Wednesday, March 15, 2017

Mar2017: In the light of census, untouched areas!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شماریات کا آئینہ!
اُنیس برس بعد ہونے جا رہی ’چھٹی مردم و خانہ شماری‘ کا کریڈٹ لینے والوں کو اپنی اِس ’دن دیہاڑے‘ دروغ گوئی سے خوف بھی نہیں آتا کہ جس طرح عدالت کے مسلسل دباؤ اور توہین عدالت سے بچنے کے لئے وہ بادلنخواستہ ایک ایسی مردم شماری پر مجبور ہوئے ہیں جس کے ساتھ سیاسی اہداف بھی منسلک کر دیئے گئے ہیں۔ عقل قاصر (معذور) ہے یہ سمجھنے سے کہ پاکستان میں مزید انتخابی حلقوں کا اضافہ تو ممکن ہے لیکن آبادی کی بنیاد پر مزید صوبوں کا تنازعہ نہیں اُٹھنا چاہئے!

’خواتین (صنفی مساوات)‘ سمیت کمزور طبقات کے حقوق کا تعلق بھی ’مردم شماری‘ ہی سے ہے جو سال 2008ء کے بعد سے ’بدنیتی‘ کی بناء پر التواء کا شکار رہی لیکن کیا اِس سلسلے میں خاطرخواہ نتائج حاصل ہو پائیں گے؟ پوری بحث کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ’چھٹی مردم و خانہ شماری‘ کا آغاز پندرہ مارچ (آج) سے ہو رہا ہے اُور اُمید ہے کہ دو لاکھ سے زائد فوجی حفاظتی دستوں کی ’’معاونت و نگرانی‘‘ سے ہونے والے اِس عمل کا اختتام طے شدہ معمولات (پروگرام) کے مطابق پچیس مئی تک ہوجائے گا۔ یاد رہے کہ مردم شماری کا یہ عمل دو مراحل میں مکمل ہوگا تو اِس سے یہ بحث بھی اپنی جگہ ہونا ثابت ہوگئی ہے کہ اگر ملک میں مردم شماری مرحلہ وار انداز میں ہو سکتی ہے تو بائیومیٹرکس کی بنیاد پر عام انتخابات کا انعقاد مرحلہ وار کیوں نہیں ہوسکتا؟ جبکہ مردم شماری میں بھی بائیومیٹرک کوائف کی تصدیق آن لائن ہو گی اور مجوزہ فارم کو ’مشین ریڈایبل‘ بنایا گیا ہے جس کی فوٹوکاپی (نقل) کارآمد نہیں ہوگی!

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک (پاکستان) میں یہ مردم شماری کئی حوالوں سے اہمیت کی حامل ہے جیسا کہ تیسری صنف سے تعلق رکھنے والوں کا الگ سے شمار ہو جائے گا۔ ملک میں نظرانداز کئے جانے والے ’خواجہ سرا‘ خوش ہیں کہ پاکستان کے قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب مردم شماری میں ’’مخنث افراد‘‘ کی تعداد علیحدہ سے گنی جائے گی‘ جس کی بنیاد پر اُن کے لئے عملی زندگی میں حقوق کا تعین اور تخصیص کے ساتھ باعزت روزگار کے مواقع زیربحث آئیں گے۔ خواجہ سرا‘ افراد کو شمار کئے جانے کا ’عدالتی فیصلہ‘‘ سامنے آنے کے بعد اِس حوالے سے ’مردم شماری فارمز‘ کی چھپائی کی گئی ہے جبکہ مردم شماری کے لئے تعینات افراد کو بھی خصوصی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جنس کا خانہ ’’احتیاط سے پُر کریں۔‘‘ یاد رہے کہ جنس کے خانے میں تین آپشنز (مرد‘ عورت (خاتون) یا مخنث) ہوں گے۔ اب یہاں ایک نیا پہلو سامنے آیا ہے اور وہ یہ ہے کہ مردم شماری میں معذور افراد کو علیحدہ سے شمار کیا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا تو کیوں؟

شاید اِس کی وجہ یہ ہو کہ وفاقی حکومت نہیں چاہتی کہ وہ زیادہ دباؤ کا شکار ہو اور ایک ایسی صورتحال کا اُسے سامنا کرنے پڑے جس میں پہلے ہی عوام کے حقوق کی ادائیگی بمشکل ہو رہی ہے!

مردم شماری و خانہ شماری کے عمل سے زبانوں کا شمار بھی حاصل ہوگا۔ پاکستان کثیرالنسلی افراد کے مسکن ہے۔ یہاں کی ہر زبان ہی خاص اہمیت کی حامل ہے اور کوئی بھی زبان چھوٹی یا بڑی نہیں بلکہ ہر زبان کے بطور مادری بولنے والوں کا شمار اگر حاصل ہو جاتا ہے تو اس سے نظام تعلیم اور نصاف مرتب کرنے والوں کو آسانی رہے گی تاہم اس مردم شماری میں ملک میں بولی اور سمجھی جانے والی تقریباً ستر زبانوں میں سے صرف نو (ایک کم دس) زبانوں کو شامل کیا گیا ہے جو ملک میں مقیم کئی برادریوں کے لئے مایوس کن ہے۔ مردم شماری میں قلیل آبادی والے علاقے گلگت بلتستان کی کسی علاقائی زبان کو شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی گجراتی زبان کو شامل کیا گیا ہے جو بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے بیشتر مسلمانوں کی زبان ہے۔گجراتی بولنے والے ان مسلمانوں کا خیال ہے کہ اگر زبان کو شناخت نہیں ملتی تو ان کی مادری زبان گمنام ہوسکتی ہے۔ حال ہی میں کراچی جانے کا موقع ملا جہاں گجراتی زبان بولنے والوں کی اکثریت آباد ہے۔ تیزی سے پھلتے پھولتے کراچی کی مثل ملک کا کوئی دوسرا شہر نہیں‘ جہاں کی مردم شماری کے لئے ضروریات مختلف ہونی چاہیءں لیکن عجب ہے کہ مردم شماری کے لئے ’لائحہ عمل‘ مرتب کرتے ہوئے پورے ملک کو ایک ہی نظر سے دیکھا گیا ہے۔

مردم شماری و خانہ شماری کا حساس نکتہ پاکستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد سے متعلق بھی ہے۔ اُمید ہے کہ رواں مردم شماری سے پاکستان میں موجود اقلیتی برادری بالخصوص عیسائیوں اور ہندوؤں کی حقیقی تعداد سامنے لائے گی۔ اب تک ہمارے ہاں اقلیتوں کی تعداد کے حوالے سے صرف اندازوں سے کام چلایا جاتا رہا ہے‘ جن پر کوئی ایسا اتفاق رائے بھی نہیں جو مسلمہ ہو۔ اِن اَندازوں کے مطابق پاکستان میں عیسائیوں کی تعداد بیس سے سو لاکھ (ایک کروڑ) کے درمیان جبکہ ہندو آبادی پچیس سے پینتالیس لاکھ کے لگ بھگ ہیں۔ چھٹی مردم شماری کے دوران شہری خود کو مسلمان‘ عیسائی‘ ہندو یا احمدی (قادیانی) ہونے کی حیثیت سے بیان کرسکیں گے۔ ان چار چوائسیز (پسند یا مرضی) کے علاؤہ خود کو ’شیڈولڈ طبقے کا رکن‘ بیان کرنے کا آپشن (اختیار‘ پسند‘ حق انتخاب) بھی دستیاب ہوگا‘ جس میں پسماندہ اور نچلی ذات کی ہندو برادری و دیگر افراد شامل تصور ہوں گے۔ توجہ رہے کہ مردم شماری میں سکھ‘ پارسی‘ بہائی مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے شمار کے لئے علیحدہ خانہ (آپشن) فراہم نہیں کیا گیا یقیناًایسا بناء سوچے سمجھے نہیں کیا گیا ہوگا تو کیوں؟
’چھٹی مردم و خانہ شماری‘ میں غورطلب سوال یہ بھی شامل ہے کہ کسی ’’گھر میں موجود بیت الخلأ (ٹوائلٹس) کی تعداد کتنی ہے؟‘‘ اِس بظاہر سیدھے سادے سوال کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کیونکہ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی چالیس فیصد آبادی ضروری حاجات کے لئے ’ٹوائلٹ‘ سے استفادہ نہیں کرتی‘ جو صحت سے جڑے بیشتر مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔

مردم شماری میں قومیت کے خانے میں شہریوں کے لئے دو آپشنز ’’پاکستانی یا غیر ملکی‘‘ اپنی جگہ اہم ہے تاہم اس حوالے سے پاکستانی فوج جو اس مردم شماری کے ساتھ متوازن شماری سرانجام دے گی‘ وہ قومیت کے حوالے سے مزید باریک بینی سے جائزہ لینے کا اِرادہ رکھتی ہے جس کی اہم وجہ ملک میں موجود افغان مہاجرین کی بڑی تعداد ہے۔ کئی مقامی افراد خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ افغان شہری مقامی افراد کی گنتی میں آجائیں گے جس سے اعدادوشمار پختون افراد کی تعداد میں اضافے کا سبب بنیں گے اُور حتمی نتیجہ یہ ہوگا (جوکہ اندیشہ بھی ہے) کہ پختون قوم پرست جماعتوں سیاسی عزائم کے لئے حاصل ہونے والے نمبروں کا فائدہ اُٹھائیں گی۔

کیا یہ بات عجب نہیں کہ وہ کم و بیش ساٹھ لاکھ پاکستانی جو کسی وجہ سے بیرون ملک مقیم ہیں‘ موجودہ مردم شماری کا حصہ نہیں بن پائیں گے حالانکہ اگر پاکستانی قونصل خانوں کو یہ ذمہ داری سونپ دی جاتی اور بائیومیٹرک تصدیق کو بھی شامل کیا جاتا تو بیرون ملک پاکستانیوں کی تعداد‘ اُن کی حالات و اوقات کار‘ مالی و سیاسی حیثیت اور پاکستان میں دلچسپی و مفادات جیسی معلومات اکٹھا کی جا سکتیں تھیں لیکن جس ملک میں بیرون ملک پاکستانیوں سے سیاسی جماعتیں چندا تو اکٹھا کرتی ہوں لیکن اُنہیں ووٹ کا حق حاصل نہ ہو‘ وہاں اِس قسم کا مطالبہ کیا معنی رکھ سکتا ہے!؟ بہرکیف اپنی جگہ دُکھ کی بات یہ بھی ہے کہ ’چھٹی مردم و خانہ شماری‘ میں اندرون ملک ہجرت کے حوالے سے بھی کوئی معلومات اکھٹی نہیں کی جائیں گی‘ جو درحقیقت کسی صوبے کی سیاسی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے نہایت ضروری حد تک ضروری تھا۔

کیا ہم واقعی یہ بھی جاننے کے خواہشمند نہیں کہ معاشی یا امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث عام آدمی (ہم عوام) کی کتنی بڑی تعداد ملک کے کسی ایک حصے سے دوسرے حصے منتقل ہوئی ہے؟ ’چھٹی مردم و خانہ شماری‘ کا عمل زیادہ وسیع‘ زیادہ بامعنی یا زیادہ جامع بنایا جاسکتا تھا اگر اِس کے بارے فیصلہ سازی کے عمل میں مشاورت کو اہمیت دی جاتی۔ خود کو ’’عقل کل‘‘ سمجھنے والے سیاسی اور عسکری فیصلہ سازوں نے مل بیٹھ کر جو بھی فیصلہ کیا ہے‘ اُس سے بہتری کی صورت‘ بہرصورت نکالنا ہی پڑے گی کیونکہ ہر سو چھائے اندھیروں کا یہ عالم ہے کہ ایسی کوئی بھی صورت (عافیت) سجھائی نہیں دے رہی‘ جو منصوبہ بندی کے کام کو آسان بنائے اور ہر سطح پر تعمیر و ترقی کا عمل بناء اعدادوشمار کیا معنی رکھتا ہے!؟
The incomplete effort

No comments:

Post a Comment