ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
انقلاب: گماں بہت ہے!؟
اُنیس سے پچیس فروری کے درمیان کراچی کو قریب سے دیکھنے کا موقع تو بہت سے راز کھلے جیسا کہ سال دوہزار سولہ میں کے دوران اگر 52 ہزار 552 سٹریٹ کرائمز (رہزانی و دیگر چھوٹے جرائم) رونما ہوئے تو صورتحال (اوسط) پہلے دو ماہ کے گزرنے پر زیادہ مختلف نہیں! ہر سمت پھیلتے کراچی میں اکثریت کی زندگی بے ہنگم اور بنیادی آبادی سہولیات سے محروم ایک انجانے خوف کا شکار ہے۔ کراچی نے ہنسنا اُور مسکرانا تو ترک نہیں کیا لیکن آنکھوں اور الفاظ میں چھپا دُکھ کہیں کہے اور کہیں بناء کہے صاف ظاہر تھا۔ پچیس سال قبل جب چھ ماہ کے لئے کراچی ’رینجرز‘ کے حوالے کیا گیا تو آج تک صورتحال میں بہتری ضرور آئی ہے‘ لیکن اِس قدر لمبے عرصے تک طاقت کے بے انتہاء استعمال کے باوجود بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے‘ جس کی وجہ سے کراچی پر کبھی زیادہ تو کبھی کم گہرے خوف کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں! جن کے اثر سے خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی غیرسرکاری تنظیموں کے نمائندہ وفود کی ورکشاب بھی محفوظ نہ رہ سکی اور اِس تربیتی نشست کے شرکاء زیادہ تر وقت ایک چاردیواری کی حد تک ہی محدود رہے۔ امریکہ کے امدادی ادارے ’یوایس ایڈ‘ کے مالی تعاون سے ’انسٹیٹویٹ آف بزنس منیجمنٹ (یونیورسٹی)‘ میں نشست کا انعقاد ’صنفی مساوات پروگرام‘ کے اختتام (اٹھائیس فروری) سے قبل انعقاد اگر اِس حکمت عملی کے آغاز میں کیا جاتا تو زیادہ بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے تھے بہرحال ’این جی اُوز‘ کی دنیا میں سب باتیں اور حکمتیں سب کی سمجھ میں آ جائیں ایسا ضروری تو کیا ممکن بھی نہیں ہوتا۔ ایسی ہر نشست سوالات ختم کرنے کی بجائے اُن میں مزید اضافہ کرتی چلی جاتی ہے۔ سماجی ترقی میں صنفی کردار کی ماہرہ ڈاکٹر ثمرہ سے لیکر بزنس منیجمنٹ (فنڈ ریزنگ) کے کتابی تعارف کے بے تاج بادشاہ ’ڈاکٹر جاوید احمد نے محتاط اور کبھی کبھار غیر محتاط یعنی سچائی سے پاکستان میں ’صنفی مساوات‘ کے حوالے سے الجھنوں کو سلجھانے کی کوشش کی‘ جو اپنی جگہ قابل ستائش کوشش تھی۔
فروری کے تیسرے اور چوتھے ہفتے‘ کراچی میں قیام کا نادر موقع ایک ایسے وقت میں ملا جبکہ ملک میں امن کی بحالی کے لئے ایک نئی فوجی کاروائی نئے عزم اور نئے دعوؤں سے شروع کی گئی ہے لیکن برسرزمین حقائق کیا ہیں؟ کراچی کے رہنے والوں کی اکثریت یقین کی حد تک یہ بات زور دے کر کہتی ہے کہ سال دو ہزار سولہ کی طرح دوہزار سترہ بھی زیادہ مختلف ثابت نہیں ہوگا‘ کیونکہ انسداد دہشت گردی کا ہدف اُس وقت تک عملاً حاصل نہیں ہوسکتا جب تک سیاست اور جرائم پیشہ عناصر کے درمیان ایک دوسرے کی جملہ ضروریات پوری کرنے کے لئے تعاون (بشمول انتخابی کامیابی کی ضمانت تعلق) ختم نہیں کردیا جاتا۔ جب تک مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے بارے میں قوم کی رائے ایک نہیں ہو جاتی! کراچی میں رینجرز کی کامیاب کاروائی بھی اُس وقت تک منطقی طور پر اختتام پذیر نہیں ہوگی‘ جب تک اندرون سندھ اور پنجاب میں بلاامتیاز اور سخت گیر فوجی کاروائی عمل میں نہیں آتی۔ وقت ہے کہ پاکستان کے مفاد پر ہر قسم کی مصلحتوں کو قربان کردیا جائے!
کراچی صرف کاروباری اور صنعتی یا آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہی نہیں بلکہ اِس کا ادبی چہرہ بھی ہے۔ اسکائنز نامی غیرسرکاری تنظیم کی روح رواں سقاف یاسر اور اِسی تنظیم کی نمائندہ سماجی کارکن‘ ایک ابھرتی ہوئی شاعرہ شائستہ چودھری کے ساتھ تبادلۂ خیال سے اِنسانی تاریخ کے تناظر میں عالمی اور بالخصوص کراچی کے عمومی حالات پر غور کرنے کا موقع ملا کہ صرف مادی ترقی کے علمبردار ہی نہیں بلکہ دنیا میں رونما ہونے والے سیاسی اور سماجی انقلابات میں شعراء‘ مصنفین اور دانشوروں کا کردار کلیدی رہا ہے جس کی بدولت (تناظر میں) آج کے درپیش مسائل (بحرانوں) کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی سماج یا معاشرے میں جہاں افراد معاشرتی انتشار‘ معاشی مشکلات اُور سماجی ناانصافیوں کا شکار ہوں وہاں سب سے پہلے علمی و ادبی طبقہ بیدار ہوتا ہے۔یہ طبقہ اپنی ادبی تخلیقات اور تقاریر سے عام افراد کو یہ احساس جگاتا ہے کہ اُنہیں معاشرتی استحصال کا اژدھا نگل رہا ہے‘ ایسی صورت میں کسی معاشرے میں انقلاب کی پیدائش (سماجی تغیر) ’’انسانی بیداری‘‘ کا ثمر ہوتے ہیں۔ برصغیر میں برطانوی سامراجی حکومت کے خلاف بیداری کی لہر جنوبی ایشیاء سے منسلک علمی و ادبی شخصیات نے بھی اُنیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے ابتدائی و درمیانی عرصے میں اہم تاریخی کردار ادا کیا۔ کراچی میں قیام کے دوران ’بائیس فروری‘ کا دن انقلابی شاعر جوشؔ ملیح آبادی (پانچ دسمبر 1894ء سے 22 فروری1982ء) کی برسی سے منسوب ہے‘ جنہوں نے برطانوی راج کے خلاف ہی نہیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی تحریکِ آزادی کو فروغ دینے میں اپنی انقلابی، سیاسی و نظریاتی شاعری کے ذریعے اہم کردار اَدا کیا۔ ’’سنو اے بستگان زلف گیتی: ندأ کیا آ رہی ہے آسماں سے۔۔۔ کہ آزادی کا اِک لمحہ ہے بہتر: غلامی کی حیات جاوداں سے!‘‘
بیسویں صدی کے وسط سے لے کر اب تک شاید ہی کوئی ایسا شاعر‘ ادیب‘ دانشور یا لکھاری ہو گا‘ جو جوشؔ کی شاعرانہ عظمت کا قائل یا اُن کی شاعری سے متاثر نہ ہو۔ جوشؔ کے ہاں معاشرے کے سلگتے سماجی مسائل پر بے باک تبصرہ ہے‘ وہ بھوک اور افلاس کی مذمت کرتے ہیں تو کبھی انسانی جہل پر نوحہ خوانی کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی ظالم حکمرانوں کو للکارتے ہیں اور کبھی عوامی فکری جمود اور بے حسی پر شکوہ کرتے ہیں! یہی طرزعمل (انسانی بیداری) لمحۂ موجود کی بھی ضرورت ہے کہ ہم میں ہر ایک (خاطرخواہ) ’جوش‘ کا مظاہرہ کرے! کراچی میں ہر قدم پر جوشؔ کی یاد آتی رہی۔ ’’جس دیس میں آباد ہوں بھوکے انسان: احساسِ لطیف کا وہاں کیا امکان۔۔۔اِک فکرِ معاش پر نچھاور سو عشق: اک نانِ جویں پہ لاکھ مکھڑے قربان!‘‘
جوشؔ کی شاعری کیا ہے مگر اُس میں انسان کو تقدم حاصل ہے اُور وہ عظمتِ انسان کی اساس ہے۔ کیا بُرا چاہتے ہیں اگر جوشؔ ’’انسان کی جبیں‘‘ پر سربلندی اور سرفرازی کا تاج سجا دیکھنا چاہیں! جوشؔ ہر اُس فکر‘ نظامِ حکومت اور نظامِ زندگی کو مسترد کرتے ہیں جو انسان کو اسیر کر کے فکری پرواز میں حائل ہوں‘ جوش مغربی سرمایہ داری‘ جاگیرداری‘ ایشیائی ملوکیت اور عرب مطلق العنانیت کے مخالف ہیں۔ جوشؔ نے اپنے اجداد کی مثل خود تو (بغاوت کی) تلوار نہیں اُٹھائی لیکن قلم (خیالات) کو بطور شمشیر استعمال کیا اور یہی انقلابی پیغام (لب لباب) گماں کی حدوں سے بہت آگے حالات کی تبدیلی کے لئے دعوت فکروعمل ہے۔
No comments:
Post a Comment