Sunday, March 26, 2017

Mar2017: Clean Abbottabad & Priorities!

ژرف نگاہ .... شبیر حسین اِمام
ترقئ معکوس!
شہری ترقی کا معیار اُور فیصلہ سازوں کی ترجیحات دیکھ کر بخوبی اَندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ہم تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں تو اِس کے محرکات کیا ہیں۔ شاہراہ قراقرم کے کنارے اَیبٹ آباد شہر اُور چھاو ¿نی پر مشتمل یونین کونسلوں کا آغاز اگر ’سلہڈ‘ سے تصور کیا جائے تو شہر کی آخری یونین کونسل ’میرپور‘ ہو گی اُور دیہی و شہری علاقوں پر مشتمل ضلع اَیبٹ آباد کی پچاس سے زائد یونین کونسلوں میں ترقی کی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ عام آدمی اور خواص کے لئے سہولیات کا معیار الگ الگ ہے۔

یونین کونسل میرپور کی کہانی ملاحظہ کیجئے جہاں ’سول آفیسرز کالونی اور عثمان آباد‘ جیسے گنجان آباد علاقوں کو ملانے والی مرکزی شاہراہ پر بنایا جانے والا نکاسئ آب کے ایک نالے کی سلاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور یہی منظر یونین کونسل کاکول سے جڑی کینٹ بورڈ کی ’وارڈ نمبر 5‘ کا بھی ہے جہاں ’پی ایم اے‘ روڈ کا ایک حصہ توسیعی منصوبے میں آنے کے بعد متبادل سڑک تعمیر کی گئی لیکن اِس تعمیر کا معیار اِس قدر ناقص و نامکمل ہے‘ کہ نالے پر بنائی جانے والی پل سے آہنی سلاخیں ابھری ہوئی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ہلکی و بھاری گاڑیوں کی آمدورفت کے لئے تمام دن اُور رات استعمال ہونے والا سڑک کا یہ ٹکڑا ’موت کا پھندا‘ ہے۔ ایسے کئی موت کے پھندے ’فوارہ چوک‘ سے ’اَے پی اَیس سکول‘ تک سڑک کے دونوں کناروں پر ’آپٹیکل فائبر‘ تار بچھانے کی صورت پھیلے ہوئے ہیں لیکن عام آدمی (ہم عوام) کی جان و مال ہو‘ صحت و تعلیم یا پینے کے صاف پانی اُور دیگر بنیادی سہولیات تک رسائی‘ سمیت جملہ حقوق اُس کی مالی و سیاسی حیثیت سے مشروط ہیں!

1849ءسے 1853ءتک تعینات رہنے والے پہلے ’ڈپٹی کمشنر‘ میجر جیمس اَیبٹ کے نام سے منسوب ’اَیبٹ آباد‘ کا شمار خیبرپختونخوا کے اِنتہائی تیزی سے پھیلنے والے شہری علاقوں میں ہوتا ہے۔ خوشگوار آب و ہوا کے لئے معروف اَیبٹ آباد میں اگر تعمیرات اُور ترقی کے مقررہ پیمانوں (قواعد و ضوابط) پر خاطرخواہ عملدرآمد ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ اِس قدر بے ہنگم و اَبتر صورتحال دَرپیش ہوتی۔ سردست صورتحال یہ ہے کہ آبادی اُور رقبے کے لحاظ ’فوجی چھاونی‘ (کنٹونمنٹ) محدود ہوتی جا رہی ہے کیونکہ ”میونسپلٹی (ٹاو ¿ن میونسپل اِتھارٹی)“ کے زیرکنٹرول علاقوں میں ’نئی رہائشی کالونیاں‘ بن رہی ہیں تو کیا یہ مسئلہ بھی حکام کی توجہات کا مرکز ہے؟ ’آٹھ مارچ‘ کی صبح ’کمشنر ہزارہ‘ کی زیرصدارت کنٹونمنٹ بورڈ‘ بلدیاتی و دیگر منتخب نمائندوں کے اِجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ”21 اُور 22 مارچ“ کو 2 روزہ ’صفائی کی مہم‘ چلائی جائے گی جس میں ایبٹ آباد کے ہر حصے کو رضاکاروں بالخصوص طلباءو طالبات کی مدد سے صاف کیا جائے گا اور اِسی کوشش کے ذریعے صفائی سے متعلق ’عوام الناس‘ میں شعور اجاگر کیا جائے گا لیکن کمشنر ہزارہ جیسی بااختیار شخصیت اور کمانڈنٹ و چیف ایگزیکٹو آفیسر کنٹونمنٹ بورڈ کی موجودگی میں ہوئے ایک اجتماعی فیصلے کو بعدازاں عمل درآمد کے قابل نہیں سمجھا گیا تو اِس سے فیصلہ سازوں کی ترجیحات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں جنہیں اپنا گھر اور اپنے گھر سے جڑی چند گلیوں کی صفائی دیکھ کر اطمینان ہو جاتا ہے کہ باقی ماندہ شہر میں بھی صفائی ستھرائی کی صورتحال ایسی ہی ہوگی!

ایبٹ آباد سے منتخب بلدیاتی نمائندوں کی کارکردگی ملاحظہ کیجئے جنہوں نے پانچ لاکھ روپے سے زائد رقم ایک ایسے ”مطالعاتی دورے“ پر خرچ کر ڈالی ہے‘ جس کا حاصل سوائے تفریح اور تھکاوٹ کچھ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تحصیل آیبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے بلدیاتی نمائندے 13 مارچ سے 22 مارچ تک لاہور‘ ملتان‘ سکھر‘ سیہون شریف‘ کراچی‘ زیارت‘ کوئٹہ اُور ڈیرہ اسماعیل خان کا دورہ کرکے بخیروعافیت واپس لوٹ آئے ہیں۔ مقام شُکر یہ ہے کہ چوبیس رکنی وفد کی قیادت کرنے والے تحصیل ناظم اِسحاق سلیمانی نے ’پانچ رکنی‘ اِنتظامی کمیٹی کی سربراہی سیاسی مخالف جماعت ’نواز لیگ‘ کے ایک نمائندہ کو سونپی‘ جس سے معلوم ہوا کہ اگر معاملہ تفریح طبع کا ہو تو سیاسی مخالفت اُور اختلافات خاطرمیں نہیں لائے جاتے۔ خدا کرے کہ قومی وسائل سے مل جل کر مستفید ہونے کی طرح عام آدمی (ہم عوام) کے مسائل کے حل کے لئے بھی اسی قسم کے بابرکت اتحاد و اتفاق کی مثالیں عام ہوں!

ایبٹ آباد کی چار یونین کونسلوں کے علاوہ شہر میں کہیں صفائی کا نظام موجود نہیں۔ کوڑے کے ڈھیروں پر ڈھیر بن رہے ہیں۔ ایک ایسا شہر جس میں یومیہ ڈھائی لاکھ کلوگرام گندگی اکٹھا ہو لیکن یومیہ ایک لاکھ کلوگرام سے کم گندگی اٹھائی جا رہی ہو تو تصور محال نہیں کہ آنے والے موسم گرما میں ایبٹ آباد میں کتنے مچھروں اور مکھیوں کی آبادی میں اضافہ ہوگا!

حال ہی میں ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمپنی (ڈبلیو ایس ایس سی)‘ کو ایبٹ آباد تک وسعت دی گئی ہے تو یہ تجربہ بھی مسئلے کا پائیدار حل ثابت نہ ہوسکا بلکہ اپنی جگہ پر ایک ایسا مسئلہ ہے جو حل (توجہ) چاہتا ہے کیونکہ ’الاماشاءاللہ‘ پہلے ہی کام نہ کرنے والے سرکاری اِداروں کی کیا کم کمی تھی جو ایک اُور ادارے کا اضافہ کر دیا گیا بہرکیف یہ امر بھی حیرت کا باعث ہے کہ مذکورہ کمپنی نے دفتر کے لئے ’پوش ایریا‘ کا انتخاب کیا اور اب تک ملنے والے دو کروڑ روپے جیسی رقم بھی دفتری ضروریات اُور دفتر کے حصول پر ہی خرچ کی گئی لیکن اِس کمپنی کا بنیادی کام جو کہ گندگی صرف اُٹھانا نہیں بلکہ اُسے تلف کرنا‘ نکاسئ آب اور ہر خاص و عام کے لئے پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے جیسا بنیادی کام نہیں ہوسکا!

عام آدمی (ہم عوام) کی توقعات پوری نہیں ہو رہیں تو اِس کی وجہ خاموشی اُور تجاہل عارفانہ ہے۔ آفیسرز کالونی میں رہنے والے اگر بیچ سڑک سر اُٹھائے آہنی سلاخوں سے اُلجھ اُلجھ کر بھی زندہ ہیں اُور ’پی اَیم اَے کاکول روڈ‘ سے اِستفادہ کرنے والے ایک مستقل عذاب و ذلت برداشت کرنے پر بھی خاموش ہیں تو برداشت کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے اُور برداشت کی بھی کوئی نہ کوئی حد تو ضرور ہونی چاہئے۔

No comments:

Post a Comment