Thursday, January 26, 2017

Jan2017: Truth about the Traffic in Peshawar!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پشاور ٹریفک: سچ کیا ہے!؟

خاطرخواہ سنجیدگی کا فقدان ہے۔ اَنواع و اِقسام کے مسائل میں اُلجھے (صوبائی دارالحکومت) پشاور میں ’آمدروفت‘ سے جڑی کوفت ایک ایسا ’مرض‘ ہے‘ جس کی نہ صرف شدت میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ہر گزرتے دن کیساتھ اِضافہ ہو رہا ہے بلکہ اِس سے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا ’’کس و ناکس‘‘ کسی نہ کسی حد تک متاثر بھی ہے! تئیس جنوری کے روز پشاور ٹریفک کی منصوبہ بندی اُور اِسے فعال رکھنے کے لئے ذمہ دار (نگران) ’سینئر سپرٹینڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی)‘ صادق حسین بلوچ نے ’ضلعی اسمبلی‘ کے سامنے ٹریفک پولیس کی کارکردگی‘ درپیش مسائل اُور اُن کے حل سے متعلق تجاویز پیش کیں تو سب کو گویا سانپ ہی سونگھ گیا۔ حکمران ضلعی ہوں یا صوبائی‘ سیاسی ہوں یا غیرسیاسی اُن کا مزاج یہی ہوتا ہے کہ خود کو فرائض و ذمہ داریوں سے بری الذمہ رکھنا چاہتے ہیں! کیا ضلعی حکومت پشاور میں ٹریفک مسائل کے بارے واقعی (حقیقتاً) فکرمند ہے؟ اِس سوال کا جواب زیادہ کچھ کہنے اُور عملی مثالوں کے ذریعے پیش کرنے کی بجائے صرف اس ایک بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ’’ایس ایس پی ٹریفک کی طلبی ’’دو ڈھائی ماہ سے دیگر مصروفیات کی بناء پر ملتوی کی جاتی رہی‘‘ اُور جب اُنہیں حاضری کی سعادت بصورت اجازت مرحمت فرمائی بھی گئی تو ضلعی اسمبلی کے اراکین سے چالیس منٹ خطاب کرنے کی درخواست کو رد کرتے ہوئے صرف پندرہ منٹ میں ایک ایسے موضوع کا احاطہ کرنے کا حکم دیا گیا جس سے ضلع پشاور کی حدود میں رہنے والے ’’کم و بیش 70 لاکھ افراد‘‘ متاثر ہو رہے ہیں۔ 

اُس عمومی صورتحال کا تصور کیجئے جس میں ’’پشاور کی ابتر ٹریفک‘‘ کے باعث معمولات زندگی متاثر ہو رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں‘ دفاتر‘ تجارتی مراکز حتی کہ علاج گاہوں تک بروقت رسائی ممکن نہیں رہی! اگر ضلعی حکمرانوں کی دلچسپی کا معیار بلند اُور حقیقت پسندانہ ہوتا تو پشاور ٹریفک کا ’تکنیکی حال احوال گہرائی سے جاننے کے لئے طلب کئے گئے اجلاس کے اوقات مقرر نہ کئے جاتے اور نہ ہی وقت کے تابع اجلاس جیسے نادر موقع کو غنیمت سے کم سمجھا جاتا۔ دانشمندی تو یہ تھی کہ اِس اجلاس کی تیاری ٹریفک پولیس کی طرح متعلقہ ضلعی حکومتوں کے نمائندوں اور عملے نے بھی کی ہوتی اور ہر ٹاؤن میں ٹریفک مسائل‘ اُن کی اِصلاح بارے منتخب بلدیاتی اراکین کے مشاہدے‘ فہم و فراست‘ بصیرت اور کردار کے علاؤہ عوامی شکایات کی روشنی میں جائزلیا جاتا لیکن یہ ’خوش فہمی‘ شاید ہی ممکنہ طور پر کسی ’حادثاتی تبدیلی‘ سے عملی سانچے میں ڈھل جائے کہ صوبائی اُور ضلعی حکومتوں کی کارکردگی عام آدمی (ہم عوام) کی توقعات کے معیار پر پوری اُترے یعنی ’’خدا کرے کہ میری اَرض پاک پر اُترے۔۔۔وہ فصل گل‘ جسے اندیشۂ زوال نہ ہو!‘‘

