ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
فوجی عدالتیں: کیوں نہیں؟
تصور ہی باطل ہے کہ صرف ’اِنسداد دہشت گردی‘ کے مقدمات میں ’فوری انصاف تک رسائی‘ ضروری ہے‘ جس کے لئے دو سال قبل فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے کی جانے والی قانون سازی کی پھر سے ضرورت آ پڑی ہے اور اِس مرتبہ چند ترامیم کے ساتھ مذکورہ مسودہ قانون (بل) قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک حساس مسئلہ ہے جس کے بارے میں ملک کی عسکری قیادت بھی یکساں فکرمند ہے اور یہی وجہ ہے کہ حالیہ ’’کور کمانڈرز کانفرنس‘‘ میں فوجی عدالتوں کی ’’اطمینان بخش کارکردگی‘‘ زیرغور آئی۔ چھوٹے موٹے اعتراضات اپنی جگہ لیکن ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں ماسوائے پیپلز پارٹی‘ ان آئینی و قانونی مسودوں پر متفق ہیں جو مسودے قومی اسمبلی میں پیش کئے جا چکے ہیں۔
عجب ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام پر سیاسی جماعتیں نہ تو کھل کر حمایت اور نہ ہی کھل کر مخالفت کر رہی ہیں لیکن اُنہوں نے سیاست کے ذریعے ایک اچھی خاصی ضرورت کو التوأ (شک) میں ڈال رکھا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کا مؤقف ہے کہ اس قانون میں سے ’مذہب‘ اور ’فرقے‘ کے الفاظ حذف کئے جائیں‘ قانون امتیازی نہیں ہونا چاہئے اور دہشت گردوں کی کسی درجہ بندی کا اندراج بھی آئین میں نہیں ہونا چاہئے۔ ’ایم کیو ایم‘ کا مطالبہ ہے کہ قانون صرف مذہب اور فرقے کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف ہونا چاہئے اور عام نوعیت کے دہشت گردوں کے خلاف فوجی عدالتوں کی بجائے عام عدالتوں میں عام قوانین کے تحت کاروائی ہونی چاہئے لیکن سب سے ’’مبہم‘ گومگو اور چونکہ چنانچہ‘‘ پر مبنی مؤقف پیپلز پارٹی کا ہے۔ پہلے دن سے بل کے پیش ہونے تک پیپلز پارٹی نہ صاف چھپتی ہے نہ سامنے آتی ہے۔ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے سے لے کر مدت میں توسیع کے معاملات پر مذاکرات اور اجلاسوں میں اپنا مؤقف اور رائے تبدیل کرتی ہوئی نظر آئی ہے۔
پیپلز پارٹی نے اسپیکر قومی اسمبلی کی صدارت میں ہونے والے آخری اجلاس میں اپنی تجاویز رکھیں اور یہ بات سامنے آئی کہ پیپلز پارٹی دو برس کے لئے فوجی عدالتیں قائم کرنے کے لئے راضی ہو چکی ہے لیکن رات ڈھلے پیپلز پارٹی نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اپنی تجاویز سے دستبردار نہیں ہوئی۔ ایسا ہرگز نہیں کہ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کو ناقابل قبول سمجھ کر ایوان کے اندر یا باہر ان کی مخالفت کرے گی‘ یہ بھی نہیں کہ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں اس بل کی حمایت کرے اور سینیٹ سے فوجی عدالتوں کا بل رد کروا دے گی۔ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کی حامی بھی ہے اور مخالف بھی۔ اصل بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی شرائط پر فوجی عدالتیں قائم کرنا چاہتی ہے!
