ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تعلیم: کاروباری سوچ اور اَزخود نوٹس!
کیا ہوا کہ اَگر ’مفادات سے متصادم‘ آئین سازی کا عمل ’تبدیلی کے عہد و عزم‘ کے باوجود بھی ’بروقت‘ مکمل نہیں ہو پایا لیکن اگر تربیت‘ اخلاق اُور ضمیر سیاسی فیصلہ سازوں کی ترجیحات و شخصیات کا حصہ اُور خود اُنہی کے لئے رہنما ہوتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ خیبرپختونخوا کے طول و عرض اُور بالخصوص ’تعلیمی اِداروں کے شہر‘ اَیبٹ آباد میں نئے تعلیمی سال کے آغاز پر نجی تعلیمی اِدارے یوں من مانی کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجاتے دکھائی دیتے!
وفاق اُور صوبے کے اِمتحانی تعلیمی نگران اِداروں (بورڈز) اور حکومتوں کی موجودگی میں اگر کوئی نجی تعلیمی ادارہ نئے داخل ہونے والوں سے اِضافی ماہانہ فیسیں وصول کر رہا ہے یا اُس نے پہلے سے زیرتعلیم طلباء و طالبات کی ماہانہ فیسوں میں (کم سے کم) ’دس فیصد‘ کے تناسب سے اِضافہ کرنے کی روایت اِس سال بھی برقرار رکھی گئی ہے یا سیکورٹی (حفاظتی انتظامات) اُور ہم نصابی سرگرمیوں کے نام پر ہر سال اور ہر طالب علم سے لاکھوں روپے بٹورے جا رہے ہیں یا زیرتعلیم بہن بھائیوں کے ایک ہی سکول میں داخلے کی صورت ماہانہ فیسوں میں رعائت نہیں دی جا رہی یا نجی تعلیمی اداروں کی آمدن و اخراجات میں شفافیت کا یہ عالم ہے کہ سکولوں کی آمدنی سے خریدے گئے اپنے ہی اثاثوں کا کرایہ وصول کیا جاتا ہے‘ نجی سکولوں کے مالکان اپنے اہل و عیال کی بطور ملازمین دیگر عملے سے زیادہ تنخواہیں اور مراعات مقرر کر دیتے ہیں اور یوں آمدنی کا بڑا حصہ ایک جیب سے دوسری جیب میں منتقل کر دیا جاتا ہے اور عمومی تدریسی عملے کا استحصال ایک عمومی روش بن چکا ہے تو ایسی بہت سی دیگر بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں (خرابیوں) کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انتظامی طور پر قواعدوضوابط تو موجود ہیں لیکن اِن کا اطلاق کرنے میں متعلقہ نگران ادارے اِس لئے بھی ناکام ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ تحریک انصاف کی قیادت میں صوبائی کابینہ اور وزیراعلیٰ کے آس پاس‘ مشیر و معاونین کی صورت ایسے کردار موجود ہیں جن کے یا تو براہ راست ذاتی مفادات نجی تعلیمی اِداروں سے وابستہ ہیں یا پھر وہ معلوم وجوہات کی بناء پر اِن اداروں کے مفادات کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔
بنی گالہ کو ’اَزخود نوٹس‘ لینا چاہئے کہ یہی عناصر (مافیا) ’صوبائی سطح پر اُس تعلیمی ہنگامی حالت (اِیمرجنسی)‘ کی راہ میں بھی حائل ہیں جس کے تحت اب تک صوبائی حکومت اربوں روپے سرکاری تعلیمی اداروں میں سہولیات کی فراہمی اور معیار تعلیم بلند کرنے کے لئے اساتذہ کی تربیت و حاضری یقینی بنانے پر خرچ کر چکی ہے لیکن خاطرخواہ نتائج پھر بھی حاصل نہ ہونے کی وجوہات توجہ اور مطالعہ چاہتی ہیں کیونکہ حکومت کی بنیادی ذمہ داری (نام اُور کام) عام آدمی (ہم عوام) کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا ہے اور اگر ایسا کاغذی کاروائیوں کی بجائے عملاً ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ خیبرپختونخوا میں ’نجی تعلیمی اِدارے‘ لاچار والدین کی مجبوریوں سے یوں فائدہ اُٹھا رہے ہوتے؟ تصور کیجئے کہ اَگر صوبائی حکومت ’صارفین کے حقوق کی محافظ‘ بن جائے تو کیا ایسا ممکن ہوسکتا ہے کہ نجی تعلیمی اِدارے نہ صرف داخلہ فیسوں بلکہ ماہانہ فیسوں کی مد میں بھی ہر سال ’دس فیصد‘ کے تناسب سے یا من مانا اضافہ کر سکیں؟ سوچئے کہ بناء ہتھیار ڈاکہ جیسے جرم کا اطلاق کسی ایسے مجبور و لاچار کو لوٹنے والوں پر بھی تو کیا جا سکتا ہے جس کی آنکھوں میں اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے خواب بسے ہوں؟
اگر ’بنی گالہ‘ کو فرصت نہیں تو کیا ’پشاور ہائی کورٹ‘ اَزخود نوٹس لے گی کہ ایک طرف سرکاری تعلیمی اِداروں کا معیار تعلیم کم ترین سطح سے بلند کرنے کی سست رو کوششیں ہر سال ’امتحانی نتائج کے اعلان‘ پر ناکام ثابت ہوتی دکھائی دیتی ہیں تو دوسری طرف ’بہ اَمر مجبوری‘ نجی تعلیمی اِداروں سے استفادہ کرنے والوں کا واسطہ ایک ایسی حرص و طمع سے ہے‘ جس کی تسکین مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن دکھائی دے رہی ہے!
توجہ مرکوز رہے تو ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ اِمتحانی بورڈز کی کارکردگی اور ساکھ بہتر بنانے پر خاص توجہ دی جائے۔ سب سے پہلے تو ایک سے زیادہ اقسام کے امتحانی نظام متعارف کرانے سے پیدا ہونے والی مشکل حل کی جائے اور طلباء و طالبات کو تدریسی عمل کے دوران ’امتحانی طریقۂ کار‘ سے متعلق باقاعدہ تربیت دی جائے جس دوران ’امتحانی مراحل‘ طے کرنے کے لئے رہنمائی کے ساتھ کامیابی کے لئے ضروری ’اعتماد و نفسیات‘ بھی شامل ہونی چاہئے۔ دوسری ضرورت امتحانی بورڈز کی کارکردگی شفاف بنانے کی ہے جس کے لئے ’آن لائن‘ وسائل کا استفادہ کم خرچ حل موجود ہے۔ ہر طالب علم کو اُس کے پرچہ جات کے نمبروں (مارکنگ) تک ’آن لائن‘ رسائی دینے میں کیا امر (مشکل) رکاوٹ ہے؟ تیسری ضرورت ہر سال چند نجی تعلیمی اداروں کے مثالی امتحانی نتائج کی روایت سے اِس شک کو تقویت ملتی ہے کہ امتحانی مراکز و نگران عملہ اور پرچہ جات کی جانچ پڑتال کا عمل درجہ بہ درجہ خرابیوں کا مجموعہ ہے۔ مثال کے طور پر بہت پرانی بات نہیں جب محکمۂ ایکسائز ایبٹ آباد کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے جب نئی نویلی (زیرو میٹر) موٹر گاڑی روک کر اُس کی ملکیت کے کاغذات طلب کئے تو معلوم ہوا کہ مذکورہ گاڑی اِمتحانی بورڈ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے زیراستعمال ہیجبکہ اِس کے ملکیتی کاغذات ایک معروف نجی سکول کے پاس ہیں‘ جس کی انتظامیہ (مالک) اور بورڈ اہکار کے درمیان ’طے شدہ امتحانی نتیجہ‘ کے اعلان تک گاڑی کے ملکیتی کاغذات سکول ہی کے پاس رہیں گے! ایسی کئی دیگر مثالیں بھی موجود ہیں لیکن صرف اِسی ایک معمولی مثال سے پورے تعلیمی و اِمتحانی نظام کے معیار اُور نجی سکولوں کے اچھے نتائج کے درپردہ ’’طریقۂ واردات‘‘ کا پول کھل جاتا ہے۔
اَیبٹ آباد کے امتحانی نگران اِدارے (بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اَینڈ سیکنڈری اِیجوکیشن) نے امتحانات کے عمل کو شفاف بنانے کے لئے دوران امتحان ’مراکز‘ کی آن لائن مانیٹرنگ (محض نگرانی) کا فیصلہ کیا ہے جبکہ بورڈ کے پاس نہ تو اِس قدر بڑے پیمانے پر ’آن لائن نگرانی‘ کا نظام موجود ہے اور نہ ہی (نان کمرشل) دستیاب انٹرنیٹ کے وسائل ہی اِس قدر قابل بھروسہ ہیں کہ اُن پر کلی طور پر انحصار کیا جائے۔ یاد رہے کہ بورڈ کے زیرانتظام ہر سال ’’گیارہ لاکھ اَسی ہزار‘‘ سے زائد طلباء و طالبات کا امتحان لیا جاتا ہے اور اِس سال تین اپریل سے امتحانات کا سلسلہ شروع ہوگا۔ قوئ امکان ہے کہ ’آن لائن آلات‘ کی خریداری پر لاکھوں روپے خرچ کئے جائیں گے‘ جس کا مالی فائدہ فیصلہ سازوں اور آلات فراہم کرنے والے اداروں کو ہو گا لیکن جہاں تک نقل (اَن فیئر مینز) کی روک تھام کا تعلق ہے تو وہ آنکھیں کہاں سے آئیں گی‘ جنہیں اگر امتحانی مراکز میں تعینات کیا جائے تو (تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے) بند رہتی ہیں لیکن کیا الیکٹرانک آلات کی مدد سے ’آن لائن‘ نگرانی کر پائیں گی!
آخر ہم نے بدعنوانی سے ہار کیوں مان لی ہے؟ آخر ہم انسانی دانش و بصیرت اور ایمانداری پر بھروسہ کیوں نہیں کر پا رہے؟ کیا ہم ’صاحب کردار‘ ہونے کے دعویدار اتنے ہی ’قابل فروخت‘ ہو چکے ہیں کہ اَب مشینیں ’ہم اِنسانوں‘ کی نگرانی سے زیادہ ’قابل بھروسہ‘ ہوں گی؟
![]() |
Online monitoring of the examination halls, another experiment |
No comments:
Post a Comment