ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
صنفی مساوات: ممکنات کی حد!
پاکستان میں امریکہ کے امدادی ادارے ’یو ایس ایڈ‘ کی سرگرمیاں کم وبیش 100سے زائد شعبوں کا احاطہ کرتی ہیں جن میں صنفی مساوات پروگرام (جینڈر ایکویٹی پروگرام) ایک ایسا عنصر ہے‘ جو اپنی اہمیت و افادیت کے لحاظ سے منفرد و غیرمعمولی ہے۔ خواتین کے خلاف امتیازات کے خاتمے اور مساوات پر مبنی تصورات کی تبلیغ و تشہیر کرنے کی اِس حکمت عملی کا اطلاق ’عورت فاؤنڈیشن‘ کے ذریعے کیا گیا جن کی زیرنگرانی ضلعی سطح پر ذیلی غیرسرکاری تنظیموں (این جی اُوز) نے ملک گیر سرگرمیاں کے ذریعے ایک معاشرے میں ایک ایسی سوچ کو پروان چڑھایا۔ اِسی پروگرام کا نتیجہ تھا کہ مرد اور خاتون کے درمیان صنفی اور جنسی امتیازات کے درمیان باریک فرق کو واضح کیا گیا اور معاشرے کی ترقی میں اِن دونوں اکائیوں کے کردار سے یکساں استفادہ کرنے کی ضرورت کو اُجاگر کرتے ہوئے یہ تصور پیش کیا گیا کہ ترقی کا معنوی عمل صنفی اکائیوں کے درمیان افراق و تفریق سے نہیں بلکہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اور ترقی کے یکساں مواقعوں کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ’جینڈر ایکویٹی پروگرام‘ کے تحت پاکستان کے لئے امریکی امداد کا حجم ’’چار کروڑ (40ملین) ڈالر تھا جس کا ساٹھ فیصد سے کم حصہ ہی استعمال کیا جاسکا۔ اگرچہ بیرونی امداد سے ملنے والے مالی وسائل سے مکمل استفادہ نہ کرنے جیسی خامی اِس بات کا سبب نہیں لیکن ’یو ایس ایڈ‘ کی جانب سے ’جینڈر ایکویٹی پروگرام‘ کو رواں برس ختم کرنے کی بنیادی وجہ ’صدر امریکہ ٹرمپ‘ کی ترجیحات ہیں جنہوں نے بیرون امریکہ ’یوایس ایڈ‘ کے پروگراموں کو بتدریج اور مرحلہ وار ختم کرنے کی بجائے فوری طور پر جہاں ہے اور جیسا ہے کہ بنیاد پر منجمند کرنے کے احکامات صادر فرما دیئے ہیں اور یہی وجہ ہے آنے والے چند ماہ کے دوران پاکستان میں ’یو ایس ایڈ‘ کی سرگرمیاں رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی جائیں گی۔
پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو حقوق نسواں اور صنفی مساوات کے اِس پروگرام کا جاری رہنا اِس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ ابھی اِس کے مقرر کردہ جملہ اہداف حاصل نہیں ہو پائے اور نہ ہی انتھک و پرخطر عملی مشقوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہونا شروع ہوئے ہیں کہ یکایک اِس حکمت عملی (پروگرام) میں شامل ذیلی منصوبے (پراجیکٹ) ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے‘ اور بعدازاں ’جینڈر ایکویٹی پروگرام‘ کی بساط بھی لپیٹ دی جائے گی۔ یہ ایک مایوس کن صورتحال ہے بالخصوص اُن تمام متعلقہ ’غیرسرکاری تنظیموں‘ کے لئے جو سال2018ء کے عام انتخابات سے قبل خواتین کی سیاسی عمل میں زیادہ سے زیادہ شرکت یقینی بنانے کے حوالے سے کام کر رہی تھیں۔
