ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سلیقے اُور ناکامیوں سے کام!
اَمریکہ کے نئے صدر کے اقدامات سے پوری دنیا میں ’ہنگامہ‘ برپا ہے جس میں سب سے زیادہ پریشانی اُن مسلمان ممالک بشمول پاکستان کو لاحق ہے‘ جن سے تعلق رکھنے والوں کے اَمریکہ میں داخلے یا اَمریکہ سے تعلق پر پابندیاں عائد کی گئیں ہیں۔ امریکہ کے نئے صدر مذہب کے نام پر جو اِمتیازات متعارف کروا رہے ہیں‘ اُس کی مخالفت میں خود اہل مغرب کے دانشور طبقات سمیت عوامی حلقے بھی یک زبان ہیں جن میں پوشیدہ ’’شر کے لطیف پہلو‘‘ غور طلب ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ شیطان ’خیرمحض‘ ہے‘ وہ اپنے وجود کے اعتبار سے ’شر‘ نہیں لیکن اپنے فعل کے اعتبار سے ’شریر‘ ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر گھر میں چاقو‘ چھڑی یا تیزدھار والا کوئی نہ کوئی آلہ ہوتا ہے۔ لذیذ پکوانوں میں جہاں دیگر اجناس کا دخل ہے وہیں چھڑی کا کردار بھی سبھی کو معلوم ہے لیکن اگر یہی چھڑی غلط استعمال ہو جائے تو اِس سے ’شر‘ کا ظہور ہوگا۔ اِسی طرح شیطان کو جو ’اِختیار‘ اِرادہ‘ اُور بالخصوص ’’اِقتدار‘‘ دیا گیا وہ بھی ’شر‘ نہیں لیکن اِس ارادے‘ اختیار اور اقتدار کے ’’غلط استعمال‘‘ سے ’شر‘ پیدا ہوتا ہے۔ شیطان کو ملنے والی آزادی اور مہلت میں تربیت کے پوشیدہ پہلو پر الگ سے غور ہونا چاہئے تاہم اِس محل پر ’مکافات عمل‘ پر توجہ مرکوز رکھنی ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رب تعالیٰ وہ ذات ہے جو بگڑے ہوئے کاموں سے اچھے نتائج نکالتی ہے بس اشرف المخلوقات کو یہ ہنر آنا چاہئے کہ جب کام بگڑ جائے تو اُسے سلیقے (حکمت) سے درست کر لیا جائے۔ یہی ’فراست ایمانی‘ اُور ’کمال انسانی‘ ہے جس کا شاعری کی دلآویز زبان میں بیان یہ ہے کہ
’’مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا! (میر تقی میرؔ )۔‘‘
امریکہ کی جانب سے جو کچھ بھی ہو رہا ہے اُس پر حد سے زیادہ پریشانی کے اظہار و احتجاج یا مذمت کی بجائے مسلمانوں کو سلیقے کا مظاہرہ اور اپنی ناکامیوں پر غور کرکے اصلاح (بچت) کے پہلو تلاش کرنا ہوں گے۔
تعجب ہے یہ تعجب خیزی (سنسنی خیزی) بھی امریکی وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ عہدے دار (چیف آف سٹاف رابنسن پریبس) کے بیان پر جنہوں نے کہا ہے کہ ’’مستقبل میں پاکستان کو بھی امیگریشن پر پابندی والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے‘‘ جس کی وجہ سے مغربی ممالک میں اپنی سرمایہ کاری‘ کاروباری مفادات اور مستقبل دیکھنے والوں کو پریشانی لاحق ہے! عجب کیا ہے ڈونلڈ ٹرمپ تو بطور صدر امریکہ وہی فیصلے کر رہے ہیں جن کا انہوں نے اپنے انتخابی منشور کے ذریعے اعلان کیا تھا وہ مسلم کمیونٹی اور اس ناطے سے پاکستان میں دہشت گردی کا ملبہ وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی ڈالتے رہے ہیں جبکہ انہوں نے اپنی مجوزہ امیگریشن پالیسی کے تحت اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی غیر قانونی تارکین وطن کو صدر کا منصب سنبھالتے ہی ملک سے باہر نکالنے کا اعلان کیا تھا۔ اب وہ اپنے ان اعلانات کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں تو وہ فرد واحد کی حیثیت سے نہیں بلکہ صدر کی حیثیت سے پورے امریکہ کی نمائندگی کرتے ہوئے ایسا کر رہے ہیں۔ اور یہ وہی پالیسی ہے جو امریکی نائن الیون کے بعد واشنگٹن انتظامیہ نے طے کی تھی۔ درحقیقت یہ باضابطہ امریکی پالیسی ہے جو خود کو دیگر ممالک اور اقوام سے برتر سمجھتے ہوئے امریکہ نے وضع کی اور گزشتہ پندرہ برس سے تسلسل کے ساتھ نافذ العمل ہے۔
بات صرف یہ ہے کہ اس امریکی پالیسی میں دیگر ممالک اپنے مفادات اور خودمختاری کی بنیاد پر کس نوعیت کا ردعمل ظاہر کرتے ہیں؟گیارہ ستمبر دوہزار ایک (نائن الیون) کا واقعہ ری پبلیکنز کے دور حکومت میں ہی رونما ہوا تھا جب جارج بش جونیئر امریکہ کے صدر تھے۔ اس واقعہ کی بنیاد پر امریکہ نے نیٹو فورسیز کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا فیصلہ کیا تو مسلم ممالک افغانستان اور عراق ہی اس کی زد میں آئے جبکہ پاکستان کو بش انتظامیہ نے اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنا کر اس جنگ میں ملوث کیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان امریکہ کے نزدیک ناقابل اعتبار ہیں کیونکہ جوہری قوت کے ناطے مسلم دنیا کی مؤثر نمائندگی پاکستان کے پاس ہے اور امریکہ نے دہشت گردی کے حوالے سے پوری مسلم کمیونٹی کو مشکوک قرار دے رکھا ہے۔ اس تناظر میں مسلم ممالک اور معقول مسلم آبادی والے ممالک امریکہ کی نئی وضع کی گئی امیگریشن کی پابندیوں کی زد میں آئے چنانچہ ان ممالک سے امریکہ آنے والے باشندوں کو امریکہ میں داخل ہونے سے پہلے ائرپورٹوں پر ہی توہین آمیز جامہ تلاشی کے مراحل سے گزارا جانے لگا جسے پاکستان کے عوام اور حکومت نے بھی خوشدلی سے قبول کیا اُور امریکہ جانے والے پاکستانی سرکاری وفود تک اس توہین آمیز جامہ تلاشی کے عمل سے گزرتے رہے۔ اگر اُس وقت خود داری اور اپنے وطن کی خودمختاری‘ عزت و آبرو کا کسی نے ایک ملک نے تحفظ کیا تو وہ بھارت تھا جس کے وزیر خارجہ جارج فرنینڈس ایک اعلیٰ سطحی وفد کی قیادت کرتے ہوئے امریکہ کے سرکاری دورے پر گئے جب اُنہیں نیویارک ائرپورٹ پر روک کر جامہ تلاشی کے عمل سے گزرنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے جامہ تلاشی سے انکار کیا اور ائرپورٹ سے ہی وفد کے ہمراہ بھارت واپس آ گئے۔ ان کی یوں واپسی پر بھارتی حکومت نے اعلان کیا کہ آئندہ بھارت آنے والے ہر امریکی باشندے کی بھی اسی طرح جامہ تلاشی ہو گی۔ اس دوٹوک فیصلے پر امریکی انتظامیہ کے ہوش کم از کم بھارت کی حد تک ٹھکانے پر آ گئے اور پھر امریکہ کی بھارت کے ساتھ ایسی راہ و رسم بڑھی کہ آج امریکہ بھارت کو اپنا فطری اتحادی اور بہترین دوست قرار دیتا ہے۔
حقیقت میں امریکہ کا اصل چہرہ ظاہر ہو رہا ہے۔
سرنامۂ کلام میں جس ’سرکشی‘ اور ’زد‘ کا تعارف کرایا گیا‘ قرآن کی اصطلاحی زبان میں اُسے ’طاغوت‘ کہا جاتا ہے۔ امریکہ طاغوتی طاقت ہے اور ٹرمپ کا اقتدار کم از کم اس حوالے سے تو غنیمت ہے کہ امریکہ کی ڈھکی چھپی ’طاغوتی سوچ (پالیسیاں)‘ ظاہر ہو رہی ہیں۔
No comments:
Post a Comment