خوش آئند ہے کہ پشاور کی ضلعی حکومت میں کئی ایسے اراکین بھی ہیں جنہیں عرب و مغربی ممالک میں ترقی کے ثمرات کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا اتفاق ہوا ہے اُور وہ جانتے ہیں کہ ترقی کسی ایک شعبے یا کسی مقام (سیڑھی) پر ٹھہرنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مسلسل اور مربوط عمل کا نام ہے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ’’تبدیلی(The Change)‘‘ کا حصول محض ’سیاسی و انتخابی عزائم‘ کی تکمیل و اظہار ہی سے ممکن نہیں بلکہ اِس کے لئے ہمہ وقت‘ امانت و دیانت‘ خوداحتسابی‘ بہترین طرزحکمرانی (گڈگورننس)‘ حاضر دماغی‘ فعالیت‘ مستعدی‘ عمومی ذہنی رجحانات و ترغیبات کی بلندی‘ حاضر وقت و مستقبل میں درپیش آنے والے مسائل اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے دستیاب وسائل سے بھرپور استفادے کی ضرورت رہتی ہے۔ 

پشاور میں ٹریفک کا مسئلہ ہو یا کوئی دوسری اُلجھن جب تک ارتقائی و مسلسل سوچ‘ تفکر اُور مشاورتی عمل کو وقت کی قید سے آزاد دیگر ترجیحات پر غالب نہیں کیا جاتا اُس وقت تک کچھ بھی نتیجہ خیز نہیں ہوگا۔ بدقسمتی نہیں تو کیا ہے کہ ماضی کی طرح موجودہ حکمرانوں کے سامنے بھی جہاں کہیں اُور جب کبھی پشاور اور اِس کے مسائل کا تذکرہ پیش کیا جاتا ہے تو صوبائی اور ضلعی فیصلہ ساز ہمالیہ کی چوٹیوں سے بلند اُور سمندروں کی گہرائیوں سے زیادہ گہرے روائتی بیانات سے ایک قدم آگے نہیں بڑھ پاتے! 

ضرورت تو یہ تھی کہ جب ضلعی اسمبلی اجلاس میں ’ایس ایس پی ٹریفک‘ کی جانب سے چالیس منٹ (یعنی ایک گھنٹے سے بھی کم دورانیہ) کچھ عرض کرنے کی موصول ہونے والی زبانی درخواست پر ’پندرہ منٹ‘ کی بجائے چارسو چالیس منٹ یعنی سات سے آٹھ گھنٹے مختص کر دیئے جاتے‘ پہلی مرتبہ ضلعی اسمبلی اراکین کے سامنے پیش ہونے پر اُنہیں اپنی بات پوری طرح مکمل کرنے کا بصدشکریہ و اطمینان موقع دیا جاتا۔ ضلعی نمائندگی کے تاج پوشوں کو ماتحت اداروں کے اعتماد کا جواب ہمہ تن گوش توجہ اور کارکردگی سے دینا چاہئے۔ حاکم تو پہلے ہی تعداد میں زیادہ ہیں اصل ضرورت تو کام کرنے والے غلاموں کی شدت سے محسوس ہو رہی ہے! تھوڑے کہے میں پوشیدہ مطالب‘ اشاروں اور استعاروں کو سمجھنے سے اگر تحریک انصاف کی قیادت قاصر ہے تو جان لے کہ وہ پشاور تو کیا کسی بھی دوسرے ضلع کی قسمت اور شکل و صورت نہیں بدل سکے گی۔ نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ ماضی کے سیاسی وغیرسیاسی اَدوار کی طرح اِس مرتبہ بھی کاغذی کاروائیوں اُور رسمی اِجلاسوں پر اکتفا کرتے ہوئے صوبے کے کسی بھی ضلع کے رہنے والوں کے حقوق کی ادائیگی اور اصلاح احوال سے متعلق معاملہ مبنی بر انصاف نہیں ہو پائے گا۔

No comments:

Post a Comment