Monday, February 20, 2017

Feb2017: Peshawar Airport, journey started!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پشاور کا ہوائی اڈہ!
سفر ہے شرط‘ خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت اُور مرکزی ہوائی اڈہ (باچا خان انٹرنیشنل ائرپورٹ) جہازوں کی آمدورفت (ہوائی ٹریفک) کے حوالے سے پاکستان کا چوتھا مصروف ترین ائرپورٹ ہے لیکن یہاں مسافروں سے زیادہ اُن کے ہمراہ آنے والوں کی تعداد کی ایسی بڑی تعداد معمول بن چکی ہے جس کے باعث اندرون و بیرون چاردیواری رش دیدنی ہوتا ہے بالخصوص عرب ممالک سے آنے والی فلائٹس سے اُترنے والوں کے چہرے اپنے پیاروں کے گلے مل کر دمک رہے ہوتے ہیں جبکہ سبز پاسپورٹ ہاتھوں میں لئے قطاروں میں لگے نوجوان اچھے مستقبل کے لئے عزیزوں سے بچھڑ رہے ہوتے ہیں۔ ایک عجیب سماں ہوتا ہے‘ بچھڑنے کے آنسو اور ملنے کے آنسو! گلے میں پھولوں کے ہار اور بانہیں۔ منتظر خواب اور آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں! سب کچھ پشاور ائرپورٹ کی اُس خاص ’’مہمان نوازی‘‘ کے دلچسپ مناظر کا حصہ ہے‘ جو پاکستان کے کسی بھی دوسرے ائرپورٹ سے استفادہ کرنے والوں کو بمشکل دیکھنے کو ملے۔ 

عرب ممالک کے لئے سستی افرادی قوت (ورک فورس) کا بڑا حصہ یہیں سے پرواز بھرتا ہے! علاؤہ ازیں پشاور ائرپورٹ دنیا کا ایسا واحد عجوبہ ائرپورٹ بھی ہے جس کے ’رن وے‘ کے ایک (آخری) حصے سے ریل گاڑی کی پٹڑی بھی گزرتی ہے۔ ستائیس جنوری دوہزار بارہ کے روز خدائی خدمتگار تحریک سے تعلق رکھنے والے قوم پرست رہنما خان عبدالغفار خان کے نام سے منسوب کئے جانے کے بعد سے ’پشاور ائرپورٹ‘ پر نہ تو سہولیات میں غیرمعمولی (کماحقہ) اضافہ ہوا‘ اور نہ ہی اِس کی تعمیرات سے کہیں بھی پختون ثقافت کا کوئی رنگ دکھائی دیتا ہے جیسا کہ ہمیں لاہور (علامہ اقبال انٹرنیشنل) اور کراچی (قائداعظم انٹرنیشل) ائرپورٹس پر دیکھنے اور محسوس کرنے کو ملتا ہے۔ یاد رہے کہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) حکومت کے دوران ’’خان عبدالغفار خان‘‘ المعروف باچا خان (چھ فروری اٹھارہ سو نوے سے بیس جنوری انیس سو اٹھاسی) کے نام نامی سے منسوب کیا گیا جبکہ باچا خان کی تدفین اُن کی وصیت کے مطابق پاکستان کے کسی بھی حصّے‘ حتیٰ کہ اُن کے آبائی گاؤں کی بجائے افغانستان کے صوبے ننگرھار کے شہر جلال آباد میں کی گئی اور اِسی جانب اشارہ کرتے ہوئے اِس فیصلے کی مخالفت کرنے والے دلیل دیتے ہیں کہ جب کسی جماعت کے بزرگ رہنما نے سوچ سمجھ کر پاکستان میں تدفین پسند نہیں تو اُن کے نام سے پشاور ائرپورٹ منسوب کرنے میں کتنی سوچ سمجھ یا حب الوطنی سے کام لیا گیا؟ 

باچا خان کے نام سے پشاور سمیت پختون اکثریتی علاقوں میں چوراہے اور سڑکیں منسوب ہیں‘ جو اُن کی خطے میں سیاست اور جدوجہد کے لئے دی جانے والی قربانیوں اور پیغام کو دیا جانے والا اطمینان بخش خراج تحسین ہے۔ بہرکیف گذشتہ کئی ماہ (ایک سال سے) ’پشاور ائرپورٹ‘ کی توسیع کا کام جاری ہے جس کی رفتار تیز کرنے کے ساتھ لاہور اور کراچی ائرپورٹس کی طرح کثیرالمنزلہ شایان شان لاؤنجز کی تعمیر بڑھتی ہوئی آمدورفت اور بالخصوص ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)‘ منصوبے کی فعالیت سے قبل انتہائی ضروری ہے۔



جہاز کے پرواز بھرنے سے قبل عملے سے متعلق تعارفی کلمات اور سفر کی دُعا سے قبل شہری ہوابازی کے نگرانوں کی جانب سے ایک پیغام (کچھ اضافے کے ساتھ) مسافروں کو ’’بقول اُن کے اپنے مفاد میں‘‘ سنایا گیا کہ ’’پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن (پی آئی اے) کے جہاز کے پرواز بھرنے سے قبل (آن بورڈ) ’سام سنگ گلیکسی نوٹ سیون‘ نامی موبائل فون (الیکٹرانک ڈیوائس) استعمال نہ کی جائے اور نہ ہی اسے چارج کیا جائے یا آن بورڈ اپنے بیگ میں رکھا جائے۔‘‘ ایسے چلتے پھرتے دھماکہ خیز فونز پر پابندی کا اطلاق مذکورہ فون کی نہایت ہی طاقتور لیکن غیرمحفوظ بیٹری کے باعث پوری دنیا میں کیا گیا کیونکہ بہت سے ایسے حادثات تواتر سے پیش آئے جن میں ’نوٹ سیون‘ جیسے مہنگے اور جدید فون (ہینڈ) سیٹ استعمال کرنے والوں کو بذات خود یا اُن کے قریب بیٹھے افراد کو بھی نقصانات اُٹھانا پڑے۔ مسافروں کے مفاد میں دوسری ہدایت کا مزاج حاکمانہ تھا کہ اگر جہاز کی پرواز میں تاخیر ہو یا مقررہ ائرپورٹ کی بجائے اِسے تکنیکی یا موسمی خرابی کے باعث کسی دوسرے شہر کے ائرپورٹ پر اُترنا پڑے تو ایسی صورت میں مسافر قانون ہاتھ میں نہ لیں یعنی نہ تو احتجاج کریں اور نہ ہی جہاز کو نقصان یا عملے (ائر کرو) سے بدتمیزی سے پیش آئیں۔ ملک کی قومی ائرلائن کو نقصان کیوں پہنچایا جائے گا لیکن اگر مسافروں (صارفین) کو ہر مرحلے پر اعتماد میں لیا جائے۔ عمومی روش رہی ہے کہ ’پی آئی اے‘ کے جہاز ’وی وی آئی پیز‘ (سیاست دانوں) کے لئے تاخیر سے پرواز بھرتے رہے اور جہازوں میں صفائی کی صورتحال یا رہنمائی کے لئے عملے نے خندہ پیشانی کا مظاہرہ نہیں کیا تو مسافروں کا ردعمل فطری تھا۔ منطق‘ دلیل اور اخلاق و شائستگی کے ذریعے بڑے سے بڑے مخالف کو بھی قائل (زیر) کیا جاسکتا ہے‘ کسی ایک بیچارے مسافر کی کیا مجال کہ وہ ’’بغاوت‘‘ کا اعلان کرے یا پاکستان قوم ابھی اتنی متفق بھی نہیں ہوئی کہ وہ اپنے حق کے لئے باہمی اختلافات اور نسلی لسانی یا قبائلی و علاقائی شناخت کو خاطر میں نہ لائے!



ہوائی جہاز کے سفر سے توقعات وابستہ ہوتی ہیں کہ یہ نسبتاً خوشگوار اور باسہولت و آرام دہ ہوتا ہے بشرطیکہ دوران پرواز موسم موافق اور عملہ (کیبن کرّو) تاآخر خوش اخلاق رہے۔ اُنیس فروری کی صبح ساڑھے نو بجے A320 طیارے کی اَندرون ملک پرواز PK351 کے ذریعے پشاور سے کراچی جانے والوں کا استقبال اور کراچی پہنچنے پر جس خندہ پیشانی سے الوداع کیا گیا‘ وہ پاکستان کے قومی جہاز راں ادارے کے شایان شان تھا۔ اُن تمام مسافروں (مرد و خواتین) کے چہروں پر تسلی کے آثار نمایاں دیکھے جا سکتے تھے‘ جنہوں نے ’پی آئی اے‘ سے سفر کرنے کا ’رسک‘ لیا اور اپنے فیصلے پر پشیمان نہیں تھے اُور یہی وجہ تھی کہ بہتری کی گنجائش بارے رائے دینے کے لئے خصوصی فارم طلب کئے گئے۔ 

کسی کارپوریٹ ادارے کے لئے صارفین کی رائے (تاثرات) بہت اہم ہوتے ہیں اور بالخصوص ایک ایسے ماحول میں جبکہ نجی ائرلائنز بھی مقابلے میں ہوں! پی آئی اے کی طرح ’سول ایوی ایشن اتھارٹی‘ کو بھی اپنی خدمات کا معیار بلند کرنا ہوگا۔ پشاور ائرپورٹ کی ویب سائٹ (peshawarairport.com.pk) تو موجود ہے لیکن اُس پر مسافروں یا اُن کے ساتھ آنے والوں کے نہ تو ہدایات موجود ہیں اور نہ ہی ائرپورٹ سے استفادہ کرنے والوں کو یہ موقع فراہم کیا گیا ہے کہ وہ اپنے تاثرات (تبصرہ) مستقبل میں اِس ائرپورٹ سے سفر کرنے والوں کے لئے یہاں تحریر کر سکیں۔ ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس (سوشل میڈیا) اور بالخصوص موسم کی صورتحال اور پشاور کے بارے میں معلومات بھی اِسی ویب سائٹ کا حصہ ہوں۔ 

فلائٹ ریڈار ٹوئنٹی فور نامی ایپلی کیشن یا خود سے ’رئیل ٹائم‘ سروس فراہم کرکے رہنمائی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ اِسی طرح سفری تجربے کو خوشگوار بنانے کے لئے دوران پرواز ’وائی فائی‘ کی سہولت اور ائرپورٹ کا ’ورچوئل ٹور‘ بھی ویب سائٹ کا حصہ ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر ائرپورٹ کے نقشے سے معلوم ہو سکے کہ مردوں اور خواتین کے لئے باتھ رومز (وضوخانے) کہاں ہیں‘ بورڈنگ کارڈ ملنے کے بعد لاؤنج کو ملک کے دیگر ائرپورٹس کی طرح زیادہ باسہولت بنایا جا سکتا ہے۔ مسجد یا ائرپورٹ کے سیکورٹی و انتظامی دفاتر بارے رہنمائی کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ 


ائرپورٹ پر طبی امداد کے مراکز اگر موجود ہیں تو اُن تک رسائی کن راستوں سے ہوگی! ویب سائٹ پر ’اِی کمپلینٹ‘ کی سہولت دی گئی ہے جس کے تین جز ہیں لیکن ایسی صورت میں کسی صارف کی ’آن لائن خواندگی‘ اُور سمارٹ فونز یا ٹیبلٹ جیسے کیمونیکشن ٹولز (آلات) کا ہونا ضروری ہے۔ کسی عالمی معیار کا مطالبہ جائز نہیں لیکن ’وائی فائی‘ دستیابی بارے بنیادی معلومات جلی حروف میں آویزاں کرنے سے ائرپورٹ کا تجربہ زیادہ خوشگوار اُور انتظار کی گھڑیاں گننے کی کوفت سے مسافروں یا اِستقبالیہ پر گھنٹوں سے منتظر اَفراد کو ’وقت گزرنے کا اِحساس‘ نہیں ہوگا۔ موبائل فون ایک ایسی اِیجاد بھی ہے‘ جس کا ضرورت سے زیادہ اور بناء ضرورت استعمال بھی عام ہے تو اسے بامقصد بنانے کے لئے ’موبائل فون ایپ‘ پشاور ائرپورٹ کے توسیعی منصوبے (حکمت عملی) کا حصہ ہونی چاہئے۔

No comments:

Post a Comment