Sunday, February 19, 2017

Feb2017: Women Participation in Elections

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عام انتخابات: خواتین ووٹ سے محروم کیوں!؟

خیبرپختونخوا کے پندرہ اضلاع میں اہلیت کے باوجود خواتین ووٹ ڈالنے سے محروم ہیں اِس سلسلے میں کئے گئے ابتدائی اور بنیادی نوعیت کے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ ایبٹ آباد میں غیررجسٹرڈ شدہ ووٹر خواتین کی تعداد 1161 ہے جبکہ بنوں 38429‘ بٹ گرام 4887‘ بونیر4679‘ چارسدہ29780‘ چترال5153‘ ہری پور 7001‘کرک 16558‘ کوہاٹ 25545‘ لکی مروت 17481‘مالاکنڈ 13905‘مانسہرہ 21733‘ شانگلہ5135 ‘صوابی 25768اُور ٹانک میں ایسی خواتین کی تعداد 7588 بتائی گئی ہے جن کے نام ووٹر فہرستوں میں درج نہیں لیکن خواتین کی ایک بڑی تعداد کو عام انتخابات سے الگ رکھنے کی بات صرف کسی ایک صوبے کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ ملک بھر میں 992629 (نو لاکھ بانوے ہزار چھ سو اُنتیس) خواتین اہل ہونے کے باوجود اگر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے حق سے محروم ہیں تو طرزعمل اصلاح چاہتا ہے۔

’’روشن پاکستان‘‘ کے عزم سے امریکہ کا اِمدادی اِدارہ ’یوایس ایڈ‘ 4 کروڑ 50لاکھ ڈالر مالیت کی ایک ایسی بیش قیمت حکمت عملی بنام ’’سٹیزن وائس پراجیکٹ‘‘ کی مالی سرپرستی کر رہا ہے جس کے تحت ’عوام کی اپنے حقوق سے آگاہی اُور امتیازات و دھاندلی سے پاک انتخابی عمل کو یقینی بنانے کے لئے ’’ٹرسٹ فار ڈیموکریسی اَیجوکیشن اینڈ اکاونٹ بیلٹی (TDEA)‘‘ عملی معاونت کر رہا ہے‘ جس کا حصہ ’فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین)‘ تعارف کا محتاج نہیں۔ یہاں ایک تکنیکی سقم موجود ہے۔ فافین کی مہارت چونکہ عام انتخابات میں شراکت داری اور انعقاد میں شفافیت سے جڑے امور سے ہے‘ اُور چونکہ اِس غیرسرکاری تنظیم (این جی اُو) کا نیٹ ورک ملک میں سب سے بڑا ہے‘ اِس لئے ’’سٹیزن وائس پراجیکٹ‘‘ کا منصوبہ ’ہائی جیک‘ کر کے اِس کی معنویت و فعالیت محدود کردی گئی ہے! اُمید کی جاتی ہے کہ ’یو ایس ایڈ‘ اِس فکری پہلو پر غور کرے گی‘ تاکہ ’’سٹیزن وائس پراجیکٹ‘‘ کے جملہ اہداف حاصل کئے جا سکیں۔ 

تو بات ہو رہی تھی اُس ملک گیر نمائندہ جائزے کی جس سے معلوم ہوا کہ ملک کے ہر حصے میں اہل خواتین کی ایسی تعداد موجود ہے جن کے ’ووٹ‘ رجسٹرڈ نہیں اُور اِس کی کئی وجوہات بھی سامنے آئی ہیں جیسا کہ 1: سماجی دباؤ۔ 2: قومی شناختی کارڈ کا نہ ہونا۔ جائیداد کے کاغذات یا دیگر شناختی دستاویزات کا نہ ہونا۔ 3: اقتصادی دباؤ (غربت)۔ 4: شعور نہ ہونا کہ ووٹ رجسٹرڈ کرانا اُور انتخابی عمل میں حصّہ لینا کیوں ضروری ہے اُور 5: ووٹ رجسٹرڈ کرانے کے عمل بارے معلومات یا سہولیات کا نہ ہونا۔ ’’سٹیزن وائس پراجیکٹ‘‘ کے مرتب کردہ اعدادوشمار مختلف اضلاع میں کام کر رہی غیرسرکاری تنظیموں (این جی اُوز) میں تقسیم کر دیئے گئے ہیں‘ تاکہ جہاں کہیں خواتین کے ووٹ رجسٹرڈ نہیں اور جن کی تعداد بھی معلوم ہے تو اُنہیں الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ کرانے کا بندوبست کیا جائے۔ اِس سلسلے میں مرتب کی جانے والی حکمت عملی کثیرالجہتی ہے جس کے تحت تربیتی نشستوں کا انعقاد ہوگا جس میں سیاسی جماعتیں‘ انتخابی اُمیدوار یا اُن کے نمائندے‘ صحافی‘ دیگر اسٹیک ہولڈرز‘ متعلقہ عمائدین‘ مقامی این جی اوز‘ عام انتخابات میں حصہ لینے والا عملہ اور الیکشن کمیشن کے اہلکاروں کو شریک کیا جائے گا۔ اِسی حکمت عملی کے تحت ملک گیر سطح پر بحث و مباحثوں کی نشستیں (فورمز) کا انعقاد کیا جائے گا تاکہ موضوع پر تبادلۂ خیال سے وضاحت ہوتی چلی جائے۔ قومی شناختی اور ووٹ رجسٹر کرنے کے لئے سہولیات و معلومات کی فراہمی کا اہتمام کرنا بھی حکمت عملی کا حصّہ ہے جبکہ نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی موبائل وینز کا بندوبست کرنا تاکہ خواتین کم وقت اور باسہولت انداز میں قومی شناختی کارڈز کا اجرأ کروا سکیں اُور صرف یہی نہیں بلکہ خواتین کو ایسے اسباب و وسائل (سہولیات) فراہم کی جائیں گی جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے وہ الیکشن کمیشن دفاتر جا کر اپنے ووٹ کا اندراج کروا سکیں۔ اِس سلسلے میں ذرائع ابلاغ (پرنٹ الیکٹرانک میڈیا) اُور سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا) کی فعالیت و کردار سے بھی استفادہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ علاؤہ ازیں صوتی و نشری مواد (آڈیو ویڈیو پراڈکشنز)‘ موبائل فونز پر مختصر پیغامات ایس ایم ایس اُور ایسے خصوصی سافٹ وئرز (موبائل ایپس) سے مدد لی جائے گی‘ جن کا استعمال بالخصوص نوجوان نسل میں مقبول ہیں۔ پوسٹرز‘ پمفلٹ اور معلوماتی مواد کی اشاعت و تقسیم بھی حکمت عملی کا حصّہ ہے‘ جبکہ ریڈیو اُور ٹیلی ویژن پر ٹاک شوز کے ذریعے اِس موضوع پر متعلقہ ماہرین کے تبصرے اور گھر گھر جا کر کیمونٹی سے بات چیت کی مشقیں‘ سٹریٹ تھیٹر‘ عوامی اجتماعات کے مقامات پر کیمپ لگا کر خواتین کی انتخابی عمل میں شراکت بارے شعور اُجاگر کیا جائے گا اور اسی سلسلے میں مزدور (لیبر) یونینز‘ لیڈی ہیلتھ ورکرز‘ بلدیاتی نمائندوں (خواتین کونسلرز) کے ذریعے گھر گھر پیغام پہنچانے کو حکمت عملی کا جز بنایا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ دس لاکھ اہل خواتین ایسی ہیں جن کے ووٹ رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ عام انتخابات میں حق رائے دہی استعمال نہیں کرسکتیں۔ یہ بات بھی لمحہ فکریہ ہے کہ خواتین کل رجسٹرڈ ووٹوں کا 43.7 فیصد ہیں اور اِس قدر کم تعداد میں خواتین کی ووٹر لسٹوں میں موجودگی کا سبب یہ ہے کہ اُن کے قومی شناختی کارڈز نہیں بنے یا دانستہ طور پر نہیں بنوائے جاتے۔ خواتین کو عام انتخابات سے الگ رکھنے کی حوصلہ شکنی کے لئے قانون سازی بھی زیرغور ہے۔ مجوزہ قانون (الیکشن بل 2017ء) کی نقل قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے بلاقیمت حاصل کی جاسکتی ہے جس کی شق 47 ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے کہ اگر کسی قومی اسمبلی کے حلقے میں خواتین ووٹرز کی تعداد مرد ووٹرز کی تعداد سے 10فیصد کم ہو تو ایسے حلقوں کو نظرانداز کرنے کی بجائے خواتین کے ووٹ رجسٹرڈ کرنے کے لئے مہمات چلائی جائیں۔ 

نئی قانون سازی اگر آئندہ عام انتخابات سے قبل عملاً ممکن ہو جاتی ہے تو اِس سے الیکشن کمیشن اور ’نادرا‘ پر یہ ’’آئینی ذمہ داری‘‘ عائد ہو جائے گی کہ وہ خواتین کے قومی شناختی کارڈز اور اُن کے ووٹ رجسٹرڈ کرنے کے لئے روائتی کام کاج کے طریقوں سے ہٹ کر خصوصی انتظامات کریں اور اِس ہدف کے حصول کو عملاً یقینی بنائیں۔ ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ نئی قانون سازی کو زیادہ جامع بناتے ہوئے کامیاب اُمیدواروں کے لئے لازمی قرار دیا جائے کہ کسی انتخابی حلقے میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کا کم سے کم 51فیصد حاصل کریں‘ بصورت دیگر متعلقہ حلقے میں انتخابی عمل اُس وقت تک بار بار دہرایا جائے جب تک کسی اُمیدوار کو ووٹ ملنے کی شرح پچاس فیصد سے زیادہ نہیں ہو جاتی! ووٹروں کو انتخابی عمل میں شریک کرنا نہ صرف جمہوریت کی بنیادی شرط اور تقاضا ہے بلکہ یہی مستقبل کی ضرورت ہے۔ فافین کے بقول کسی اچھے لیڈر (رہنما) کی خصوصیات میں شامل ہے کہ ’’وہ عوام اور علاقے کی ضروریات سے باخبر ہو‘ عوام سے ہر وقت رابطے میں رہے‘ عوام کے سامنے جوابدہ ہو‘ الیکشن کمیشن کے مقررکردہ ضابطۂ اخلاق کا پابند ہو‘ ووٹ حاصل کرنے کے لئے غیرقانونی ذرائع (تھانہ کچہری‘ دھونس دھاندلی مالی وسائل) کا استعمال نہ کرے اور وہ اجتماعی مسائل حل کرنے کی بصیرت کے ساتھ عملی اقدامات بھی کرے۔‘‘ کیا ہمارے ’’لیڈر‘‘ قابلیت کے اِس کم سے کم معیار پر پورا اُترتے ہیں؟ کیا ہمارے ہاں عام انتخابات کی ساکھ اور قابل بھروسہ رہ جاتی ہے اگر اِس عمل سے ووٹ دینے کی اہل خواتین کو دانستہ یا غیردانستہ طور پر الگ رکھا جاتا ہے؟

No comments:

Post a Comment