ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
۔۔۔ سب کچھ داؤ پر!
ایک دفعہ کا ذکر ہے جب خیبرپختونخوا کا ’ایبٹ آباد‘ صحت مند آب و ہوا کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا لیکن آج سطح سمندر سے ’چارہزار ایک سو بیس فٹ‘ بلند بیس لاکھ سے زائد دیہی وشہری علاقوں پر مشتمل یہاں کی آبادی کو جہاں ماحولیاتی عدم توازن کی وجہ سے موسمی تغیرات کا سامنا ہے وہیں قبائلی شناخت‘ لسانی تشخص‘ روایات اور ثقافت کو درپیش چیلنجز یہاں کے فہم و فراست رکھنے والے دانشور طبقات کے لئے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔
مختلف وجوہات کی بناء پر اَیبٹ آباد کے میدانی و پہاڑی علاقوں کی جانب نقل مکانی کے رجحان کی وجہ سے دستیاب وسائل اور شہری و دیہی علاقوں میں فراہم کی جانے والی بنیادی سہولیات کا ڈھانچہ بھی یکساں متاثر دکھائی دیتا ہے۔ اگر درست وقت پر درست ترجیحات کا متعلقہ شعبوں کے تکنیکی ماہرین سے مشاورت کے ذریعے تعین کر لیا جاتا تو آج ایبٹ آباد کے ہر رہنے والے کے لئے ’’کم سے کم‘‘ پینے کا صاف پانی ہی دستیاب ہوتا۔ ماضی میں ایبٹ آباد کو محروم اور یہاں کے رہنے والوں کی سوچ کو اگر محکوم رکھا گیا تو اِس کے درپردہ محرکات سیاسی بھی تھے اور فیصلہ سازوں کے پیش نظر ذاتی مفادات بھی یکساں کارفرما رہے جنہیں دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں شکست دینے کے باوجود ’سیاست برائے ذاتی منفعت‘ کرنے والوں نے تاحال ’’ہار نہیں مانی۔‘‘ سازشی ذہنیت آج بھی وجود رکھتی ہے اُور یہی وجہ ہے کہ ضلع ایبٹ آباد میں طرز حکمرانی کی اصلاح اُور بلدیاتی نظام کی فعالیت کے خلاف جاری سازشیں کسی سے ڈھکا چھپا موضوع نہیں! اَیبٹ آباد کے لئے ’سال دوہزار سولہ‘ کسی سے بھی طرح ماضی سے مختلف نہیں رہا اُور اِس دوران ضلع بھر میں اِنتظامی اِصلاحات اُور ترقیاتی اَمور کی راہ میں رکاوٹیں ’بدستور‘ حائل رہیں لیکن ہجری سال کا میزانیہ جاتے جاتے ایک ایسی بدمزگی چھوڑ گیا‘ جس کی ایبٹ آباد کی تاریخ و ثقافت اور ادب و احترام سے جڑی سیاسی روایات سے مطابقت نہیں رکھتی۔
اُنتیس دسمبر کی صبح ’صحت انصاف کارڈ‘ کی تقسیم کے موقع پر ’جلال بابا آڈیٹوریم‘ مدعو کئے گئے خاص مہمانوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ اسٹیج پر پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیرصحت‘ صوبائی وزیر خوراک‘ وزیراعلیٰ کے خصوصی مشیر اُور ایک رکن صوبائی اسمبلی کے شانہ بشانہ رکن قومی اسمبلی (این اے سترہ) ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون کے علاؤہ محکمۂ صحت و انتظامیہ کے اعلیٰ اہلکار تشریف فرما تھے‘ جن کی حفاظت کے لئے سفید کپڑوں میں ملبوس اسٹیج کے اطراف میں یقیناًموجود ہوں گے۔
تقریب کی باقاعدہ کاروائی شروع ہوئے ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ ایک نوجوان خراما خراما اسٹیج پر بیٹھے رکن قومی اسمبلی کے پاس پہنچتا ہے اور پشت سے حملہ کرکے اُنہیں زدوکوب کرنے کی کوشش میں بدتہذیبی کی انتہاء کرتے ہوئے باآواز بلند ایسے الفاظ سے اُنہیں مخاطب کرتا ہے جو بھری تقریب تو کیا تنہائی میں بھی بات چیت کے دوران کسی معزز و بزرگ شخص کے لئے استعمال نہیں کئے جا سکتے۔
یہ منظر نہایت ہی اَفسوسناک تھا‘ جسے تقریب میں موجود خواتین اُور بچوں سمیت چھ سو سے زائد افراد نے دیکھا اُور سر جھکا لئے!
اَیبٹ آباد کی سیاست میں اِس قدر ’عدم برداشت کا عنصر‘ اُور ’خاندانی جھگڑوں‘ کی بنیاد پر سرعام لعن طعن کے پے در پے واقعات اَگر جاری رہتے ہیں تو پھر کوئی بھی سر اُور کوئی بھی پگڑی محفوظ نہیں رہے گی! ڈاکٹر اظہر پر ہوئے حملے کی تفتیش کئی پہلوؤں سے ہونی چاہئے تھی۔ 1: تقریب کے لئے حفاظتی انتظامات ناکافی کیوں تھے اور غفلت کے ذمے داروں کا تعین ہونا چاہئے۔ 2: حملہ آور اگر مسلح یا خودکش ہوتا تو بیک وقت خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے پانچ اراکین اسمبلی کو جانی نقصان پہنچا سکتا تھا‘ اِس لئے دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے پس پردہ کرداروں کو منظرعام پر لایا جائے۔ 3: رکن قومی اسمبلی پر حملہ جس خاندانی جھگڑے کو بظاہر بنیاد بنا کر کیا گیا‘ اُس کا تصفیہ اور صلح صفائی علاقائی روایات کے مطابق بذریعہ جرگہ (بات چیت) ہونا ضروری ہے کیونکہ کوئی تیسرا فریق خاندانی جھگڑے کی آڑ میں فائدہ اُٹھانے کی باردیگر کوشش کر سکتا ہے۔ 4: خیبرپختونخوا میں محکمۂ پولیس کو ’غیرسیاسی‘ کرنے کے عمل کو ’تحریک انصاف‘ کی کمزوری نہیں بلکہ اِس کی طاقت سمجھا جانا چاہئے۔ ماضی میں اگر کسی ’رکن قومی اسمبلی‘ پر حملہ صوبائی وزراء کی موجودگی میں ہوتا تو حملہ آور اُور اُس کے سہولت کاروں کا نام و نشان صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہوتا اُور ساتھ ہی ضلعی پولیس میں بڑے پیمانے پر تبادلے ہو چکے ہوتے۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر‘ ڈی آئی جی‘ ڈی ایس پی‘ ایس ایچ اُوز لائن حاضر اور ضلع بدر ہو چکے ہوتے لیکن یہاں اگر ایسا نہیں ہوا تو پولیس حکام کو اپنے اختیارات‘ حاصل آزادی اور کارکردگی کا ازخود احتساب کرنا چاہئے۔ پشاور میں بیٹھے پولیس کے اعلیٰ حکام کو ڈاکٹر اظہر جدون پر حملے میں نچلے درجے کے پولیس اہلکاروں کے ’منفی کردار‘ پر غور کرنا چاہئے‘ جو صرف قابل افسوس و مذمت ہی نہیں بلکہ لمحۂ فکریہ بھی ہے کیونکہ ’پولیس کے اختیارات میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہر خاص و عام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اُور دوئم پولیس بناء دباؤ قانون کی بالادستی عملاً ممکن بنائے۔ کیا ایسا ہی ہو رہا ہے؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کے رُکن قومی اسمبلی کو اپنی ہی جماعت کی صوبائی حکومت کے دور میں اِنصاف مل پاتا ہے یا نہیں!؟
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اِن دنوں بیرون ملک دورے پر ہیں‘ جن کی واپسی پر توقع ہے کہ وہ پہلی فرصت سے بھی پہلے ’ڈاکٹر اظہر جدون‘ پر ہوئے حملے اور اِس سلسلے میں پولیس کی ’جانبدار تفتیشی کارکردگی‘ کا نوٹس لیں گے کیونکہ اِس سے نہ صرف پارٹی کارکنوں میں ’بے چینی و تشویش‘ پائی جاتی ہے بلکہ ضلع ایبٹ آباد میں تحریک اِنصاف کی سیاسی ساکھ‘ سماجی اَدب و اِحترام پر مبنی ثقافت‘ جدون اُور غیرجدون قبائل (جنبوں) کا باہمی تعلق و سلوک اُور سیاسی برداشت جیسے اثاثے بھی داؤ پر لگے ہوئے ہیں!
No comments:
Post a Comment