فوجی عدالتوں کی ضرورت کی بات صرف حکومت ہی نہیں بلکہ اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ بھی کر رہی ہے۔ مقتدر قوتیں چاہتی ہیں کہ وہی فوجی عدالتیں ہوں جو دہشت گردی میں ملوث مجرموں کے خلاف پہلے کی طرح ہنگامی بنیادوں پر مقدمات چلائیں تاکہ مجرموں کو منطقی انجام تک پہنچا کر دہشت گردی کے شکار لوگوں کو انصاف مہیا کیا جا سکے۔
دو سال قبل آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گرد حملے کے بعد وزیراعظم ہاؤس میں کل جماعتی کانفرنس کے موقع پر پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کا وہ بیان آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے جس کی تعریف وزیرِ داخلہ بھی کر چکے ہیں۔ اس بیان میں آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ ’’اگر میری جماعت کو نقصان ہوتا ہے تو بھی منظور لیکن دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے حکومت اور فوج کے ساتھ ہیں۔‘‘ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اِن دو برسوں میں ایسا کیا ہوا کہ اب پیپلز پارٹی ان فوجی عدالتوں کو توسیع دینے کو تیار نہیں اور تیار ہے تو اپنی کچھ شرائط کے ساتھ؟
پیپلزپارٹی اب تک ’’قلیل الجماعتی کانفرنس‘‘ طلب کر چکی ہے جس کی ناکامی کے بعد اُس نے اکیلے ہی فوجی عدالتوں پر ’’نو نکاتی تجاویز‘‘ پیش کر دیں‘ جس میں فطری انصاف‘ عالمی قوانین اور شفاف ٹرائل کے تمام اصولوں کا ذکر ہے لیکن فوجی عدالتوں کے قیام کے تناظر میں یہ نکات فنی اعتبار سے ناقابلِ عمل سمجھے جاتے ہیں۔ تجویز کے مطابق اگر سیشن ججوں نے ہی اس طرح کا ٹرائل کرنا ہے تو آئین میں ترمیم کی ضرورت کیا ہے؟ اور اگر عام قوانین کے مطابق ملزموں کے خلاف استغاثہ ہونا ہے تو پھر فوجی عدالتوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنا مؤقف واضح نہیں کر پا رہی اور اِس سوال کا سامنا بھی نہیں کرنا چاہتی کہ کیا دہشت گرد کسی رعائت کے مستحق ہیں؟ پیپلزپارٹی کی جانب سے فوجی عدالتوں پر اپنا الگ بل لانے کا مطلب ’’سیاست‘‘ کے سوائے اُور کیا لیا جا سکتا ہے جبکہ تحریک انصاف حکومت سے نالاں ہے‘ اگر یہ دونوں جماعتیں حقیقی مخالفت کی ٹھان لیں تو حکومت لاکھوں کوششوں کے باوجود فوجی عدالتوں کا بل منظور نہیں کروا سکے گی تو کیا ایسا کرنا ملک کے مفاد میں ہوگا؟
پیپلز پارٹی ڈیل بھی چاہتی ہے اور اپنی طاقت و اہمیت کا مظاہرہ بھی کر رہی ہے۔ ڈیل (کچھ لو کچھ دو) کا مطلب ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کی رہائی ممکن بنائی جائے اور طاقت و اہمیت کی بنیاد پر نمایاں ہونے کی ضرورت پارٹی کے داخلی محاذ پر جاری اختیارات کی اُس رسہ کشی کی وجہ سے محسوس ہو رہی ہے‘ جس کا ایک سرا زرداری اور اُن کے وفاداروں اور رسی کا دوسرا سرا بلاول اُور اُن کے ساتھ اپنا سیاسی مستقبل وابستہ کرنے والے کارکنوں کی اکثریت کے پیش نظر ہے۔ اصولی طور پر تمام مقدمات کا فیصلہ عمومی یا انسداد دہشت گردی کی عدالتوں ہی سے ہونے چاہیءں لیکن ملک کو جن معروضی حالات و مشکلات (بحرانوں) کا سامنا ہے اُن میں خصوصی عدالتی نظام کے بغیر دہشت گردی سے نمٹنے کی قومی حکمت عملی (نیشنل ایکشن پلان) کے جملہ اہداف حاصل نہیں ہو سکیں گے اور یہ بات ’مخالفت برائے مخالفت‘ کر رہی سیاسی جماعتوں کے قائدین بخوبی جانتے ہیں‘ جنہیں اپنے اپنے جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے مفاد کے بارے میں بھی ضرور سوچنا چاہئے۔
![]() |
Politicizing the military courts for known reasons |
No comments:
Post a Comment