ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
نایاب ہستیاں: ’بی بی ڈُو‘
اپنی زندگیاں کسی مقصد کے لئے وقف کرنے والے ’ظاہری حیات‘ کے بعد بھی اِس صورت زندہ و رہنما رہتے ہیں کہ اِجتماعی بہبود کے بارے میں اُن کے تصورات و نظریات اُور سماجی خدمات مشعل راہ رہتی ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت محترمہ ’ماورین پٹریشا لائنز‘ (Maureen P Lines) کی تھی جنہیں احتراماً ’’بی بی ڈُو (Bibi Dow)‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ اَٹھارہ مارچ کے روز آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد اُنہیں پشاور کے ’’گورا (عیسائی) قبرستان‘‘ میں سپرد خاک کردیا گیا۔ 79برس کی عمر میں انتقال کرنے والی ’بی بی ڈُو‘ چند ماہ سے علیل تھیں۔
’بی بی ڈُو‘ سے میری ملاقات یونیورسٹی ٹاؤن پشاور میں اُن کی رہائشگاہ پر ہوئی‘ جہاں وہ موسم سرما کے دوران ہی قیام کرتی تھیں جب چترال آمدورفت کے راستے برفباری سے بند ہو جاتے۔ چترال اُن کی زندگی میں اِس قدر رس بس گیا تھا کہ گھر کی درویوار سے لیکر مہمانوں کی تواضع تک چترال ہی سے لائی گئی سوغات (خشک میوہ جات) سے کرتی تھیں۔ انہیں فوٹوگرافی کا جنون کی حد تک شوق تھا لیکن یہ شوق بھی ایک مقصد و تحریک کے تابع تھا‘ کیونکہ تصاویر کے ذریعے پیغام منتقل کرنے میں زبان اور الفاظ کی محتاجی نہیں رہتی۔ انہوں نے کالاش خاندانوں کی قربت کے ہر قیمتی لمحے کو کچھ اِس انداز میں محفوظ (قید) کیا کہ اُن کے ہاں (فن کمال یہ تھا کہ) ’تصویروں کے بولنے کا گماں ہوتا۔‘ وہ چہرے پڑھ لیا کرتی تھیں۔ آنکھوں میں جھانک کر بات کرنے کی عادت ایک ایسے سچ کا جیتا جاگتا وجود تھا‘ جس کا طلسم سر چڑھ کر بولتا تھا لیکن مستند ’’سماجی ماہر‘ اِنسان دوست‘ ہمدرد اُور غریب نواز (philanthropist)‘‘ ہونے کے باوجود بھی اُنہوں نے اپنے آپ کو خودنمائی (ذرائع ابلاغ) سے ایک خاص فاصلے پر رکھا تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت اپنے مقصد کو دے سکیں۔ بطور صحافی تربیت اور تجربے کا استعمال کرتے ہوئے وہ اپنی بات دوسروں کے ذریعے کہلوانے کی بجائے براہ راست ’فرائیڈے ٹائمز‘ اور ’ڈان‘ کے ذریعے شائع کرواتی تھیں اور یہی صحافت کا وہ تبدیل ہوتا عالمی انداز ہے جس میں لکھاری اور فوٹوگرافر الگ الگ نہیں رہے بلکہ دونوں ہی ابلاغ کے لئے ایک سے زیادہ ذرائع کا استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں کم و بیش 37 برس ’بی بی ڈُو‘ کے قیام کا اگر خلاصہ پیش کیا جائے تو انہوں نے اپنی تمام صلاحیتیں اور جملہ وسائل خیبرپختونخوا کے ضلع چترال میں جنگلات اور کالاش قبیلے کے رسم و رواج‘ رہن سہن اور سماجی تحفظ‘ کی نذر کئے۔ اپنی ذات میں ایک تحریک ’بی بی ڈُو‘ سے ملاقات کا سبب اُن کی تصاویر کے انتخاب بارے ایک نشست تھی جو بعد میں مختلف وسیلوں سے جاری رہی۔ فن عکاسی کے بارے میں بھی اُن سے تبادلۂ خیال اُور تکنیکی اَمور کے بارے اُن کی معلومات و مہارت کسی بھی طرح معمولی نہیں تھے۔ تصویر بنانے سے پہلے ہی وہ اُس کے ممکنہ استعمال کے بارے میں بھی فیصلہ کر لیتی تھیں اور اِس سے بھی بڑھ کر اہم بات اُن کی یاداشت تھی‘ جو ہر تصویر کے ساتھ گھنٹوں بولنے کی صورت حافظے کا حصہ تھی۔ اُمید ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت اُن کی بنائی ہوئی تصاویر کی قومی و عالمی سطح پر نمائش کے ذریعے اُن کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرے گی۔
برطانوی نژاد ’بی بی ڈُو‘ کو بالخصوص ضلع چترال میں فروغ تعلیم اُور کالاش قبیلے کی ثقافت محفوظ بنانے کے لئے خدمات پر حکومت پاکستان نے 2007ء میں ’’تمغۂ اِمتیاز‘‘سے نوازہ‘ جس کی اپنی جگہ اہمیت لیکن اُنہیں ایسے کسی بھی اعزاز سے اپنی ذات کے لئے خوشی نہیں تھی۔
ایک سوال کہ ’’کہ ’تمغۂ امتیاز‘ کا فائدہ یہ ہوا؟‘‘ کے جواب میں اُن کے شائستہ الفاظ کی گونج آج بھی ذہن میں محفوظ ہے کہ ’’اب لوگ میری بات زیادہ سنجیدگی سے سننے لگے ہیں‘ (تعجب ہے کہ) کیا ہمیں اعزازات کی لالچ میں سماجی خدمت کرنی چاہئے؟ میرا خیال ہے نہیں کیونکہ ’بے نوا انسانوں‘ کی خدمت سے زیادہ بڑا اعزاز کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔‘‘ ’بی بی ڈُو‘ 1937ء برطانیہ میں پیداہوئیں‘ 1980ء میں پہلی مرتبہ پاکستان آئیں اور پھر یہیں کی ہو کر رہ گئیں۔ انہوں نے چترال کی مخدوش تہذیب کالاش کے لئے اپنی عمر وقف کر دی۔ غیرسرکاری تنظیم (این جی اُو) کی طرح کام کرنے والی ’بی بی ڈُو‘ ایک ایسی مثال ہیں جس سے ’این جی اُوز کیمونٹی‘ کو بھی سبق سیکھنا چاہئے کہ انہوں نے کس انداز میں خود کو کالاش گھرانوں کی بہبود کے لئے وقف کیا اور کس طرح اُن سے گھل مل کر اُن کی قدیم زبان پر بھی دسترس حاصل کی۔ ’بی بی ڈُو‘ آخری عمر تک اس مخدوش و قدیم تہذیب کی ترویج کے لئے کوشاں رہیں۔ متعددکتب تصنیف کیں۔ چترال کے دورافتادہ‘ پسماندہ علاقے کی ایک وادی بریر میں انہوں نے کالاش کے یتیم بچوں کی کفالت کی ذمہ داری کے ساتھ سکول بھی تعمیر کیا۔ جنگلات کاٹنے والے بااثر مافیا کے خلاف بھی ڈٹ کر تحفظ ماحول کی کوششیں جاری رکھیں۔ ’بی بی ڈُو‘ نے امریکہ کی نیویارک یونیورسٹی سے عالمی تعلقات اور ابلاغیات کی اسناد حاصل کر رکھی تھیں۔ انہوں نے امریکہ کے زیرانتظام صحت پروگرام میں ملازمت کی اور اسی پلیٹ فارم سے کالاش لوگوں کو مفت ادویات تقسیم کرتی رہیں۔ 1995ء میں انہوں نے فوٹوگرافی پر بھی کتاب لکھی۔ وہ ’’ہندوکش کنزرویشن ایسوسی ایشن‘‘ کی بانی تھیں‘ جنہوں نے تحفظ قدرتی ماحول اور گندھارا تہذیب پر بھی کام کیا۔
کالاشی اور چترالی زبانوں کی ماہرہ ’بی بی ڈُو‘ اپنے اِس اعزاز پر زیادہ فخر کرتی تھیں کہ مقامی لوگ عزت و تکریم کی وجہ سے اُن کا اصل نام نہیں لیتے بلکہ اُنہیں والدہ اور بہنوں جیسا احترام دیتے ہیں۔
چترال کی وادیوں میں بیت الخلاء اور پینے کے صاف پانی کی رسائی کے لئے اُن کی کوششیں اپنی جگہ خواتین کے لئے ایسے محفوظ چولہے بھی متعارف کئے جن سے اُنہیں پھیپھڑوں کے امراض لاحق نہ ہوں۔ مضبوط اعصاب والی ’انسانیت دوست ’بی بی ڈُو‘ اگر زندگی کے کسی ایک محاذ پر باوجود کوشش بھی ناکام رہیں تو وہ ’پاکستانی شہریت‘ کا حصول تھا‘ جس کے لئے زیرسماعت ’’مقدمہ‘‘ وہ مرتے دم تک نہ جیت پائیں! ’بی بی ڈُو‘ کی صورت ایک جیتے جاگتے طلسماتی کردار نے اپنے فکروعمل سے ثابت کیا کہ ’’اگر انسان چاہے تو دنیا کو ’جنت نظیر‘ بنا سکتا ہے۔‘‘ اُن کی وفات سے پیدا ہونے والا خلاء شاید ہی کبھی پُر ہو سکے کیونکہ اپنی ذات سے آگے دیکھنے کا ظرف ہر کسی کی شخصیت کا خاصہ نہیں ہوتا۔ ’بی بی ڈُو‘ کو جاننے والوں بالخصوص چترال کی وادیوں میں رہنے والوں کی اکثریت ’بی بی ڈُو‘ کی وفات پر یقیناًغمزدہ اور آنکھوں میں سوالات لئے ہے کہ اَب بلاامتیاز انسانیت کے دکھوں کا مداوا کون کرے گا؟ اُور اب ’’بے نواؤں‘ کی آواز‘‘ کون بنے گا؟
No comments:
Post a Comment