ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خسارہ در خسارہ
پاکستان سے محبت عملی اظہار کی متقاضی ہے صرف قومی ترانے کے احترام میں کھڑا ہونا یا کسی ملی نغمے پر جھومنے کا نام ’حب الوطنی‘ نہیں بلکہ اِس کے کئی دیگر ایسے پہلو بھی ہیں جو خاطرخواہ غور نہ ہونے کی وجہ سے ہماری نظروں سے اُوجھل ہیں جیسا کہ غیرملکی درآمد شدہ اشیاء کا غیرضروری ’بطور آسائش یا فیشن استعمال۔‘ درآمدات پر بڑھتا ہوا یہ انحصار کسی بھی طرح نہ تو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کے لئے خوش آئند (تعمیری) ہے اور نہ ہی اِس سے پیدا ہونے والا رہن سہن‘ عادات اور مقابلے کی فضاء سماجی شعور کے لئے مثبت و پائیداری کا باعث قرار دیا جاسکتا ہے۔ کراچی میں قیام کے دوران کئی ایسے کثیرالمنزلہ وسیع و عریض ’شاپنگ مراکز‘ جانے کا اتفاق ہوا‘ جو آمدنی کے خاص طبقات کی قوت خرید اور سوچ کی عکاسی کر رہے تھے اُور جہاں نظروں کو خیرہ کر دینے والی چمک دمک کے درمیان درجنوں کی تعداد میں غیرملکی اشیاء کی فروخت کے مراکز ایک سے بڑھ کر ایک کشش کا سامان رکھتے تھے لیکن اِس سے بھی زیادہ حیرت کا باعث یہ امر تھا کہ اِن انتہائی مہنگی غیرملکی اشیاء کی خریداری کے مراکز پرہجوم تھے!
ڈولمین سنٹر ہی کی مثال لیں جہاں گندے اور گیلے پاؤں کے ساتھ گھسنے پر پابندی تو عائد کی گئی ہے لیکن وہاں خریدار کی ذریعہ آمدنی کیا ہے اور منٹوں میں ہزاروں لاکھوں روپے کی خریداری کرنے والی ذہنیت و قوت خرید کے پیچھے محرکات کیا ہیں‘ اِس بارے کوئی کسی سے نہ تو کچھ پوچھتا ہے اور نہ ہی پر رونق شاپنگ مالز میں کوئی ایک دوسرے سے نظریں ملاتا ہے‘ صرف اردگرد کے ماحول ہی سے نہیں بلکہ ’ڈولمین سٹی‘ میں خود سے بے نیازی عام دیکھی جا سکتی ہے جہاں یہاں وہاں بیٹھی‘ چلتی پھرتی یا پھر خریداری کرتی نسلوں کی نسلیں‘ قدم بہ قدم چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں!
پاکستان کا تجارتی خسارہ کیا ہے کیوں ہے اِس حقیقت کے بارے میں سبھی کو کچھ نہ کچھ معلوم ہے لیکن درآمدات پر بڑھتا ہوا انحصار اور ’برانڈز‘ کی ہوس نے صورتحال کو زیادہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے‘ اِس بارے زیادہ غور نہیں کیا جاتا۔ ملک کی قومی ائرلائن (پی آئی اے) نے مہنگی لیز پر A320 طیارے لئے جس میں سوار ہوتے ہی ’بزنس ریکارڈر‘ کی شہ سرخی پر نظر پڑی‘ کہ ’’اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے زرمبادلہ کے ذخائر کو کم کرنے والے خطرنات اور تجارتی خسارے پر کنٹرول کے لئے درآمد کی جانے والی کئی چیزوں پر ایک سو فیصد مارجن کا نفاذ کرنے کا اعلان کر دیا ہے‘‘ اور یہ خبر نہایت ہی نمایاں طور پر شائع کی گئی تھا جبکہ دیگر قومی اخبارات میں اِس خبر کو اگرچہ زیادہ اہمیت نہیں دی گئی لیکن خوش آئند تھا کہ ہمارے کسی قومی ادارے کو (کم سے کم) اِس بات سے خطرہ تو محسوس ہوا ہے کہ غیرملکی ثقافت اور رہن سہن کی نقل یا اُسے اپنانے کی دھن کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔
درآمدات پر انحصار کم کرنے کی اِس کوشش کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہونے کی زیادہ توقع نہیں کیونکہ جو طبقہ مہنگی ’برانڈیڈ(branded)‘ اشیاء کی خریداری کا عادی ہے‘ اور وہ اُس کے معمول کی رہن سہن کا جز بن چکا ہے وہ ان اقدامات سے نہ تو متاثر ہوگا اور نہ ہی درآمدی اشیاء کی حوصلہ شکنی ممکن ہو سکے گی! یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جن اشیاء کی درآمد پر سو فیصد مارجن کے نفاذ میں گاڑیاں اُور اُن کے پرزہ جات‘ موبائل فون‘ سگریٹ‘ جیولری‘ کاسمیٹکس‘ ذاتی استعمال کی اشیاء‘ برقی و دیگر گھریلو آلات اور اسلحہ شامل ہے لیکن محض برآمدات کی اس طرح حوصلہ شکنی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا جب تک کہ اُن کے متبادل اشیاء پاکستان کے اندر (میڈ اِن پاکستان) فخریہ طور پر تیار نہیں ہوں گی۔
پاکستان کی معروف جامعہ ’انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (کراچی)‘ کے معلم مدحت صاحب جب ’برانڈنگ‘ کے حوالے سے کاروباری حکمت عملی کے مختلف پہلوؤں کو کھول کھول کر بیان کر رہے تھے تو اُس دوران ایک موقع پر یہ نکتہ بھی زیربحث آیا کہ کسی برانڈ کی خصوصیات میں اُس کا معیار اور پائیداری بھی شامل ہوتی ہے۔ کیا پاکستان میں ایسی مصنوعات نہیں بن سکتیں جو معیار و پائیداری میں اپنی مثال آپ ہوں؟ کیا ’میڈ اِن پاکستان‘ برانڈ قابل بھروسہ نہیں ہوسکتا؟ ملک کے ہر شہر میں سڑکوں پر درآمد شدہ گاڑیوں کی تعداد میں ہرسال اضافہ ہو رہا ہے تو کیا یہ ترقی اور قوت خرید بڑھنے کی عکاسی ہے یا کچھ اُور؟ ذہن نشین رہے کہ سال دوہزار پندرہ سولہ کے دوران ایک ارب چھبیس کروڑ تیس لاکھ امریکی ڈالرز کی غیرملکی گاڑیاں اور پرزہ جات پاکستان درآمد کئے گئے۔ یہ اضافہ سالانہ کم وبیش چالیس بنتا ہے جبکہ رواں مالی سال (دوہزار سولہ سترہ) کے اعدادوشمار کے مطابق الاماشاء اللہ‘ سات ماہ کے دوران غیرملکی گاڑیوں کی مد میں پاکستان ایک ارب ایک کروڑ ڈالر کی درآمدات کر چکا ہے! اِسی طرح موبائل فون کا استعمال بھی ہمارے ہاں حسب ضرورت یا حسب آمدنی و حال نہیں۔ حیرت انگیز طور پر گذشتہ مالی سال (دوہزار پندرہ سولہ) کے دوران پاکستان میں نصف ارب سے زیادہ (66 کروڑ 70لاکھ ڈالر) مالیت کے موبائل فون درآمد کئے گئے جبکہ رواں برس (دوہزار سترہ) میں مزید اضافہ دیکھا جا رہا ہے!
