ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
رحم کیجئے رحم!
خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں بشمول ایبٹ آباد میں تعلیمی سال کا آغاز مارچ سے ماہ سرما کی تعطیلات تک مکمل ہونے کے ساتھ ہی نئے تعلیمی سال کے لئے طلباء و طالبات کے داخلوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے تاہم یہ عمل نہ تو شفاف ہے اور نہ ہی حسب حال۔ صوبائی اُور وفاقی حکومتوں کے زیرنگرانی کام کر رہے ادارے اپنی اپنی گنجائش کے مطابق طلباء و طالبات کی اہلیت کی جانچ کے لئے تحریری اِمتحان اُور اِنٹرویوز (داخلے کے خواہشمند بچے اور والدین سے بالمشافہ ملاقات) کا اہتمام کرتے ہیں لیکن درحقیقت اِس عمل کے ذریعے بچے کی ذہنیت‘ رجحانات اُور جسمانی صحت و تندرستی کے معیار کا تعین نہیں کیا جاتا بلکہ درپردہ والدین کی مالی حیثیت کے بارے رائے قائم کر کے فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کسی بچے کو داخلہ دیا جائے یا بناء کوئی جواز بتائے اُس کا نام داخل ہونے سے قبل ہی خارج کر دیا جائے۔
نجی تعلیمی ادارے ہر سال کروڑوں روپے نئے داخلوں کی مد میں کمانے کو ’’جائز (حلال)‘‘ سمجھتے ہیں تو ایسے ’سرکاری ونیم سرکاری پبلک سکول‘ بھی ہیں‘ جن کی اِنتظامیہ صوبائی یا وفاقی حکومتوں کی ملازم ہونے اور سرکاری عہدے‘ تنخواہیں‘ دوران و بعد ملازمت مراعات پانے کے باوجود ایسے فیصلے کرتی ہے‘ جس کا غالب مقصد ’مالی مفاد (منافع)‘ ہوتا ہے۔ اگر نجی تعلیمی ادارے والدین کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھائیں تو شعبۂ تعلیم میں ’سرمایہ کاری‘ کرنے والوں کی ’خالص کاروباری‘ ذہنیت کی نشاندہی ہوتی ہے لیکن اگر یہی طرزعمل وفاق کے زیرانتظام کسی ’پبلک (سرکاری) سکول‘ کا بھی ہو تو اِس سے کئی مطالب اَخذ کئے جا سکتے ہیں جیسا کہ 1: ’بھاری داخلہ فیسیں‘ اَدا کرنے کی سکت نہ رکھنے والوں کے بچوں کو معیاری پبلک سکولوں میں داخلہ حاصل کرنے کا حق نہیں‘ چاہے وہ کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں! 2: کم و بیش پچاس ہزار روپے یکمشت ’داخلہ فیس‘ بشمول دیگر وصولیاں سات یوم کے اندر اندر کرنے کی مہلت ورنہ داخلہ منسوخ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے والدین کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ جہاں سے چاہیں پیسے لائیں کیونکہ ’’پیسہ ہی داخلہ ملنے کی شرط ہے!‘‘
کسی نیم سرکاری معززومعروف پبلک سکول کے اِس قسم کے رویئے سے گردوپیش کے ’نجی تعلیمی اِدارے‘ کیا سبق حاصل کریں گے؟ پبلک سکول میں چار سالہ بچے کے ’پریپ کلاس‘ میں داخلہ جوئے شیر لانے سے کم مشکل نہیں جس کے لئے درجن بھر سفارش کے بعد والدین کے لئے اگلی مشکل عزیزواقارب کے سامنے ہاتھ پھیلانا رہ گیا ہے کہ وہ سات روز کے اندر کل 42 ہزار 873 جمع کرائیں‘ کیا یہ مطالبہ اُور مہلت ’مبنی بر انصاف‘ ہے؟
داخلہ فیس 5ہزار 500روپے۔ بلڈنگ فنڈ 5 ہزار 500 روپے۔ بلڈنگ کی دیکھ بھال کا فنڈ 5ہزار 500روپے۔ سکول کی سرگرمیوں کا احوال بصورت اشاعت (میگزین) 500 روپے۔ سکول کے حفاظتی انتظامات 8 ہزار روپے۔ ماہ جنوری اور ماہ فروری کی ایڈوانس ٹیوشن فیس 8 ہزار 454 روپے۔ ماہ مارچ اور ماہ اپریل کی ایڈوانس ٹیوشن فیس 9 ہزار 294 روپے جبکہ سال 2017ء کے کلینڈر کی قیمت 125 روپے مقرر کی گئی ہے! والدین کے پاس یہ ’آپشن‘ نہیں کہ وہ خود سے مقررہ فیسوں کے بارے سوال (نکتۂ اعتراض) اُٹھا سکیں! عام آدمی کے لئے اگر صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری نہیں تو پھر کس کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے؟
خیبرپختونخوا میں فعال ہر ایک تعلیمی اِدارہ صوبائی حکومت کی حدود و انتظام اور احکامات کا پابند ہونا چاہئے اور صوبائی حکومت ہی کا فرض ہے کہ سالانہ داخلوں کی مد میں سرکاری‘ نیم سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے لئے نہ صرف فیسوں کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کرے بلکہ سالانہ داخلہ فیسوں اور اِدھر اُدھر کی مدوں میں ’’اندھا دھند وصولیوں‘‘ کا بھی نوٹس لے جو سراسر ناجائز اور ظالمانہ ہیں! ایک والد کی ذہن کو جنجھوڑتے اِس جملے کے درد کو محسوس کیجئے کہ ’’’’رحم کیجئے رحم جناب‘ متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے بھی پاکستانی ہیں۔‘‘
لب لباب یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اِداروں کا معیار تعلیم اگر بہتر (تسلی بخش) ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ والدین نیم سرکاری یا نجی تعلیمی اداروں کا رُخ کرتے! فیصلہ سازوں کی نااہلی اور ذاتی مفادات کی اسیری کی قیمت عام آدمی (ہم عوام) کو چکانا پڑ رہی ہے! مقام تفکر ہے کہ سرکاری سکولوں کا نظام (قبلہ) صرف ’بیانات و ارشادات‘ سے کیسے درست ہو گا جبکہ اُن کے بارے فیصلہ سازی کے منصب پر فائز سیاسی و غیرسیاسی شخصیات نہ تو خود سرکاری سکولوں سے فارغ التحصیل ہیں اُور نہ ہی اُن کی اولادیں یا عزیز و رشتہ دار ہی پسند کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کے لئے سرکاری سکولوں سے استفادہ فرمائیں!؟
ایبٹ آباد کے معروف و مقبول سکول (جس کی بنیاد عیسائی پادریوں نے قیام پاکستان کے بعد بطور فلاحی سکول رکھی تھی) کی پریپ (جونیئر) کلاس میں بچے کو داخلہ دلوانے کے خواہشمند ایک ’عام پاکستانی‘ نے خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خان خٹک‘ وزیرتعلیم عاطف خان‘ بوساطت ’آئی ایس پی آر‘ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپیل کی ہے کہ ’آرمی برن ہال سکول اینڈ کالج فار بوائز‘ کے تعلیمی سال 2017ء‘ کے لئے مقررہ داخلہ و دیگر فیسوں کا نوٹس لیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ابھی بچے کو سکول میں داخلہ ملا بھی نہیں اُور اُس سے جنوری و فروری کے مہینوں کی فیسیں طلب کی جائیں؟ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ابھی تدریسی عمل شروع بھی نہیں ہوا‘ اور ہر بچہ دو ماہ کی ٹیوشن فیس پیشگی ادا کرے؟ کیا سکول کی انتظامیہ اساتذہ کی ماہانہ تنخواہیں اور دیگر اخراجات پیشگی ادا کرتی ہے؟ سیکورٹی کے نام پر کم وبیش تیس لاکھ روپے صرف پریپ کلاس کے بچوں سے وصول کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ داخلہ فیس پانچ ہزار پانچ سو کیوں جبکہ داخلہ فارم کی مد میں پہلے ہی ہزاروں روپے بذریعہ بینک اور فارم کی صورت وصول کئے جا چکے ہیں؟ سکول انتظامیہ کے دعوے کو کسوٹی مان کر یقین کر لیا جائے کہ قابلیت اُور جسمانی تندرستی کے ساتھ ذہین ترین بچوں کا ’پریپ کلاس‘ کے لئے انتخاب کر لیا گیا ہے تو پھر ذہانت ہی اہلیت (ترجیح) رہنی چاہئے تھی کہ مستقبل کے لئے ایسے ذہن تیار کئے جا سکیں‘ تطہیر کے روحانی و داخلی پیمانے پر بھی پورے اُترتے ہوں‘ جن کے دل و دماغ آلودگیوں سے پاک ہوں اُور اُن کی شریانوں میں ’رزق حلال‘ سے بنے خون کے قطرے گردش کر رہے ہوں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment