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن چونکہ ضلعی حکومت کے پاس اِس قدر مالی وسائل نہیں کہ وہ کسی ایک اقلیت یا برادری کے لئے کروڑوں روپے کا ترقیاتی منصوبہ مکمل کر سکے‘ اِس لئے مرکز نگاہ صوبائی حکومت ہی ہے جس کی توجہ مبذول اگر نہیں ہوگی‘ تو اِس ضرورت کا پائیدار فوری اور ممکنہ حل ممکن نہیں۔ اُمید کی جاتی ہے کہ سال دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کی تیاریوں میں غوروخوض کرتے ہوئے صوبائی حکومت مسیحی اقلیتی براداری کے جائز مطالبے پر کان دھرے گی اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کے لئے قبرستانوں کی مختص اراضی پر قبضہ کرنے والے اُس ’’سیاسی مافیا‘‘ سے بھی نمٹا جائے گا‘ جو سرکاری زمین کا استعمال کرتے ہوئے اندرون و مضافاتی پشاور کے انتخابی حلقوں میں اپنا اثرورسوخ (مقبولیت کے حلقے) بنائے ہوئے ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment