Thursday, March 16, 2017

Mar2017: Gender biased comments, need sensitization!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
غیرمحتاط تبصرے!
غورطلب ہے کہ روزمرہ بات چیت میں احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے ہم دوسروں کے بارے میں جس غیرمحتاط ’رائے‘ کا اظہار کرتے ہیں‘ اُس کی وجہ سے نہ صرف رشتوں اُور تعلقات میں پیچیدگیاں (خلیج) در آتی ہیں بلکہ قسم قسم کے صنفی امتیازات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ملک کے مختلف حصوں سے آئے وفود کا ’انسٹی ٹیوٹ آف بزنس منیجمنیٹ (کراچی)‘ پہنچنے پر تعارف کے فوراً بعد جس پہلے ’’تربیتی جملے‘‘ سے واسطہ پڑا وہ یہ تھا کہ ’’پانچ روزہ تربیت کے دوران ایک دوسرے کی ذات کے بارے میں ایسا کوئی جملہ نہیں بولنا جس سے آپ کی ’حتمی رائے‘ کا اظہار ہوتا ہو‘‘ لیکن روزمرہ بول چال کے حوالے سے عمومی قومی رویئے اس بات کے عکاس ہیں کہ گھر‘ بازار‘ درسگاہیں اور قانون ساز ایوانوں تک سب کچھ غیرمحتاط اظہار رائے کے گرد گھوم رہا ہے۔ 

سیاسی مخالفین کا مختلف مواقعوں پر باہم دست و گریبان ہونا اور ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں تو کیا کسی نے سوچا کہ قائدین و رہنماؤں کے اِس قسم کے بیانات اور عمومی طرز فکروعمل کا عام آدمی (ہم عوام) کے ذہنوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اراکین قومی اسمبلی مراد سعید اور جاوید لطیف کے درمیان جھگڑا نہ تو پہلا تھا اُور نہ ہی اِس ’بُری روایت‘ کو آخری سمجھنا چاہئے۔ قومی اسمبلی کی کاروائی کے دوران کم و بیش ہر روز ہی ایسے مواقع آتے ہیں جب اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کو مداخلت کرتے ہوئے چند جملوں کو اسمبلی کاروائی سے ہذف کرنے کا حکم دینا پڑتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ایسے جملے بولنے والے تجربہ کار اور معروف سیاستدان ’انتہائی اِحتیاط‘ سے کام کیوں نہیں لیتے؟ یہ مرحلہ اِس باریک نکتے کو سمجھنے کا ہے کہ ’’بنیادی طور پر ’ناخواندگی‘ سارے فساد کی جڑ ہے۔‘‘ 

اذہان عالیہ کے لئے اِس حوالے سے ایک خواہش بطور تجویز پیش خدمت ہے کہ اراکین قومی اسمبلی ’انسٹی ٹیوٹ آف بزنس منیجمنیٹ (کراچی)‘ سے وابستہ معلمہ ’ڈاکٹر ثمرہ جاوید‘ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کریں اُور سمجھیں کہ صنف و جنس متعلق ہوں یا نہ ہوں لیکن عمومی و خصوصی بول چال میں احتیاط کے تقاضے کس قدر ہیں اور جن کا خیال رکھنا کتنا اہم یا ضروری ہوتا ہے۔

قوم کے سامنے سوالات کے ڈھیر میں تازہ اضافہ غورطلب ہے کہ کیا حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف کو اپنے ہم عصر مراد سعید کی بہنوں کے حوالے سے نامناسب بات کہنی چاہئے تھی؟ غصے کی حالت میں اُن کے منہ سے جو کچھ بھی نکلا‘ کیا یہ خاص ردعمل تھا یا بول چال کی عمومی عادت؟ یہ پہلا موقع نہیں جب قومی اسمبلی کے اندر یا احاطے میں خواتین کو تضحیک ہوئی ہو بلکہ اس سے قبل بھی ایسے بے شمار قابل مذمت واقعات سامنے آچکے ہیں‘ جو یاداشتوں کا حصہ بھی نہیں رہے۔ مثال کے طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو کے شوخ لباس پر تبصرے کئے گئے۔ ایک مرتبہ بینظیر بھٹو نے پاکستانی جھنڈے جیسے سبز رنگ کی قمیض کے ساتھ سفید شلوار زیب تن کی ہوئی تھی‘ وہ ایوان میں داخل ہوئیں تو ایک رکن قومی اسمبلی نے تبصرہ کیا کہ ’’آپ بالکل طوطے جیسی دکھائی دیتی ہیں‘‘ جس پر محترمہ بینظیر بھٹو چپ نہ رہیں اور ایوان میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ اُنہی رکن قومی اسمبلی نے دوسری مرتبہ بھی محترمہ کی شخصیت و لباس کو اُس وقت تنقید کا نشانہ بنایا جب وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں زرد رنگ کا سوٹ پہن کر تشریف لائیں‘ اور جب وہ ایوان سے باہر نکلنے لگیں تو شیخ رشید اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور تقریر نہ سننے پر ایسے لقب سے پکارا جسے ایوان تو کیا سڑکوں پر بھی بہت بُرا تصور کیا جاتا ہے۔ اسی روز گورنر پنجاب اور محترمہ بینظیر بھٹو کی ملاقات طے تھی‘ بینظیر اسی ملاقات کے لئے جارہی تھیں‘ جب اُسی رکن قومی اسمبلی نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور دیکھنے والوں نے کہا کہ محترمہ بینظیر کی آنکھیں سرخ دیکھی گئیں۔ کاش کہ یہ واقعات مسلسل رونما نہ ہوتے۔ جب تک قوم شائستگی اور بول چال میں ادب اداب کا مطالبہ نہیں کرے گی‘ سیاستدان اپنی اصلاح نہیں کریں گے۔ 

کیا ہم بھول نہیں چکے کہ رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری کو ’’ٹریکٹر ٹرالی‘‘ کہنے سے قبل کسی ’معزز رکن اسمبلی‘ نے بیگم مہناز رفیع کو اُن کے پاؤں میں لنگڑاہٹ کی وجہ سے ’پینگوئن‘ کا خطاب دیا تھا!؟ جون دوہزار سولہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بھی خاتون سیاستدان پر ایک تبصرے کے باعث ہی ’’مچھلی منڈی‘‘ میں تبدیل ہوا۔ ماہ رمضان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے جاری بحث میں جب شیریں مزاری نے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا تو متعلقہ وزیر نے یکایک (ازرائے مذاق) شیریں مزاری پر تنقید کا تیر برساتے ہوئے کہا کہ ’’کوئی اِس ٹریکٹر ٹرالی کو خاموش کرائے یا کم سے کم سے اسکی آواز کچھ خواتین جیسی کر دے۔‘‘ اجلاس کے عینی شاہدین کے مطابق اس موقع پر حکومتی نشستوں میں سے شیریں مزاری کو (تضحیک کے طور پر) ’’آنٹی‘ آنٹی‘‘ کہہ کر بھی مخاطب کیا گیا۔

بات قانون ساز ایوانوں کی ہو یا ذرائع ابلاغ کے براہ راست (لائیو) نشر ہونے والے بحث و مباحثوں (ٹاک شوز) کی ہر جگہ جس ایک سبب سیاستدانوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہی عمومی طرز عمل ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں فیصلہ صادر فرمانے میں ذرا دیر نہیں کرتے یا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ذومعنی جملوں پر ایوانوں اور راہداریوں میں گونجنے والے قہقہے ہوں یا خواتین کی تضحیک کرنے والوں کے بحث و مباحثے (ٹاک شوز) کی بڑھتی ہوئی مقبولیت (اُوور ریٹنگز) جیسا قابل مذمت معیار‘ اِس بات کی گواہی ہیں کہ مضبوط نظریات کی حامل پراعتماد خواتین کی موجودگی متعدد حضرات کے لئے قابل برداشت نہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ہاں انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں بات کرتے ہوئے عوام و خواص کی حالت یہی ہے کہ اَچھے اَچھوں کو ’خواتین سے بات کرنے کی تمیز نہیں!‘
!Mind your language

No comments:

Post a Comment