Tuesday, February 21, 2017

Feb2017: Peace in Karachi, at any cost.

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
امن: بہرقیمت!
کراچی میں امن و امان کی صورتحال مثالی نہیں لیکن اگر اِس کا موازنہ گزشتہ چند دہائیوں سے کیا جائے تو غیرمعمولی بہتری آئی ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے‘ بے ہنگم آبادی کے اِس امیر شہر کو دہائیوں تک نظرانداز کرنے کے سبب مسائل بڑھتے بڑھتے بحرانوں کی شکل اختیار کرتے رہے‘ جن میں نسلی اُور لسانی بنیادوں پر سیاسی مفادات کے لئے منظم جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی‘ فرقہ واریت‘ سبقت و مقبولیت کے لئے غیرصحت مند مقابلے کا رجحان‘ اسلحے‘ منشیات کی خریدوفروخت اُور کالا دھن کمانے‘ بیرون ملک منتقلی اُور سرکاری محکموں میں حد سے زیادہ سیاسی مداخلت کی ایک سے بڑھ کر ایک مثال موجود ہے مقامی افراد کی اکثریت کا کہنا ہے کہ ’’اِن منفی رجحانات میں اگرچہ بڑی حد تک کمی آئی ہے لیکن صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں ہی کو تن تنہا ’امن کی بحالی‘ کے لئے ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ سیاسی حکمرانوں کو بھی اپنی ترجیحات اور فیصلوں میں کراچی کو اہمیت و ترجیح دینا ہوگی۔
روشنیوں کے شہر کراچی میں خطرات اور امن کی بحالی کے امکانات (توقعات اُمیدیں اور وسائل پر انحصار) کم نہیں لیکن زندگی کی رونقیں جس تیزی (رفتار) سے بحال ہو رہی ہیں‘ اُس سے عام آدمی کا اعتماد بڑھا ہے۔ پاکستان رینجرز سندھ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل محمد سعید پُرامید ہیں کہ قانون شکن اور دہشت و انتہاء پسندی پھیلانے والے عناصر کے خلاف جاری کاروائیوں (آپریشن) میں توقعات سے بڑھ کر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں‘ جن کا ثبوت یہ ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 91فیصد جبکہ دہشت گردی کے واقعات میں 72 فیصد کمی آئی ہے! کراچی آپریشن میں اب تک پندرہ سو تیرہ دہشت گرد گرفتار ہوئے ہیں۔ نو ہزار سے زائد چھاپوں کی داستان میں دس ہزار سات سو سولہ کی تعداد میں ہتھیار (اسلحہ) بھی برآمد کرنے کا دعویٰ ہم جیسے صحافیوں کے لئے یقین کرنے کا ’’کافی جواز‘‘ تو ہو سکتا ہے لیکن کراچی کے عام آدمی کی نظر میں داخلی طاقتوں سے نمٹنے کے لئے جس طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے وہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہے اُور اگر قانون نافذ کرنے والے ’خفیہ اُور ظاہری معلومات‘ کی بنیاد پر ’آپریشنز‘ کئے جائیں تو مطلوبہ اہداف اور نتائج کم وقت میں حاصل ہو جائیں گے۔ رینجرز کا دعویٰ زمینی حقائق کی تصدیق کرتا ہے کہ بھتہ خوری اور اغوأ برائے تاوان کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہیجن کی شرح بتدریخ 93فیصد اور 86فیصد کم ہونا قطعی معمولی بات ہے! اب کراچی میں ’علاقہ غیر (نوگو ایریاز)‘ نہیں رہے۔‘‘ وفاق کے زیرکنٹرول کم و بیش ایک لاکھ افرادی قوت پر مبنی نیم فوجی دستے ’پاکستان رینجرز‘ کی دو الگ الگ شاخیں پنجاب اور سندھ میں فعال ہیں‘ جن کی ذمہ داریوں کا احاطہ ’پاکستان رینجرز آرڈیننس 1959ء‘ میں کیا گیا ہے۔ واہگہ بارڈر لاہور پر قومی پرچم سرنگوں کرنے کی دلچسپ موسیقیت بھری تقریب دیکھنے کا اتفاق جس کسی کو بھی ہوا‘ وہ ’پنجاب رینجرز‘ کی سرحدی و جغرافیائی حفاظت سے جڑی ذمہ داریوں اور کارکردگی کے پہلوؤں سے آگاہ ہے لیکن رینجرز کا بنیادی مقصد بھارت کے ساتھ صوبہ سندھ و پنجاب میں بالترتیب 912 اور 1200 کلومیٹرز طویل جنوبی سرحد کی حفاظت کرنے تک محدود نہیں رہا لیکن سندھ کے صدر مقام کراچی میں صدر دفتر (ہیڈکواٹر) رکھنے والی رینجرز کو اِس شہر میں امن و امان کی بحالی کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی جسے احسن طورپر ادا کرنے کی عملی مثالیں یہاں وہاں دکھائی دیتی ہیں کہ کراچی کی رونقیں ایک ایک کر کے واپس لوٹ رہی ہیں!
پاکستان میں نہ تو قوانین کی کمی ہے اور نہ ہی اِن قوانین کے اطلاق کے لئے سیکورٹی فورسز یا اداروں کی تعداد ہی کم ہے۔ وفاق کے زیرانتظام 12 جبکہ صوبوں کے زیرانتظام 13الگ الگ ناموں سے ’سیکورٹی ایجنسیز‘ ہیں جن کا بنیادی کام ایک ہی ہے لیکن قوانین کے اطلاق میں اُس قومی پالیسی کو پیش نظر رکھا جاتا ہے‘ جس کے تخلیق صرف داخلی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے خطے میں مفادات بھی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں سیکورٹی کا مکمل کنٹرول کبھی بھی منتخب سیاسی حکومتوں کے پاس نہیں رہا بلکہ قانون نافذ کرنے کے نام پر مسلح دستے ہی کبھی زیادہ تو کبھی کم بااختیار رہے۔ اِن اداروں کے سربراہوں کی تقرری کی حد تک سیاسی حکومتوں کا عمل دخل نظر آتا ہے لیکن اپنے فیصلوں اور احکامات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ترجیحات و لائحہ عمل اختیار کرنے میں یہ سیکورٹی ادارے بڑی حد تک نہیں بلکہ مکمل خودمختار ہیں۔ پاکستان کی سیاسی و انتظامی حکمرانی کا یہی پہلو سب سے زیادہ اِصلاح طلب ہے جس میں ادارے قومی مفاد سے زیادہ اپنی ذات اور ساخت میں خود کو محدود کئے ہوئے ہیں جس سے نفسانفسی کا ماحول غالب ہے اور قومی وسائل کا ضیاع الگ سے ہو رہا ہے۔ ملک کے کسی بھی حصے کو داخلی خطرات و خارجی سازشوں کے بچانے کے لئے اگر پولیس کی بجائے نیم فوجی دستے (رینجرز) سے محفوظ بنانا اِس بات کا ثبوت ہے کہ پولیس کا قبلہ درست کرنے اور اِس کی صفوں سے کالی بھیڑوں کو نکال باہر کرنے جیسے مشکل فیصلے کی بجائے عارضی و آسان فیصلوں کو ترجیح دی گئی ہے‘ جس کی بوجھ قومی خزانے پر بھی ہے اور قومی ضمیر پر بھی کیونکہ طاقت کے انتہائی استعمال سے اِس بات کا امکان بھی موجود رہتا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کچلے جائیں اور جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ عام لوگوں کو ناکردہ گناہوں کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے۔ امن بہرصورت اور بہرقیمت بحال ہونا چاہئے لیکن اِس کا بوجھ ’قومی قوت برداشت یا اعصاب‘ پر حاوی نہیں بلکہ اُس کی تقویت کا باعث ہونا چاہئے۔ انتظامی امور کے ساتھ قانون کی حکمرانی بھی قومی خزانے پر بوجھ نہیں ہونی چاہئے۔ شفافیت اُور اِنسانی جان کی قیمت و اِحترام بھی بطور اصل ترجیح یکساں ضروری ہے کیونکہ جیل جیسا ’امن اور خوف‘ نہیں بلکہ شہروں اور دیہی علاقوں میں زندگی خوبصورت نظر آنی چاہئے اور چھوٹی بڑی خوبیاں رائیگاں نہ جائیں تو اِس متعلق بھی ہر اقدام سے پہلے‘ سوچنا اور مقامی لوگوں کے ساتھ مشاورت بھی یکساں ضروری ہے۔

No comments:

Post a Comment