Monday, January 16, 2017

Jan2017: Reforming the Police in KP - Last Chance!


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پولیس اصلاحات: آخری موقع!
معقولیت‘ اِعتماد اُور حسن زن پر اِعتقاد کے ذریعے بہتری کی اُمید رکھنے والے بناء توجہ دلائے بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں ’پولیس اِصلاحات‘ سے جڑی جملہ توقعات پوری نہیں ہوئیں! لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پولیس کی اِصلاح کے اِس پورے عمل میں صرف تین برس سے زائد کا قیمتی عرصہ ہی نہیں بلکہ ایک ’’نادر موقع‘‘ بھی ضائع کر دیا گیا‘ جو زیادہ قیمتی تھا۔ خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) ناصر خان دُرانی نے ایبٹ آباد (این اے سترہ) سے رکن قومی اسمبلی اُور خیبرپختونخوا کی حکمراں جماعت کے رہنما ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون پر ہوئے حملے کی اَزسرنو تفتیش اور یہ عمل سات روز میں مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے اُن اعلیٰ و ادنی پولیس اہلکاروں کو تاحکم ثانی معطل کر دیا ہے‘ جو ’اُنتیس دسمبر دوہزار سولہ‘ کے روز ’جلال بابا آڈیٹوریم‘ ایبٹ آباد میں تعینات (موجود) تھے اور جن کی آنکھوں کے سامنے‘ چار وزراء‘ رکن صوبائی اسمبلی اور درجنوں افراد کی موجودگی میں (دن دیہاڑے) نہ صرف رکن قومی اسمبلی پر حملہ ہوا بلکہ دست درازی کرنے والے حملہ آور نے پولیس کی موجودگی میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے نہایت ہی غلیظ القابات کا استعمال کیا اور باریک بینی سے مرتب کی گئی سازش کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حملہ آور نے تفتیش کا رخ موڑنے کے لئے ایک ایسے خاندانی تنازع کا حوالہ دیا‘ جس سے اُس کا نہ تو کوئی خاندانی‘ سماجی‘ سیاسی و غیرسیاسی یا جذباتی تعلق تھا اُور وہ نہ ہی وہ اُس انتخابی حلقے کا رہائشی ہے‘ جہاں ’دوہزار تیرہ‘ کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے تین دہائیوں کے سیاسی تعصبات کو شکست دی ہے! توجہ مرکوز رہے کہ ۔۔۔ رکن قومی اسمبلی پر حملے کے حقائق پوشیدہ کرنے کے لئے جس ’گمراہ کن بیان‘ کا سہارا لیکر تفتیشی رُخ موڑنے کی کوشش کی گئی‘ اُسے سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ اور چند اخبارات کے ذریعے مشتہر کرنا بھی سازش کا حصہ تھا جس کے لئے ’سوشل میڈیا‘ کا استعمال تاحال جاری ہے! 


سُوال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں اگر پولیس کو ’غیرسیاسی‘ کرتے ہوئے ’تحریک انصاف‘ نے زیادہ اختیارات دیئے تو کیا یہ تجربہ کامیاب ثابت ہوا؟ کیا تھانہ کلچر میں تبدیلی آئی؟ کیا عام آدمی (ہم عوام) بشمول خواص کو خیبرپختونخوا پولیس پر اعتماد ہے؟ اگر اِن سُوالات کے جواب مثبت ہوتے تو انسپکٹر جنرل پولیس کو ازسرنو تفتیش کے احکامات جاری کرنے کی زحمت اُور رکن قومی اسمبلی سے ملاقات کے دوران اُنہیں انصاف دلانے کی یقین دہانی کرانی نہ پڑتی۔ بھلا جس سیاسی جماعت کے اپنے دور حکومت میں خود اُس کے اپنے ہم جماعتی ’رکن قومی اسمبلی‘ پر حملے کی منصوبہ بندی میں پولیس اہلکار اور ذرائع ابلاغ کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہو کہ وہ ملوث ہیں تو پھر ایسی صورتحال میں ’سیاسی مداخلت‘ ناگزیر حد تک ضروری ہو جاتی ہے کیونکہ جب تک پولیس کی صفوں سے ’کالی بھیڑوں‘ کو نکال باہر نہیں کیا جاتا‘ اُس وقت تک نہ تو ’تھانہ کلچر‘ تبدیل ہوگا اور نہ ہی پولیس کی مجموعی کارکردگی (ساکھ) بہتر ہو پائے گی۔

رکن قومی اسمبلی پر حملہ ایک ’’نادر و آخری موقع‘‘ ہے کہ اِس کے ذریعے پولیس کی صفوں میں گھسنے والے جرائم پیشہ عناصر کا تہہ در تہہ (درجہ بہ درجہ) صفایا کیا جائے۔ رکن قومی اسمبلی پر حملے کو ’خاندانی تنازع‘ کی آڑ میں ’رفع دفع‘ کرنے کی سازش میں شامل جملہ عناصر بشمول ذرائع ابلاغ کے چند نمائندوں اور ایسے محرکات کو منظرعام پر لانا اِس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ اِس سے پولیس کے تفتیشی عمل اور اِس پر اَثر انداز ہونے والوں کی نشاندہی ممکن ہے۔ 

خیبرپختونخوا میں ذرائع ابلاغ بشمول ’سوشل میڈیا‘ پر ضابطۂ اخلاق اور سائبر کرائمز کے قانون کی شقیں لاگو تو ہوتی ہیں لیکن اُن پر کماحقہ عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاتا اور اگر اِس موقع پر بھی گرفت نہیں کی جائے گی تو پھر ایسے قوانین کی ’’محض موجودگی‘‘ کیا معنی رکھتی ہے!؟ اِس نازک موقع پر بھی اگر درگزر‘ یا ایک اُور موقع دینے جیسی ’روائتی رعایت‘ (عمومی روش) سے کام لیا گیا تو پولیس میں تطہیر کا عمل پھر کبھی بھی مکمل نہیں کیا جاسکے گا۔ ایبٹ آباد میں بھتے کی پرچیاں اور اغوأ برائے تاوان جیسے جرائم ابھی متعارف نہیں ہوئے لیکن اگر ایبٹ آباد پولیس اہلکاروں کے اثاثوں کی چھان بین‘ اُن کی آمدنی کے ذرائع‘ اُن کے شاہانہ رہن سہن‘ سرمایہ کاری‘ جرائم پیشہ عناصر سے تعلقات اُور ظاہری و خفیہ آمدنی کے ذرائع بارے وسیع و جامع تحقیقات نہیں کی جاتیں اور پولیس میں ’سزا و جزا‘ کے تحت احتساب نہیں ہوتا تو ایسے حملوں کا سلسلہ نہ صرف جاری رہے گا بلکہ ایبٹ آباد کی طرح خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں پولیس اہلکاروں کو یہ پیغام منتقل بھی نہیں ہوگا کہ ’’تبدیلی‘‘ کی اصطلاح کا غلط مطلب اَخذ نہ کیا جائے اُور نہ ہی پولیس کو غیرسیاسی کرنے کے عمل کو تحریک انصاف کی کمزوری سمجھا جائے۔ دیدہ دلیری ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح دن دیہاڑے کم وبیش ایک لاکھ ووٹ لیکر منتخب ہونے والے عوامی نمائندے اور صوبائی حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی پر حملے کی منصوبہ بندی (سازش)‘ حملے اُور بعدازاں جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا اور پھر پولیس کے اختیارات اُور وسائل کا استعمال کرتے ہوئے اصل حملہ آور کو بچانے کی کوشش کی گئی۔ تحریک انصاف کے کارکنوں میں اِس بات کو لیکر غم و غصہ سے زیادہ اِس بارے میں سوالیہ تشویش پائی جاتی ہے کہ رکن قومی اسمبلی پر حملے اُور ضلع ایبٹ آباد کی ’’مثالی پُراَمن سرزمین‘‘ پر جرائم و عدم برداشت کی پھلتی پھولتی کونپلیں اور پولیس گردی‘ کا نوٹس لینے کا یہ آخری موقع بھی کہیں ضائع تو نہیں کردیا جائے گا!؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


No comments:

Post a Comment