ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سارک کی قسمت!
جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) پہلے ہی داخلی انتشار کا شکار تھی اور اب بھارت اس حوالے سے کوششوں میں مصروف ہے کہ اِس تنظیم کے اگلے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے پاکستانی سفارت کار کی تقرری کو ہر قیمت میں روکا جائے۔ دوسری طرف پاکستان کی جانب سے بھرپور کوششیں جاری ہیں کہ وہ بھارت کی مخالفت کے سامنے ہار نہ مانے! اگر یہ تنازع حل نہ کیا گیا تو سارک سیکرٹریٹ ممکنہ طور پر طویل عرصے تک سربراہ کے بغیر کام کرے گا۔ واضح رہے کہ سیکریٹری جنرل کی تعیناتی کے حوالے سے پاکستان کی باری کا آغاز یکم مارچ دوہزار سترہ سے جاری ہوگا‘ جس کی مدت اٹھائیس فروری بیس سو بیس تک رہے گی۔ اصولی طور پر یہ پاکستان کا حق ہے لیکن بھارت کے لئے فروغ امن اور دوستی پر مبنی علاقائی تعاون سے زیادہ اِس بات کی اہمیت ہے کہ وہ خطے پر اپنی حاکمیت قائم کرے! سارک کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ سیکرٹری جنرل کی تعیناتی کے معاملے پر تعطل اور ایک ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہے جس میں اِس تنظیم کی فعالیت اور مقصد متاثر ہو۔
پاکستان کی جانب سے امجد حسین سیال کو سارک کے تیرہویں سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے نامزد کیا گیا‘ جو کھٹمنڈو میں واقع سارک سیکرٹریٹ میں ارجن بہادر تھاپا کی جگہ لیں گے‘ جن کی مدت رواں ماہ اٹھائیس فروری کو ختم ہونے جارہی ہے۔ امجد سیال کی نامزدگی کا اعلان مارچ دوہزار سولہ میں نیپال کے شہر پوکھارا میں ہوئی سارک کونسل آف منسٹرز کے اجلاس میں کردیا گیا تھا‘ جس کی توثیق تمام ارکان نے کی تھی تاہم گذشتہ ماہ ایک سفارتی مراسلے کے ذریعے بھارت نے سارک سیکرٹریٹ سے مسٹر تھاپا کے جانشین کی تقرری کے حوالے سے ’’طریقہ کار‘‘ سے متعلق پوچھا۔ اس طرح نئی دہلی نے سارک سیکرٹریٹ کے قیام کے وقت مفاہمت کی یادداشت کے آرٹیکل نمبر پانچ کی طرف اشارہ کیا‘ جس میں سیکرٹری جنرل کی تقرری کے طریقۂ کار کی تفصیلات دی گئی ہیں اور جس کے تحت رکن ممالک کے وزرائے خارجہ پر مشتمل سارک کونسل آف منسٹرز کی جانب سے اس تعیناتی کی توثیق کی جاتی ہے۔ بھارت کا مؤقف یہ ہے کہ اس نامزدگی کی توثیق اسلام آباد میں کونسل آف منسٹرز کے اجلاس کے دوران کی جانی چاہئے تھی‘ جو گذشتہ برس اس وجہ سے ملتوی کردیا گیا تھا کیونکہ بھارت نے اپنے بہت سے اتحادیوں سمیت اس اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کردیا تھا۔ دوسری جانب پاکستانی عہدیداران بھارت پر ’تاخیری حربوں‘ کے استعمال کا الزام عائد کرتے ہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ بھارت سمیت تمام رکن ممالک کی جانب سے رضامندی حاصل کی گئی تھی‘ اس حوالے سے تیس مئی دوہزار سولہ کی تاریخ کے ساتھ بھارتی سفارتی نوٹ قابل ذکر ہے جس میں امجد سیال کی بحیثیت سارک سیکرٹری جنرل تعیناتی پر رضامندی کا اظہار کیا گیا تھا لیکن بھارت حسب روایت پاکستانی عہدیداران کے مطابق نئی دہلی اس تعیناتی کے معاملے پر غیر ضروری مسائل پیدا کر رہا ہے۔
تنظیمی قواعد کی رو سے تمام سارک تنظیم کے آٹھ رکن ممالک (افغانستان‘ بنگلہ دیشں‘ بھوٹان‘ بھارت‘ مالدیپ‘ نیپال‘ پاکستان‘ سری لنکا) کی رضامندی کے بعد امجد سیال کی تقرری کا نوٹیفکیشن سارک سیکریٹریٹ سے آٹھ ستمبر دوہزار سولہ کو جاری کیا گیا تھا لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی جو کہ گذشتہ برس ستمبر میں اڑی حملے کے بعد سے پیدا ہوئی‘ اُس کی وجہ سے نبھارت نے گذشتہ سال نومبر میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کردیا تھا اُور اب پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیکرٹری جنرل کی تقرری کی مخالفت کرتے ہوئے بھارت درحقیقت سارک تنظیم کے مقصد اور اِس کی روح کی خلاف ورزی کر رہا ہے! لیکن بھارت سے پاکستان دشمنی میں کچھ بھی بعید نہیں تو یہ معاملہ اور بھارت کے منفی کردار بارے عالمی سطح پر شعور اُجاگر ہونا چاہئے کہ کس طرح بھارت ’بغل میں چھڑی‘ دبائے منہ میں ’رام رام‘ کی تکرار کر رہا ہے۔
امریکہ کے صدر ٹرمپ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے جس طرح اچھے اور بُرے کی تمیز نہیں کر رہے تو اُن کی نظروں میں بھارت کو لانے کے پاکستان کو عالمی سفارتی اور ذرائع ابلاغ کی سطح پر بھرپور مہم چلانی چاہئے تاکہ سارک تنظیم اور جنوب ایشیاء کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکے۔ جہاں تک سارک تنظیم کے مستقبل کا تعلق ہے تو یہ انتہائی مخدوش دکھائی دے رہا ہے۔ جون دوہزار سولہ میں برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے نے عالمی سطح پر علاقائی تعاون کی تنظیموں کی افادیت کم کر دی ہے اور اب ہر ملک اپنے اقتصادی مفادات پورے خطے کی ترقی سے زیادہ اہمیت دیتا ہے‘ ممالک کی ترجیحات میں ’نیشنل ازم‘ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور نظریات کے بارے میں بھی غور وقت کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment