Sunday, February 5, 2017

Feb2017: Health Services in KP!


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اَندازِ مسیحائی!

خیبرپختونخوا کے ’ہیلتھ کیئر کمیشن‘ نے اپنی موجودگی کا اِحساس دلاتے ہوئے مختلف اضلاع میں علاج معالجے کے ایسے 30 مراکز بند (سیل) کر دیئے ہیں‘ جہاں فراہم کی جانے والی سہولیات غیرقانونی اور غیرمعیاری تھیں۔ علاؤہ ازیں ایک ہی دن مختلف اضلاع میں ہوئی کاروائیوں کے بارے ذرائع ابلاغ کو دی جانے والی اطلاعات کے مطابق ’’ڈیرہ اسماعیل خان‘ مانسہرہ‘ ہری پور اُور ایبٹ آباد کے اضلاع میں 44 نجی کلینکس بھی بند کئے گئے ہیں جبکہ 42 کو نوٹسیز جاری کئے گئے ہیں اور اگر انہوں قواعدوضوابط کے مطابق اپنے ہاں علاج معالجے کی سہولیات کا معیار بہتر نہ بنایا تو ایسے کلینکس کے خلاف دولاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جاسکے گا۔ ایبٹ آباد کی بات کی جائے تو صحت و علاج کے 10 مراکز سربمہر اور 8 کو نوٹسیز جاری کئے گئے۔ مانسہرہ میں صحت کے 11 نجی مراکز سیل جبکہ 10 کو نوٹسیز جاری ہوئے اُور ہری پور میں 10سیل اور 4 مراکز کو نوٹسیز جاری ہوئے ہیں۔ کیا ہم یقین کر لیں کہ جن اضلاع میں کاروائی کی گئی اور جس تعداد میں غیرمعیاری وغیرقانونی صحت کے مراکز سیل کئے گئے بس یہی قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کے مرتکب تھے! لمحۂ فکریہ ہے کہ خود رو جھاڑیوں کی طرح پھیلتے ہوئے نجی کلینک گلی کوچوں کے علاؤہ کثیرالمنزلہ عمارتوں میں قائم ہیں اور صرف کلینکس ہی نہیں بلکہ غیرقانونی و غیرمعیاری تجزیہ گاہیں (لیبارٹریز) بھی اِسی نیٹ ورک کا حصہ ہیں‘ جن پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا تو یقیناًاِس کا کوئی نہ کوئی ’’مفید جواز‘‘ بھی ہوگا! ’’شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے۔۔۔ ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی! (اَزہر دُرانی)‘‘

جن لمحات میں نجی کلینکس کے خلاف مبینہ ’سخت کاروائی‘ عمل میں آرہی تھی اُسی دوران ’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی اَیم ڈی سی)‘ کی جانب سے بیان سامنے آیا کہ پاکستان میں 10فیصد میڈیکل کالجز جعلی ہیں یا پھر طب کی تعلیم کو ’سرمایہ بنانے کے لئے صنعت بنا دیا گیا ہے!‘‘ تین فروری کے روز پاکستان میں طب کی تعلیم کی نگرانی کرنے والے اِدارے کے صدر ڈاکٹر شبیر احمد لہری تین روزہ عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بہت کچھ ایسا بھی کہہ گئے جس نے حالات کی سنگینی میں مزید اضافہ کردیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ میڈیکل کالجز گھی‘ ٹیکسٹائل اور شوگر مل مالکان نے قائم کر رکھی ہیں! 

تصور محال ہے کہ نہ صرف علاج معالجے کی سہولیات معیاری نہیں لیکن طب کی تعلیم کے اِدارے بھی خالصتاً کاروباری ذہنیت (منافع) کے لئے چلائے جا رہے ہیں اُور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ خواص علاج کے لئے بیرون ملک چلے جاتے ہیں‘ جبکہ عام آدمی (ہم عوام) سرکاری و نجی ہسپتالوں کے ہتھے چڑھ کر صحت و سرمائے دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں! کیا اِس مرحلۂ فکر پر جعلی اَدویات کا ذکر بھی کیا جائے‘ جن کی تقسیم اُور فروخت کے نیٹ ورک کی سرپرستی اُور پشت پناہی کرنے والوں میں سیاسی فیصلہ ساز سرفہرست ہیں! ضرورت سطحی دُوڑ دھوپ (اَنداز اُور طرز مسیحائی) پر نظرثانی کی ہے‘ عام آدمی کی صحت و جان کو لاحق بیک وقت خطرات گہری نظر کے متقاضی ہیں۔ اَچھی کارکردگی اُور اخبارات کی زنیت بننے والے بیانات سے ایک قدم آگے عملی اقدامات کے منتظر عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی آنی چاہئے‘ جو عملاً محسوس بھی ہو اور جس کے نتائج معنوی لحاظ سے وسیع‘ مربوط اُور جامع ہوں۔


No comments:

Post a Comment