Monday, January 23, 2017

Jan2017: Haq Baho

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
22جنوری 2017ء

دعوت فکر و عمل کے تقاضے!
’’اِستحکام پاکستان‘ اِتحاد اُمت مُسلمہ اُور اِنسانی معاشرے کی فلاح‘‘ پر مبنی تین نکاتی فکر و عمل کا پیغام لیکر ’’اصلاحی جماعت‘‘ کے مرکزی قائدین (صاحبزادہ محمد علی سلطان اُور صاحبزادہ اَحمد علی سلطان) صوبہ پنجاب کے ضلع جھنگ سے ایبٹ آباد پہنچے تو حسب سابق اُن کا والہانہ استقبال دیدنی تھا۔ اُجلے سفید کپڑے‘ سفید پگڑی‘ سیاہ واسکٹ اور نورانی چہروں والی ایک منظم اور باادب مخلوق سڑکوں پر اُمڈ آئی‘ جنہیں دیکھ کر یقین ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ بھی ’’ہم ہی میں سے ہیں!‘‘ یقیناًقیادت میسر ہو تو ناقابل یقین حد تک ظاہر و باطن اُجلا ہو جاتا ہے اور ناممکن بھی ممکن ہوتا دکھائی دینے لگتا ہے۔ 

میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عالمی حق باہو کانفرنس کی مناسبت سے ’اکیس جنوری‘ ظہر سے بوقت عصر کامرس کالج گراؤنڈ‘ (ایبٹ آباد) منعقدہ روحانی محفل میں ’’حقیقت ایمان و یقین‘‘ پر شریں گفتار صاحبزادہ احمد علی سلطان نے سلیس‘ مدلل و جامع خطاب نے اِس عمومی تاثر کو زائل کر دیا کہ اِس قسم کی اکثر بابرکت محافل میں شاعری کے بہترین انتخاب کے ذریعے اظہارِعقیدت تو کیا جاتا ہے لیکن روحانی و عملی زندگی میں کامیابیوں کے رہنما اصول بیان نہیں کئے جاتے جس سے سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک اہم و روشن پہلو کی جانب توجہات مبذول نہیں ہو پاتیں لیکن تنظیم العارفین (اصلاحی جماعت) کا کمال ہی یہ ہے کہ اِس نے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی اِس فکر کو مشعل راہ بنا لیا ہے کہ ’’نکل کر خانقاہوں سے اَدا کر رسم شبیری‘‘ اور اِسی معزز پلیٹ فارم سے ایک نہایت ہی اہم سوال پیش کیا گیا ہے کہ ’’کیا معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے مادی وسائل بھروسہ و اکتفا کافی ہے یا اِس میں روحانیت کی حصہ داری بھی ہونی چاہئے اور کس قدر؟ صاحبزادہ احمد علی سلطان نے سرنامۂ کلام میں علامہ اقبالؒ کے شعر ’’خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ۔۔۔ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف‘‘ سے موضوع کی پرتیں کھولنی شروع کیں لیکن وہ نہ تو اِس شعر کا حق اَدا کرسکے اُور نہ ہی موضوع کا احاطہ کرتے ہوئے اُس خیال ہی کو واضح کر سکے جو ’جلوۂ دانش فرنگ‘ کو پیش کرنے کے بعد اُن کے کندھوں پر بطور ذمہ داری عائد تھا کہ وہ حاضرین و ناظرین اور سامعین کی ایک ایسی بیماری سے شفایابی کی تدبیر (علاج تجویز) کرتے جو بالخصوص پاکستانی معاشرے کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔

حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی ذات اور پیغام ایک تکون میں مضمر ہے۔ تصوف‘ محبت اور شاعری کی اس تروینی کے فیضان کا سرچشمہ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ قلزم بیکراں کی صورت ڈھل چکا ہے اور عالم انسانیت کے لئے قرآن و حدیث کا پُرامن پیغام درحقیقت اُمت مسلمہ کی تشکیل نو کر رہا ہے۔ ایبٹ آباد میں ہرمکتبۂ فکر اور عمر سے تعلق رکھنے والے افراد کا جم غفیر وقت مقررہ سے قبل ہی کامرس کالج گراؤنڈ میں لگے بیش قیمت شامیانوں میں سجی نشست گاہوں پر رونق افروز اور بیتابی سے منتظر تھے کہ پیرومرشد کے دیدار اُور روحانی فیض کے ساتھ علم و حکمت کے موتی بھی سمیٹ کر ہمراہ لے جائیں لیکن اِس ’سلسلۂ نور‘ کو عقیدت و احترام اور نظم وضبط کی خوبیوں سے زیادہ وسیع و بامقصد اُور ’’انقلاب کا پیش خیمہ‘‘ بنانے کے لئے اُمید ہے کہ ۔۔۔
1: آئندہ ایسی ہی کسی نشست سے قبل منصوبہ بندی کی جائے گی اور شریعت و طریقت جیسے وسیع موضوعات کا احاطہ اور تفصیلات پر مشتمل درس قرآن و حدیث کا خلاصہ کتابی یا تحریری شکل میں تقسیم کیا جائے گا۔

2: آغاز محفل میں حاضرین کو تلقین کی جائے گی کہ علم دین سیکھنے اور اِس پر عمل کرنے کی نیت کے ساتھ اَز اوّل تا آخر نہ صرف توجہ سے سماعت فرمائیں بلکہ وہ اپنی یاداشت پر کلی بھروسہ نہ کریں اور ضروری علمی ساتھ ساتھ نکات لکھتے بھی رہیں۔

3: ہر نشست کے اختتام سے قبل سُوال و جواب (سیشن) کی ترکیب کی جائے تاکہ سوچنے اور تفکر کرنے کا سلسلہ جاری رہے۔

4: تنظیم العارفین کے اشاعتی مرکز ’’العارفین پبلی کیشنز‘‘ کی مطبوعات تعارفی و رعائتی قیمتوں پر فروخت کے لئے پیش کی جائیں۔ آن لائن (alfaqr.net) ویب سائٹ کے ذریعے کتب کی مفت دستیابی ممکن بنائی جائے اُور تصانیف و درس قرآن و حدیث کو آمدنی کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ کتب بینی کا ذوق اور مطالعے کی پیاس (طلب) میں اضافہ بھی ہدف ہونا چاہئے۔

5: اجتماعات کے موقع پر اسلامی کتب میں تفاسیر قرآن و حدیث کے ساتھ دیگر اشاعتی اداروں کی مطبوعات بالخصوص اسلام اور جدید علوم و سائنسی موضوعات کے حوالے سے دیگر زبانوں سے تراجم بھی متعارف کئے جائیں تاکہ پیغام حق اور مطالعے کو وسعت کے امکانات لامحدود ثابت ہوں۔ دیگر کتب گھروں کی طرح اسلامی کتب کے سٹالز پر بھی رعائت (ڈسکاؤنٹ) کی پیشکش ہونی چاہئے پھر یہ خریدار کی مالی حیثیت پر منحصر ہو کہ وہ رعائت سے استفادہ کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔

6: حاضرین کی درجہ بندی اُور اُن کی عوام اور خواص میں تقسیم‘ غیرضروری رکھ رکھاؤ‘ نمائش‘ ظاہری اسراف‘ حفاظتی انتظامات کے نام پر ’وی وی آئی پی پروٹوکول‘ کی بجائے سادگی و ملنساری‘ باہم شیروشکر ہونے اور مختلف علاقوں سے آنے والے وفود کے ایک دوسرے تعارف کا وسیلہ بن کر ’’جماعت اصلاحی‘‘ کی مقبولیت‘ نظم و ضبط اور فعالیت میں مدد لی جا سکتی ہے۔

7: بیعت کے دونوں درجات متعارف کئے جائیں یعنی کسی دوسرے سلسلۂ طریقت کے مریدوں کو ’طالب‘ بنایا جائے اور سُلطان العارفین حضرت سخی سُلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کے ’سلسلۂ سروری قادری‘ سے وابستہ ہونے کے خواہشمندوں کو ’مرید‘ کیا جائے۔

8: مریدوں کے کوائف الیکٹرانک وسائل کا استعمال کرتے ہوئے جمع (ڈیٹابیس) کئے جائیں‘ تاکہ بعدازاں اُن تک رسائی کے ایک سے زیادہ وسائل سے استفادہ ممکن ہو۔ 9: نشست کا آغاز و اختتام اگر اجتماعی طور پر فرض نمازوں کی ادائیگی‘ سلسلۂ بیعت اور حلقۂ ذکر‘ درود و سلام کے بعد دعاؤں سے کیا جائے تو اِس سے روحانی تربیت کے اجتماعی عملی مظاہرے اُور جملہ اہتمام نہ صرف زیادہ بابرکت و بامقصد ثابت ہوں گے بلکہ تصوف (طریقت) کے طلبگار اپنے پیرومرشد کی امامت میں ’’اِستحکام پاکستان‘ اِتحاد اُمت مُسلمہ اُور اِنسانی معاشرے کی فلاح‘‘ کے لئے ’رب تعالیٰ سبحانہ‘ کے حضور دُعائیں بصورت قبول و مقبول اِلتجائیں بھی پیش کر سکیں گے۔

No comments:

Post a Comment