ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جرائم کہانیاں!
یکم جنوری کو ایک پاکستانی کی فریاد جب ذرائع ابلاغ کے ذریعے عام ہوئی کہ اُس کی بیوی کو اغوأ کرکے افغانستان لیجایا گیا ہے‘ تو سپرئم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا جس کے بعد نہ صرف چند ہی روز میں مذکورہ شخص کی اہلیہ بازیاب ہوئی بلکہ منظرعام پر آنے والی ضمنی تفصیلات زیادہ حیران کن اور تشویشناک تھیں جن سے معلوم ہوا کہ افغان مہاجرین کی آڑ میں جرائم پیشہ عناصر پاکستان کے شہری و دیہی علاقوں میں وارداتیں کر رہے ہیں جس میں انسانی اسمگلنگ بھی شامل ہے اُور اِس کام کے لئے طریقۂ واردات یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ پہلے مرحلے میں غریب بستیوں میں مکان کم مدت (چند ہفتوں) کے لئے بھاری کرائے کے عوض حاصل کیا جاتا ہے۔ پھر اردگرد رہنے والوں سے تعلقات استوار کئے جاتے ہیں اور کسی غریب خاندان کو نشانہ بناتے ہوئے جوان لڑکی کا انتخاب کرکے رشتہ طے کیا جاتا ہے جس کے بعد راتوں رات لڑکی کو لیکر یہ خاندان غائب ہو جاتا ہے۔ تفتیش کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ شادی کا چکمہ دے کر خواتین کو اغوأ کرنے کی وارداتیں ایک تواتر سے رونما ہو رہی ہیں لیکن بہت سے واقعات میں بدنامی کے خوف سے پولیس کو مطلع نہیں کیا جاتا۔
سوال یہ ہے کہ اغوأ ہونے والی پاکستانی خواتین بناء سفری دستاویزات کیسے افغانستان پہنچ جاتی ہیں؟ پشاور سے براستہ متحدہ عرب امارات اسمگل ہونے والی خواتین کی سفری دستاویزات بناء تصدیق و ازخود کیسے بن جاتی ہیں؟
انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والی خواتین جسم فروشی کے دھندے میں استعمال کی جاتی ہیں جہاں ایسی خواتین کی عزت اور زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ بہت سے ایسے سوالات کا جواب تلاش کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جہاں جعلی دستاویزات تیار کرنے کے دھندے کا انکشاف ہوا‘ وہیں انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والی خواتین کی اکثریت کا قبائلی علاقوں سے ہوتے ہوئے افغان سرحد عبور کرانے والے گروہوں کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوئیں جو پوری ذمہ داری سے روائتی اور غیرروائتی راستوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اِس دھندے میں یقیناًبندوبستی اور قبائلی علاقوں کے ارباب اختیار بھی شریک جرم ہوں گے اور یہی وہ طاقتیں ہیں جو قبائلی علاقوں کی امتیازی حیثیت برقرار رکھنے اور انہیں خیبرپختونخوا میں شامل کرنے کی درپردہ مخالف ہیں۔ ایسا ضروری بھی نہیں کہ انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والی خواتین افغانستان یا بیرون ملک ہی اسمگل کی جائیں بلکہ پاکستان کے اندر بھی ایسے بااثر گروہ ممکنہ طورپر موجود ہو سکتے ہیں جو خواتین سے انسانیت سوز سلوک اور ان کی عزت و جان کو اہمیت نہ دیتے ہوں۔
خواتین کے خلاف دن دیہاڑے انسانیت سوز جرائم کی ایک سے بڑھ کر داستان میں افغان مہاجرین کی آڑ لینے والوں کے ملوث ہونا چند حفاظتی تدابیر کامتقاضی ہے۔ 1: آمدورفت کے راستوں پر سیکورٹی چیک بڑھایا جائے اور جہاں خواتین سفر کر رہی ہوں تو اُن سے داخلی و خارجی راستوں پر الگ الگ بیانات لئے جائیں۔ 2: تھانہ جات کی حدود میں رہنے والے کرایہ داروں کے کوائف جمع کرنے کے لئے پولیس کے الگ دستے بنائیں جائیں جو مستقل بنیادوں پر اِن کرایہ داروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکیں تاکہ اگر وہ کم عرصے میں ایک جگہ سے کسی دوسرے جگہ منتقل ہو رہے ہیں تو اس کی وجوہات جاننے کے علاؤہ دیگر تھانوں کو مطلع بھی کیا جاسکے۔ عموماً مختصر دورانئے کے لئے مکانات کرائے پر دینے کا رجحان عام ہے جس میں پولیس کو خبر نہیں دی جاتی اور اِسی صورتحال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے غیرملکی منظم جرائم پیشہ عناصر واردات کر جاتے ہیں۔ جرم کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا اور نہ ہی اُس وقت تک جرائم کے ارتکاب کی راہ‘ روکی جا سکتی ہے جب تک عوام ایسا کرنے میں قانون نافذکرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون نہ کریں۔ اپنے گردوپیش پر نظر رکھیں اور ایسی کسی بھی غیرمعمولی صورتحال سے قریبی تھانے کو گمنامی میں رہتے ہوئے بھی مطلع کیا جاسکتا ہے۔
انسانی اسمگلنگ ایک سنگین مسئلہ ہے اور کسی بھی مسئلے کا حل اُس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک کہ اُسے سمجھا نہ جائے اور دوسرے مرحلے میں اُسے حل کرنے کی ممکنہ تدابیر (سوچ بچار) کو عملی جامہ نہ پہنایا جائے۔ آج اگر بڑی تعداد میں مہاجرین نہ تو خیمہ بستیوں کی حد تک محدود رہے ہیں اور نہ ہی اُن کے کوائف کا اندارج (رجسٹریشن) ہو پائی ہے تو اِس کی بنیادی وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور افغان مہاجرین کے انتظامی میزبانوں کی نااہلی نہیں بلکہ افرادی قوت کی کمی تھی جو آج بھی ہے۔ ہمارے اردگر پھیلی ’جرائم کہانیاں‘ اِس بات کا بیان ہیں کہ آبادی کے تناسب سے پولیس تھانہ جات کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا‘ جس کے باعث نہ صرف افغان مہاجرین کی آڑ لینے والے جرائم پیشہ عناصر بصورت گروہ پھیلتے چلے گئے بلکہ انہوں نے سہولت کاری کا کام کرنا بھی شروع کردیا اور ایک جرم سے شروع ہونے والی کہانی پھر جرائم کی حد تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ جرائم کے آلۂ کار پھر دہشت گردی کے معاون کار بھی بنے۔
لمحۂ فکریہ ہے کہ اگر ستائیس فروری سے شروع ’انسداد پولیو‘ کی نئی مہم کے لئے حفاظتی انتظامات کرتے ہوئے پشاور کے حساس مقامات کے اردگرد اور ریڈ زون میں ’ریپیڈ ریسپانس فورس‘ گشت کر سکتی ہے اور پشاور کے شہری علاقوں کو 4 جبکہ نواحی (دیہی) علاقوں کو 11 حصوں (زونز) میں تقسیم کیا جاسکتا ہے تو ’انسداد جرائم‘ کے لئے بھی ہنگامی بنیادوں پر اسی نوعیت کی حکمت عملی کیوں اختیار نہیں کی جاسکتی؟
No comments:
Post a Comment