سال 2010ء میں شروع ہونے والے ’جینڈر ایکویٹی پروگرام‘ کے چار بنیادی اہداف و مقاصد یہ تھے 1: انصاف تک رسائی‘ خواتین کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور اِس ذریعے سے صنفی مساوات کا حصول کیا جائے۔ 2: خواتین کو بذریعہ شعور و خواندگی خودمختار (بااختیار) بنانا اُور انہیں گھر‘ کام کاج کے ماحول اور معاشرے میں اپنے آئینی حقوق کے بارے علم ہو سکے۔ 3: صنفی بنیاد پر تشدد کی حوصلہ شکنی اور اِس منفی رویئے کے خلاف جدوجہدکرنا اور 4: ایسے اداروں کی استعداد میں اضافہ (سرپرستی) کرنا جو خواتین کو خودمختاری اور صنفی عدم مساوات کو ختم کرنے کی مہارت یا اِن شعبوں میں عملی کام کا تجربہ رکھتی ہیں۔ اِن چار بنیادی اہداف کے حصول کے لئے 12 مختلف مراحل میں الگ الگ مالی امداد مختص و فراہم کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان نے ’صنفی مساوات پروگرام‘ سے کیا سیکھا (حاصل کیا) اور اِس کے ثمرات و اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا اِس حکمت عملی کو جاری رکھنا چاہئے‘ اگر ہاں تو کیوں؟
خیبرپختونخوا کے چار (ایبٹ آباد‘ ہری پور‘ سوات‘ پشاور) اور مجموعی طور پر پاکستان کے بارہ اضلاع میں خواتین کو انصاف تک رسائی کے تحت ایک ہزار سے زائد خواتین کو مفت قانونی امداد دی گئی بصورت دیگر وہ اپنے آئینی حقوق سے محروم رہتیں اور انتہاء یہ بھی ہو سکتی تھی کہ انہیں زندہ رہنے ہی سے محروم کر دیا گیا ہوتا! غنیمت نہیں تو کیا ہے کہ اِسی پروگرام کے تحت قریب چوبیس سو وکلاء (خواتین و حضرات) کے صنفی مساوات کے حوالے سے تصورات واضح کئے گئے۔ علاؤہ ازیں اضلاع کی سطح پر بار ایسوسی ایشن کی استعداد میں اضافہ کیا گیا۔ اِسی پروگرام کے تحت کم و بیش پانچ لاکھ خواتین کے قومی شناختی کارڈز بنوائے گئے اور ووٹر لسٹوں میں اُن کے ناموں کا اندارج کرایا گیا۔ ملک بھر میں خواتین کے لئے بارہ ’پناہ گاہیں‘ بنائی گئیں جہاں انہیں آئینی تحفظ فراہم کیا گیا۔ خواتین کو ہنرمندی کی تربیت دی گئی۔ خواتین کو خودروزگار کے لئے مالیاتی اداروں سے آسان شرائط پر قرض دلوائے گئے۔ خواتین سے متعلق قوانین سازی کے عمل اور پہلے سے موجود قوانین کے بارے میں شعور اُجاگر کیا گیا۔
صنفی بنیاد پر تشدد معاشرے کے نسبتاً کمزور اکثریتی طبقے سے امتیازی سلوک کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ دو سو سے زائد مقامی ’این جی اُوز (غیرسرکاری تنظیموں)‘ کو مالی امداد دی گئی‘ اُن کی استعداد میں اضافہ کیا گیا جو ایک ایسا اثاثہ ہے۔ اشاعتوں اور تشہیری مواد کے ذریعے صنفی بنیادوں پر تشدد کے بارے شعور میں اضافہ ایک ایسا مشکل ہدف تھا جس کا حصول سب سے بڑی کامیابی ہے اور اسی سے معاشرے میں ایک قسم کی برداشت بھی پیدا ہوئی۔
صنفی مساوات (خواتین کی ترقی و حقوق کا تحفظ) ایک ایسا موضوع اُور شعبہ ہے‘ جس کے حوالے سے حکومت پاکستان کی عملی اقدامات اُور دلچسپی کم ترین سطح پر ہے۔ سرکاری اداروں میں سوائے تنخواہیں‘ مراعات اُور بیرون ممالک دوروں سے زیادہ آگے کی سوچ نہیں پائی جاتی! اگر ’جینڈر ایکوٹی پروگرام‘ نامی حکمت عملی کا دائرہ کار مزید وسیع کرنے کی بجائے اِسے کم کرتے ہوئے ختم کیا جاتا ہے تو نقصان صرف اور صرف اُن خواتین کا ہوگا‘ جنہیں ایک طرف صنف کی بنیاد پر امتیازی روئیوں اور ناموافق ماحول کا سامنا ہے بلکہ اُن کے وراثت اور حق رائے دہی جیسے بنیادی آئینی حقوق بھی غصب ہیں!
![]() |
epaper.dailyaaj.com.pk/index.htm or http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=abbotabad&page=20&date=2017-02-22 |
No comments:
Post a Comment