ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِنصاف کہانی!
سردیوں میں دھوپ کی تلاش ’مہم جو‘ عباسی صاحب کو گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ دنیاوی رکھ رکھاؤ کے دلدادہ‘ انگریزی اخبار لئے گھر کے سامنے خالی پلاٹ کا ایک کونہ سنبھال کر گلی میں آنے جانے والوں کی خبرگیری کرنا گویا ایک تیر میں دوشکار جیسا ہے۔ بزرگوں کی موجودگی گھر میں ہو یا قرب و جوار میں اِس کی منجملہ برکات کسی نہ کسی صورت وجود رکھتی ہیں۔ عباسی صاحب کی داستان حیات مختصر ہے۔ موصوف نے سرکاری ملازمت سے برطرفی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا اور پھر کئی دہائیوں پر پھیلی اُن کی ’انصاف کہانی‘ سپرئم کورٹ کے رحم وکرم تک جا پہنچی ہے جہاں اِن دنوں ’’پانامہ ہنگامہ‘‘ کے باعث دیگر تمام امور کم ترین ترجیح پر ہیں! عباسی صاحب کے لئے ’آزاد خیالی (لبرل ازم)‘ محدود معنی رکھتی ہے۔ اُن کی سوچ‘ مطالعہ اور سماجی سرگرمیاں بھی اِسی محدود محور اور دائرے میں ’زیرگردش‘ دکھائی دیتے ہیں! لیکن جب ہم کسی نظریئے کے وجود کو تسلیم کر رہے ہوتے ہیں تو اُس کے بارے مکمل جان لینے کے بغیر حتمی رائے قائم نہیں کرنی چاہئے۔
ستر کی دہائی میں جب پاکستان میں ’لبرل ازم کی اصطلاح‘ خواص تک محدود تھی‘ تب کہیں کہیں آزاد خیالی جھلک دکھائی دے جاتی تھی۔ بوسیدہ روایات اور عقل سے عاری مرتب کردہ اصولوں کو ماننے سے انکار‘ کسی کردار کو ’’آزاد خیال‘‘ مشہور کر دیتا تھا۔ جیسا کہ غضب خدا کا‘ بزرگوں کے سامنے سر پر ٹوپی نہیں پہنتا یا بزرگوں کی موجودگی میں سگریٹ پینے والے کے بارے میں کہا جاتا کہ وہ کچھ زیادہ ہی ’آزاد خیال‘ ہو گیا ہے! چند دہائی بعد صورتحال تبدیل ہوئی تو کہا جانے لگا کہ اِس لڑکی کو دیکھو‘ کیسے پتلون پہنے ہوئے ہے‘ کچھ زیادہ ہی ’لبرل‘ ہو گئی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم شروع سے ہی لفظوں کو صرف برتتے ہیں اور آگے چل کر الفاظ کا یہ غلط استعمال ایک ایسے تصور کی بنیاد رکھ دیتا ہے جس کی وجہ سے تعصب اور عدم برداشت عام ہونے لگتی ہے۔ سترہویں صدی کے فلسفی جان لاک‘ (لبرل ازم کا بانی) کے الفاظ میں ہر شخص آزاد ہے‘ مذہب وابستگی و عقائد‘ رائے کے اظہار‘ تجارت‘ شہری حقوق‘ جمہوری اقدار اور حکمرانی کرنے کے لئے۔ دنیا میں جتنے بھی نظریات (ازم) پائے جاتے ہیں اُن سب کی بنیاد اخلاقیات پر رکھی گئی ہے جیسے کہ سوشلزم‘ کمیونزم وغیرہ اور دنیا میں اسلام سمیت جتنے بھی مذاہب ہیں وہ ازم سے چند درجے نہیں بلکہ کئی حد تک بلند و بالا ہیں۔ کسی اِزم اور مذہب میں بنیادی فرق ’’ضابطۂ اخلاق‘‘ اور ’’ضابطۂ حیات‘‘ کا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے تخلیق کردہ ازم اگر حیات کے بارے قواعد کا تعین کرتے ہیں تو اُن سے ایسے ضوابط پر توجہ رہ جاتی ہے جس سے وہ معاشرے کے ہر فرد (اکائی) کے لئے مفید قرار پائیں۔ اُردو زبان میں لبرل کے عمومی معنی ’’آزاد خیال‘‘ کئے جاتے ہیں۔ آزاد خیالی بذات خود اپنی جہت میں فطرت سے متصادم ہے کیونکہ فطرت کبھی بھی کہیں بھی مکمل آزادی نہیں دیتی اُور پابندی ’’عین فطرت‘‘ لیکن ہمیشہ پابند رہنے کی صورت ہی مفید ہوتی ہیں۔ ہمیں اپنے ارد گرد برداشت کی کمی‘ جلدبازی یعنی حقائق کو جانے بغیر الزام لگانا اور مثال کو سمجھے بغیر مذاق اُڑانے کا جنون عام دکھائی دیتا ہے جس کی شدت لبرل اور غیرلبرل میں یکساں ہے۔ بہت ہی تھوڑے لوگ ایسے ہوں گے‘ جو برداشت اور آزادی رائے کی اصل روح کو سمجھتے ہوں۔ سوشل میڈیا کو ہم محبت و برداشت کے فروغ کے بجائے مذاق اُڑانے اور اپنے نظریات دوسروں پر ٹھونسنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں!
نظریات ہوں یا تصورات اُن کی وضاحت ہر عمر اور سوچ رکھنے والوں کے لئے بیان ہونی چاہئے۔ ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اظہار کے نئے تصورات کو ماضی و حال کے لئے یکساں قابل فہم بنا کر پیش کریں۔ نوک زباں پر ہمیشہ سوال لئے عباسی صاحب کے لئے ’بلاگر‘ کی اصطلاح سمجھنا آسان نہیں۔ وہ انٹرنیٹ سے تو واقف ہیں لیکن اِس کے ذریعے ’اظہار رائے کو اتنی وسعت اور آزادی‘ بھی مل سکتی ہے‘ اِس بارے معلومات نہیں رکھتے اور نہ ہی اُن سے یہ معمہ حل ہو پا رہا ہے کہ آخر ’بلاگرز (bloggers)‘ کون ہوتے ہیں‘ پاکستان میں بلاگرز کے لاپتہ ہونے کا معمہ کیا ہے۔ انگریزی اخبارات کے تبصرے اور ایڈیٹر کے نام خطوط میں بلاگرز کے اچانک غائب یا نمودار ہونے پر تبصروں کی بھی اُنہیں سمجھ نہیں آتی کہ آخر اِس پورے معاملے پر ریاست کیوں ہے؟
اُنہیں تو اپنے ڈاکٹر صاحبزادے کی پوشیدہ جزوقتی ملازمت پر بھی حیرت ہے‘ جسے چھپاتے ہوئے محتاط انداز میں کہتے ہیں کہ ’’شاید اپنی شادی کے لئے پیسے جمع کر رہا ہے!‘‘ ریاست اور والدین ایک جیسی خصوصیات رکھتے ہیں۔ دونوں کے لئے خود پر انحصار کرنے والوں کی ضروریات اور اپنے بارے رائے کو سمجھنا ہوتا ہے۔ اگر فاصلے بڑھ جائیں تو اظہار رائے کے لئے اصلی یا قلمی ناموں سے بلاننگ کئے بناء چارہ نہیں رہتا۔ ریاست اور والدین کو یکساں طور پر عملی قربانی کی مثال بننا ہوتا ہے اور دونوں ہی کے لئے ’کوے (crow)‘ کی زندگی میں ایسے کئی اسباق پوشیدہ ہیں‘ جن سے ریاست یا گھر کی اکائی میں اُن کا کردار زیادہ مثبت ہو سکتا ہے۔ ’کوا‘ ساری زندگی اپنے بچوں کے اعصاب پر سوار نہیں رہتا بلکہ اُنہیں ایک خاص مدت تک گھونسلے میں کھانے پینے اور اُڑنے کی تربیت کے بعد خود سے الگ کر لیتا ہے اُور پرندوں میں سب سے پہلے سخر خیز ’کوا‘ کسی بھی حال‘ اور کسی بھی صورت کسی کو بھی کمزور نہیں سمجھتا!
No comments:
Post a Comment