رواں مالی سال (دوہزار سولہ سترہ) کے ابتدائی سات ماہ کے دوران موبائل فون کی درآمدات تینتیس کروڑ چالیس لاکھ ڈالر کے قریب پہنچ چکی ہیں! کیا یہ عجب نہیں کہ ہمارے تعلیمی اِداروں میں تحقیق تو ہو رہی ہے لیکن اُسے عملی طور پر اختیار نہیں کیا جارہا؟ یہی وجہ تھی کہ امریکہ کے امدادی ادارے یو ایس ایڈ (USAid)‘ نے ’صنفی مساوات پروگرام (جینڈر ایکویٹی پروگرام)‘ میں اِس بات کو بھی شامل کیا کہ صنعتی شعبے سے متعلق ’نئے تصورات (آئیڈیاز)‘ کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اِس سلسلے میں ’سرحد چیمبرآف کامرس‘ (پشاور) کے زیراہتمام رواں ہفتے ایک مقابلے کا انعقاد بھی ہوا‘ جس میں ایک نجی جامعہ ’سرحد یونیورسٹی‘ کے ہونہاروں نے ’پہلی پوزیشن‘ حاصل کی اور اِسی نوعیت کے پروگرام ملک گیر سطح پر جاری ہیں جیسا کہ ایک ورکشاپ میں سیالکوٹ سے مدعو ڈاکٹر زریں فاطمہ سے تبادلۂ خیال میں معلوم ہوا کہ پاکستانی جامعات میں ہونے والی چھوٹے پیمانے کی تحقیق کو صنعتوں تک منتقل کرنے اور اُن کی ضرورت (نیڈ بیسڈ) کے مطابق تحقیق کا عمل جاری ہے تو اُمید کے چراغ روشن ہوئے کہ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!‘‘
پاکستانی فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنے کے ساتھ یکساں ضروری یہ امر بھی ہے کہ نوجوان نسل کی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے ہاں تحقیق و صنعتی معیار بلند کیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ توجہ مرکوز رہے کہ محنت کشوں کے حقوق کی ادائیگی کے بغیر یہ ہدف حاصل نہیں ہوگا۔ ترقی یافتہ ممالک میں صرف صنعتکاروں کے اثاثوں میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ معیاری صحت و تعلیم اور بنیادی و خصوصی سہولیات ہر خاص و عام کے لئے یکساں فراہم کی جاتی ہیں۔
پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اکتوبر دوہزار سولہ کے بعد سے رواں ماہ کے وسط میں کم ہوئے ہیں تو اِس کا پائیدار حل موجود ہے‘ لیکن اُس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا توکیوں؟ سردست پاکستان میں غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر اکیس اعشاریہ نو ارب ڈالر ہیں‘ جبکہ اسی عرصے کے دوران گذشتہ سال یہ چوبیس ارب ڈالر سے زیادہ تھے! تعلیم و تحقیق اور سماجی سطح پر شعور اُجاگر کرنے کی ذمہ داری اگر سیاسی حکومت پر عائد ہے تو مرکزی بینک کو درآمدات میں اضافے کی حوصلہ شکنی کے لئے رسمی اور واجبی نمائشی اقدامات سے کچھ زیادہ‘ کچھ جنوبی و انقلابی اقدام کرکے دکھانا ہوگا‘ بالخصوص اشیائے خوردونوش کی درآمدات کم کرنے کے لئے سوچ بچار عام کرنا ہو گی۔ اگر پاکستانی کچھ کھا یا پی رہے ہیں تو اِس سے قبل بھی سوچ کر فیصلہ کریں‘ اِس قدر شعور خودبخود پیدا نہیں ہوگا۔ غیرملکی درآمد شدہ آئس کریم اور مشروبات پر پانی کی طرح پیسہ بہانے کی حوصلہ شکنی کے ساتھ متبادل زیادہ بہتر برانڈز متعارف کرانے کی صورت ہدف کا حصول پائیداری سے حاصل کرنا ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
پاکستان جیسا زرعی ملک کہ جس کی 75فیصد سے زائد معیشت کھیتی باڑی سے وابستہ ہے اگر وہ کھانے پینے کی اشیاء کی درآمدات پر سالانہ اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے تو کیوں؟ سال دوہزار پندرہ سولہ کے دوران مجموعی طور پر چار ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی اشیائے خوردونوش پاکستان ہضم کر گیا اور اگر پاکستان رواں مالی سال (دوہزار سولہ سترہ) میں اب تک‘ دو ارب ساٹھ کروڑ ڈالر ڈکار چکا ہے تو یہ قطعی معمولی نہیں اور نہ ہی مثبت (قابل رشک) رجحان ہے۔ کاش کہ ہم سمجھ سکتے کہ پاکستان اور پاکستانیت کے بھی کچھ الگ الگ تقاضے ہیں!
No comments:
Post a Comment