ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
۔۔۔ تاثیر مسیحائی کی!
’’پشاور پر رحم‘‘ کرنے جیسی عاجزی کا اِظہار کرتے ہوئے اِصلاح اَحوال کی تجاویز دینے والے ’دانشور‘ لکھاری تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے حالانکہ اگر اہل پشاور کی 80فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں تو اِس کے لئے کلی طور پر ذمہ دار ’مئی دو ہزار تیرہ‘ کے بعد سے برسراقتدار آئی موجودہ صوبائی حکومت نہیں۔ کچھ ذمہ داری اُور تنقید تو پاکستان مسلم لیگ (نواز)‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ پیپلزپارٹی‘ متحدہ مجلس عمل‘ قومی وطن پارٹی‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) سمیت اُن تمام اقتدار یا شریک رہی جماعتوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو ماضی میں کسی نہ کسی طور حکومتی فیصلہ سازی کا حصہ رہے اور جن کے اَدوار میں ترقی کا عمل نہ تو ’’پائیدار‘‘ ثابت ہوا اُور نہ ہی وہ ایسی ترجیحات کے تابع تھا کہ اُس کی بدولت بنیادی سہولیات کا ڈھانچہ مضبوط ہوتا یا پھر کم سے کم آج پورے خیبرپختونخوا کو پینے کا صاف پانی ہی میسر ہوتا۔ قوم پرستی اور مذہب کا لبادہ اُوڑھ کر حکومت کرنے والوں نے خیبرپختونخوا کو سوائے اداروں میں بیجا سیاسی مداخلت‘ سفارش‘ بدعنوانی‘ غربت‘ پسماندگی‘ انتہاء پسندی اُور بحرانوں کی صورت مسائل کی دلدل کے سوأ کچھ نہیں دیا‘ جس کی اِصلاح کے لئے کوششوں کی راہ میں آج بھی ماضی کے وہی حکمراں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جو درپردہ نہ صرف تحریک انصاف کو اپنے انتخابی ایجنڈے پر عمل درآمد سے روکنے کے لئے مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں بلکہ اپنے ہم خیال لکھنے والوں کی ’داد شجاعت‘ کو سراہتے ہیں کہ جن کے الفاظ ’تحریک انصاف‘ کے خلاف عام آدمی (ہم عوام) کے دلوں میں شکوک و شبہات کاشت کر رہے ہیں! صوبائی حکومت کے دفاع اور برسرزمین حقائق و صورتحال کی وضاحت کس کی ذمہ داری ہے؟
خیبرپختونخوا حکومت کی ترجمانی جس قدر کم پیمانے پر آج ہو رہی ہے‘ اِس کی ماضی میں مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی! آج پورے پاکستان کو باور کرایا جا رہا ہے کہ دیکھو ۔۔۔ ’’خیبرپختونخوا کی حکمراں جماعت اپنی بنیادی ذمہ داری سے عہدہ برآء نہیں ہو رہی تو کیوں نہ اِسے ناکام قرار دے کر آئندہ عام انتخابات میں مسترد کر دیا جائے!‘‘
خیبرپختونخوا میں حکومت سازی کے پہلے دن سے تحریک انصاف میں ’دوسرے عمران خان‘ کی کمی محسوس ہونے لگی! تحریک کی بدقسمتی یہ بھی رہی کہ اِسے قومی سیاست یعنی وفاقی پارلیمانی سطح پر خاطرخواہ کردار ادا کرنے کی عددی برتری حاصل نہ ہو سکی‘ جس کی بنیادی وجہ یہ نہیں تھی کہ بدعنوانی سے پاک طرزحکمرانی کے قیام کا وعدہ کرنے والوں کا پیغام ملک کے کونے کونے میں نہیں پہنچ سکا بلکہ صوبوں کے ضروری طور پر بڑے حجم ہونے کے سبب ’انقلاب کی آواز‘ نسلی لسانی اور قبائلی گروہ بندیوں کے مخصوص ووٹ بینک تلے کہیں دب کر رہ گئی۔ بحث کے اِس زوایئے اور موضوع کی تہہ داریاں متقاضی ہیں کہ اِس کا احاطہ کسی دوسرے مرحلۂ فکر پر کیا جائے۔ سردست قضیہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے اُس بیان سے متعلق ہے جو انہوں نے عوامی جمہوریہ چین کے دورے سے واپسی کے بعد‘ 2 جنوری کے روز ورسک روڈ پر منعقدہ پہلی عوامی تقریب کے موقع پر دیا اُور ذرائع ابلاغ کے ہاتھ ایک ایسا نکتہ آ گیا‘ جس کی وضاحت ہر کسی نے اپنے اپنے تعصب کی عینک لگا کر کی۔
