Monday, March 27, 2017

Mar2017: Political use of KP Govt resources!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عادل‘ عدل اُور عدالت!
خاموشی کا توڑ چہچہانا (twittering) بھی تو ہو سکتا ہے! اظہار رائے کی آزادی کا معتبر‘ مستند اور مستعد وسیلہ ’ٹوئٹر (twitter)‘ بن چکا ہے‘ جس سے زیادہ مؤثر‘ فوری’’اِنصاف تک رسائی‘‘ اُور ’احتساب‘ کا کوئی دوسرا ایسا ذریعہ نہیں‘ جو یکساں مقبول اور عام آدمی (ہم عوام) کی دسترس میں ہونے جیسی خصوصیت کا حامل بھی ہو! پچیس مارچ کے روز راقم الحروف نے اپنے ’’ٹوئٹر ہینڈلر‘‘ @peshavar سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کے مشیر اور تحریک انصاف کی جانب سے ہزارہ کے لئے مقرر ’ڈویژنل صدر‘ زر گل خان کی 4 تصاویر کے ساتھ یہ (آئینی و اخلاقی) سوالات ’عوام کی عدالت‘ میں پیش کئے کہ 1: کیا خیبرپختونخوا حکومت کا ’ہیلی کاپٹر‘ کوئی بھی شخص اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں رابطۂ عوام کی غرض سے استعمال کر سکتا ہے؟ کیا وزیراعلیٰ کے کسی مشیر یا خیبرپختونخوا اسمبلی کے کسی رکن کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ صوبائی حکومت کی ملکیت 2 ہیلی کاپٹروں میں سے کسی ایک کا جب جی چاہے استعمال کر سکے؟ آخر قدرتی آفت کی صورت ایسی کیا مجبوری یا دقت درپیش تھی کہ جس کی وجہ سے وقت کی قلت ہو اور چند گھنٹے کے زمینی سفر کی بجائے منٹوں میں طے ہونے والے فضائی سفر اختیار کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ ایک نئے خیبرپختونخوا کی تشکیل و تعبیر کا وعدے کرتے ہوئے جس طرح وسائل (پائی پائی) کی بچت اور تبدیلی کا نعرہ لگایا گیا‘ اُس کی عملاً تکمیل (اُور اظہار) کس کی ذمہ داری ہے؟ ’ٹوئٹر‘ صارفین کی جانب سے بھی چند سوالات اُور تبصروں کی تعداد میں ہر منٹ اضافہ ہوتا چلا گیا‘ جس کی وضاحت وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے غیراعلانیہ (مگر آفیشل) ٹوئٹر اکاونٹ @PervezKhattakCM کے ذریعے سامنے آئی اور یکے بعد دیگرے 2 الگ الگ پیغامات کہا گیا کہ ’’میرے مشیر برائے بین الصوبائی تعلقات‘ رکن صوبائی اسمبلی عبدالحق سمیت زرگل (خان) میری نمائندگی کرتے ہوئے ایک جرگے (تصیفہ طلب اجلاس) میں شرکت کرنے گئے جو گلگت بلتستان (اور کوہستان) میں ایک ’ڈیم کی (ملکیت و) رائلٹی‘ کے حوالے سے منعقد ہوا تھا۔‘‘ دوسرے ’ٹوئٹر‘ پیغام میں انہوں نے لکھا ’’علاؤہ ازیں اِس دورے میں (خیبرپختونخوا کے ضلع) کوہستان میں تین نئے اضلاع کے دفاتر کا افتتاح بھی کرنا تھا جس کے لئے بذریعہ ہیلی کاپٹر سفر کیا گیا۔‘‘ خدا کا شکر ہے کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کی تردید سامنے نہیں آئی تاہم اُنہوں نے اپنے دور حکومت میں پہلی مرتبہ جس طرح مشیروں اُور اراکین صوبائی اسمبلی کے لئے سرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال کی اجازت مرحمت فرما کر ایک روایت قائم کی ہے تو آگے نہیں بڑھے گی اور کم سے کم اُمید کی جاسکتی ہے کہ ’بیدار سوشل میڈیا‘ کی وجہ سے وہ آئندہ اپنے (شاہانہ) اختیارات (ایگزیکٹو آڈرز) کے صادر فرمانے میں احتیاط سے کام لیتے ہوئے ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کریں گے جو نہ صرف خیبرپختونخوا حکومت بلکہ پوری تحریک انصاف کے لئے شرمندگی کا باعث بنے!

سوال یہ ہے کہ ہزارہ ڈویژن کے صدر اُور وزیراعلیٰ کے مشیر برائے سیاسی امور زرگل خان نے خیبرپختونخوا کے اُس انتخابی حلقے ’PK-62‘ کا دورہ کرنے کے لئے ہیلی کاپٹر کا استعمال ہی کیوں کیا‘ جہاں ہونے والے ایک ضمنی انتخابی مقابلے کے لئے وہ خود بطور اُمیدوار حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب خود اِسی سوال کے اندر پوشیدہ ہے‘ ذرا غور کیجئے! صرف زرگل خان اُور تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ’PK-61‘ سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی عبدالحق ہی نہیں بلکہ ’انصاف یوتھ ونگ‘ کے عہدیداروں نے بھی اِس ’مفت کی پرواز‘ کا لطف اُٹھایا تو کیا سیاسی مقصد و سہولت کے لئے استعمال کئے گئے ہیلی کاپٹر کا کرایہ اُسی طرح قومی خزانے میں جمع کرایا جائے گا‘ 

جس طرح دوہزار چودہ میں وزیراعلی اپنے ایک دوست کے صاحبزادے کی شادی میں شرکت کے لئے گئے تو سوشل میڈیا میں اُن کے ذاتی دورے کے لئے سرکاری ہیلی کاپٹر کا استعمال کرنے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا‘ جس پر چیئرمین عمران خان نے مداخلت کرتے ہوئے ہیلی کاپٹر کا کرایہ سرکاری خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔ اُمید تھی کہ اِس کے بعد خیبرپختونخوا حکومت کا کوئی بھی اعلیٰ و ادنیٰ رکن سرکاری ہیلی کاپٹر یا دیگر قومی وسائل کا ذاتی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کرے گا‘ لیکن ایسا بھی نہیں ہوسکا اور فضائی سفر بذریعہ ہیلی کاپٹر جو صرف اور صرف وزیراعلیٰ کی ذات تک محدود تھا تو اب اُسے مشیر اور رکن صوبائی اسمبلی تک وسعت دے دی گئی ہے!

صوبائی حکومت کی جانب سے دی جانے والی وضاحت خیبرپختونخوا کو درپیش مالی بحران سے نہ تو مطابقت رکھتا ہے اور نہ ہی کوئی بھی ضرورت اِس حاجت کو جائز قرار دے سکتی ہے جیسا کہ یہ کہنا کہ حال ہی میں کوہستان کو ’3 نئے اضلاع‘ میں تقسیم کیا گیا جس کی وجہ سے وہاں حکومتی انتظامی دفاتر کے قیام کا عمل جاری ہے اور اِس عمل میں رکاوٹیں‘ مشکلات اور مقامی اختلافات پیدا ہو رہے ہیں‘ جنہیں خوش اسلوبی سے طے اور نئے دفاتر کی ضرورت پوری کرنے کے لئے رکن صوبائی اسمبلی عبدالحق اور مشیر زرگل خان کو بھیجا گیا۔‘‘ اِس جملے میں ’’وسیع تر عوامی مفاد‘‘ کا اضافہ بھی کیا گیا ہے‘ جس کی سمجھ آج تک نہیں آسکی کہ آخر اِس وسیع تر قومی یا عوامی مفاد کا حاصل وصول صرف اُور صرف فیصلہ سازوں کے حق ہی میں کیوں رہتا ہے!؟ 

تسلی و تشفی اُور وضاحت اپنی جگہ لیکن برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ ’بارہ مارچ‘ کے روز ضلع کوہستان سے منتخب جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کے رکن صوبائی اسمبلی ’عصمت اللہ‘ کے مستعفی ہونے کے بعد‘ وزیراعلیٰ کے مشیر زرگل خان کے قریبی حلقوں نے کہا تھا کہ وہ اِس نشست پر ضمنی عام انتخاب میں بطور اُمیدوار حصہ لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔یہ بیانات ذرائع ابلاغ اور بالخصوص سوشل میڈیا پر زیرگردش (وائرل) رہے جن کی تردید نہ تو ’زرگل خان‘ نے کی اور نہ ہی صوبائی حکومت یا تحریک انصاف کی جانب سے یہ وضاحت جاری کرنے کو ضروری سمجھا گیا کہ ’’آیا وزیراعلیٰ کے مشیر کو ضمنی انتخاب میں پارٹی نامزدگی دی جائے گی یا نہیں۔ سرعام دبی آواز اور نجی محفلوں میں زور دیتے ہوئے تحریک انصاف کے داخلی حلقے بھی اِس بات کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ کس طرح منتخب نمائندوں کی موجودگی میں وزیراعلیٰ ایک غیرمنتخب کردار کو اپنا منظور نظر بنائے ہوئے ہیں‘ جو سرکاری وسائل اور عہدے کے ذریعے ضمنی انتخاب پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ 

چاہے ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ دیکھے یا نہ دیکھے لیکن تاریخ رقم ہو رہی ہے اور اِن سوالات پر راکھ ڈال بھی دی جائے تو سلگتے رہیں گے کہ کیا ایسی صورت میں ’شفاف بنیادوں پر ضمنی انتخاب‘ کا انعقاد ممکن ہو پائے گا جبکہ صوبائی حکومت کے وسائل سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک اُمیدوار کو بھرپور اِستفادے کی اجازت دے دی گئی ہو‘ جو محض و برائے ملاحظہ ’حسن اتفاق‘ قرار نہیں دیا جا سکتا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment