ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کرچیاں!
شاعر مجید اِمجد نے طویل نظم ’بس اسٹینڈ پر‘ کھڑے جس تصور‘ اُمید اور شب و روز کی مصروفیات کو بیان کیا‘ اُس کا ہر ایک لفظ ’خیبرپختونخوا کے موجودہ سیاسی منظرنامے پر صادق آتا ہے: ’’ضرور اِک روز بدلے گا نظامِ قسمتِ آدم۔۔۔بسے گی اِک نئی دنیا‘ سجے گا اِک نیا عالم۔۔۔شبستاں میں نئی شمعیں‘ گلستاں میں نیا موسم!۔۔۔ ’وہ رُت‘ اَے ہم نفس جانے کب آئے گی؟۔۔۔ وہ ’فصلِ دیر رس‘ جانے کب آئے گی؟ ۔۔۔ یہ ’’نو نمبر‘‘ کی بس جانے کب آئے گی؟‘‘ کسی بس اسٹینڈ پر منتظر لوگوں کے ذہنوں میں ’پاش پاش سوالات‘ کی کرچیاں اُن کی روح کو ہمیشہ لہولہان رکھتی ہیں!
جاگتی آنکھوں سے زیادہ بڑا عذاب کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا‘ جس سے اَخذ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوا سے اگر ’حسب توقع انصاف‘ نہیں کر پائی تو اِس کا ازالہ کسی بھی دوسری صورت ممکن نہیں مگر صوبائی سطح پر تنظیم سازی کے ذریعے کارکنوں کے تحفظات اُور خدشات دور کئے جائیں۔ دیگر سیاسی جماعتوں سے ’انتخابات میں سرمایہ کاری‘ کرنے والوں کو شمولیت کی دعوت دینے سے قبل کیا پارٹی کے دیرینہ کارکنوں سے رائے لی گئی؟ اگر پارٹی کی ذیلی تنظیمیں بشمول ویمن ونگز ہی فعال و منظم نہیں تو اس قسم کی مشاورت کس سطح پر اور کس سے کی گئی؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آسان سیاسی فیصلے کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں ’تحریک انصاف‘ کو ووٹ ملنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے سبھی اضلاع میں عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت ’انتخابات بے زار‘ ہو چکی تھی جس کے لئے چہرے اُور انتخابی اتحاد بدل بدل کر وعدے ایفاء نہ کرنے والی ’روائتی سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ (نواز)‘ پاکستان پیپلزپارٹی‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن)‘ کے معنی صرف ایک تھے کہ اقتدار‘ استحصال اور بدعنوانی کرو‘ (نیب مقدمات کی بطور حوالہ ایک طویل فہرست موجود ہے!) جس کی وجہ سے عوام نے ’’متبادل‘‘ کے طور پر تحریک انصاف کو ووٹ دیئے اور اگر ماضی کے وہی انتخابی شکست خوردہ کردار تحریک انصاف میں شمولیت اِس شرط کے ساتھ شمولیت اختیار کرتے ہیں کہ وہ پارٹی فنڈ میں عطیات کے عوض آئندہ عام انتخابات کے لئے تحریک انصاف کی جانب سے نامزدگی (پارٹی ٹکٹ) پائیں گے تو اس ’(لین دین) سودے بازی‘ کا منفی اثر برآمد ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ اِس سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے ہر قسم کی بدعنوانی کے خلاف آئینی‘ سماجی اور سیاسی سطح پر جدوجہد کرکے ایک نئے پاکستان کی تشکیل کی جا رہی ہے تو کیا ’نیا پاکستان‘ اُن پرانے چہروں سے تشکیل پا سکتا ہے جن کی ساکھ مشکوک ہو؟
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کے سیاسی تجربہ کا فائدہ ’صوبائی حکومت‘ کو کامیابی سے برقرار رکھنے میں تو دکھائی دیتا ہے لیکن خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف منتشر دکھائی دیتی ہے۔ تنظیم سازی کا عمل غیرضروری طور پر معطل رکھنے سے کارکنوں میں تشویش پائی جاتی ہے جنہیں اپنی سیاسی وابستگی اور جانی و مالی قربانیوں کے صلہ ملنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ تحریک انصاف (کے پیغام) میں یہ صلاحیت (طاقت) تھی کہ عہدوں‘ اختیارات اور مراعات پر مبنی شاہانہ رکھ رکھاؤ کی بجائے سادگی پر مبنی ایک ایسے طرزحکمرانی کی بنیاد رکھتی‘ جو صرف خیبرپختونخوا ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لئے عملی مثال بن جاتی لیکن نہ تو سرکاری دفاتر کے اُوقات کار بدلے اور نہ سرکاری ملازمین کے مزاج میں تبدیلی آئی ہے‘ جن کی نظر میں ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کی حیثیت و ضروریات کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں!
کیا آج کے خیبرپختونخوا میں بنیادی سہولیات (صحت و تعلیم‘ پینے کے صاف پانی کی دستیابی‘ نکاسی آب‘ صفائی‘ کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا نظام) ملک کے دیگر حصوں سے مختلف و بہتر ہے؟
کیا صوبائی اقتدار سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے خیبرپختونخوا میں سیاسی شعور و شہری و دیہی علاقوں میں گردوپیش بہتر بنانے کی سوچ (سوک سینس) ملک کے دیگر حصوں سے زیادہ اور بدرجۂ اَتم پایا جاتا ہے؟
خیبرپختونخوا کے نوجوانوں کو کھیل کود‘ اپنی صلاحیتیں اُجاگر کرنے اور تعلیم و تحقیق کے شعبے میں آگے جانے کے مواقع ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے زیادہ میسر ہیں؟ صنفی مساوات اُور جنسی بنیادوں پر امتیازات کے حوالے سے خیبرپختونخوا ملک کے دیگر حصوں سے زیادہ مثالی ہے؟ یہاں صارفین کا استحصال نہیں ہو رہا؟
خیبرپختونخوا میں شاہراؤں کی حالت‘ بالائی و تاریخی و مذہبی سیاحتی مقامات پر سہولیات کے مقدار اور معیار تبدیل نظر آتا ہے؟ سوشل میڈیا اُور ذرائع ابلاغ کے اَن گنت وسائل کی طاقت سے ’انقلاب کی لہریں‘ اگر چائے کی پیالی سے اُچھل اُچھل کر برپا طوفان کی نشاندہی کر رہی ہوں تو اِس سے ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کی زندگی میں عملاً بہتری نہیں آئی ہے کیونکہ نہ تو زراعت کی خاطرخواہ ترقی کی مثالیں موجود ہیں اور نہ ہی اِس اہم شعبے سے جڑے روزگار کے لاتعداد امکانات اور وسائل کی ترقی کا ہدف حاصل ہوسکا ہے۔
اَمور حکومت پہلے بھی چل رہے تھے اُور آج بھی رواں دواں ہیں تو کیا یہی وہ تبدیلی ہے‘ جس کی خواہش میں خیبرپختونخوا نے ’متبادل قیادت‘ کا انتخاب کیا اور اب سوچ رہے ہیں کہ کہیں یہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تو نہیں تھا!
گر جاؤ گے تم اپنے مسیحا کی نظر سے۔۔۔
مر کر بھی علاج دل بیمار نہ مانگو! (اَحمد فرازؔ )۔
![]() |
Politics of electibles shouldn't be priority of PTI |
No comments:
Post a Comment