وزیراعلیٰ محترم اگر بات ’’موقع محل‘‘ دیکھ کر کرتے تو اُن کی وجہ سے پوری تحریک انصاف کو اِس قدر تنقید کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ’’گلونہ پیخور‘‘ نامی ’صفائی مہم‘ کے موقع پر بے محل یہ کہنا کہ ’’پشاور کی 80فیصد آبادی کو پینے کے لئے صاف پانی دستیاب نہیں‘‘ بڑی حد تک حقیقت تو ہے‘ لیکن اِس کا حوالہ اُور بیان غیرسائنسی طور پر دیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو پورے پاکستان کا کوئی ایک بھی ایسا شہر نہیں جہاں کی اکثریتی آبادی کو پینے کا صاف پانی دستیاب ہو لیکن یہ اِس بات کا جواز نہیں ہوسکتا کہ کوئی حکومت اپنی ذمہ داریاں دوسروں کے سر ڈال دے۔ توجہات مبذول رہیں کہ حکومت کا کام سنسنی خیزی اور تعجب خیزی میں اضافہ نہیں بلکہ صورتحال کی وضاحت کرنا ہوتی ہے۔
فیصلہ سازی کے منصب پر مراعات یافتگان کی یہ بھی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کیونکہ وہ کسی بھی مسئلے کے بارے اظہار خیال کرتے ہوئے اُس کے سیاق و سباق (ماضی و حال) اور اصلاحی پہلوؤں کے بیان سے اختتام کریں۔ کیا وزیراعلیٰ کو پشاور کے پانی کے بارے ایسا بیان دینا چاہئے تھا‘ جس سے اہل پشاور میں تشویش سے زیادہ یہ تاثر پھیل جاتا کہ اگر صوبائی حکومت جانتی ہے کہ پشاور کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں تو پھر پینے کا صاف پانی فراہم کرنا کس کی ذمہ داری ہے اور موجودہ حکومت نے اِس سلسلے میں کیا عمومی و خصوصی اقدامات کر رہی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا صوبائی حکومت نے پشاور کے طول و عرض میں کوئی ایسا سروے (جائزہ) اپنی نگرانی اور سرکاری اداروں کی معاونت سے مکمل کیا ہے جس سے یہ نتیجہ اَخذ کیا جاسکے کہ پشاور کی کم و بیش نہیں بلکہ پوری 80فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے؟
وزیراعلیٰ کو اِس بارے میں بھی اہل پشاور کی رہنمائی کرتے ہوئے بیان کرنا چاہئے تھا کہ امریکہ کا امدادی ادارہ (یو ایس ایڈ) کوڑا کرکٹ تلف کرنے اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہا ہے اور اِس سلسلے میں پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں جاری کام کی رفتار یا حاصل شدہ نتائج کی تفصیلات بمعہ اعدادوشمار کا تبادلہ اگر ذرائع ابلاغ کے ساتھ کر دیا جاتا تو ’بار ذمہ داری‘ کچھ ہلکا ہو جاتا۔ تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا اُور بالخصوص صوبائی دارالحکومت پشاور میں کارکردگی پر تنقید کرنے والوں کی پہلے ہی کمی نہیں تھی لیکن وزیراعلیٰ کے غیرمحتاط اُور سرسری بیان نے ’’جلتی پر تیل‘‘ جیسا کام کرتے ہوئے اُس بحث کو مزید اُلجھا دیا ہے‘ جس میں حکومت کی ذمہ داریاں‘ جنون پر منبی انقلابی اصلاحات اور جملہ انتخابی وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت پر زور دینے والے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا اُور بالخصوص پشاور کو ہنوز ایک مسیحا کا انتظار ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
![]() |
Clean drinking water for Peshawar, without scientific survey and need assessment not practically possible |
No comments:
Post a Comment