ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سوچ بدلے گی!؟
صرف دیکھنا ہی کافی نہیں بلکہ نظر کے ساتھ جڑے ’نکتۂ نظر‘ کی یکساں نہیں بلکہ اِہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ ذرائع ابلاغ نہ تو خبروں‘ حالات حاضرہ پر تبصروں اور نہ ہی تفریح طبع کے پروگراموں میں ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے جذبات و احساسات اور گردوپیش کے ماحول کا خیال رکھا جاتا ہے۔ توجہ مرکوز رہے کہ ’خیبرپختونخوا‘ میں بیٹھ کر سندھ کی طرف دیکھنا اُور سندھ میں بیٹھ کر خیبرپختونخوا کے سماجی ماحول‘ تہذیب اور ثقافت کا خیال رکھنا دو الگ الگ باتیں اور ایسے الگ الگ تقاضے ہیں‘ جنہیں نبھایا نہیں جا رہا.
ہمارے ہاں لسانی‘ علاقائی اور معاشرتی تقسیم سے کہیں زیادہ معاشی و معاشرتی سطح پر مساوی مواقع اور حقوق کے حوالے سے جدوجہد عورت کے حصے میں آتی ہے۔ اپنی پیدائش سے لے کر اپنی اولاد کی پیدائش تک عورت کو ’’ذات کی تکمیل‘‘ کے نام پر ایک مسلسل سفر کرنا ہوتا ہے۔ عزت دینے کی بات آئے تو ’’مائیں‘ بہنیں‘ بیٹیاں‘‘ ٹائپ نعروں میں جوڑ کر عورت کی پہچان اور مقام کو صرف رشتوں کے پیمانوں میں قید کر دیا گیا ہے۔ کسی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہو یا کوئی عوامی جگہ ’بھائی‘ کا دُم چھلا لگائے بناء مرد سے بات کرنا معیوب ہے جناب۔ سرگوشیاں ہوں گی‘ آنکھوں سے اشارے ہوں گے اور کردار پر کیچڑ اچھال کر اپنی کم مائیگی کے احساس کو تسکین پہنچائی جائے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ گھر پر رہنے والی اور کنبے کا بوجھ اُٹھا کر گھر سے باہر کام کرنے والی یا اپنا کریئر بناتی خواتین میں سے کوئی ایک مسائل کا نسبتاً کم شکار ہوتی ہے لیکن گزشتہ چند روز سے ہمارے ہاں انٹرٹینمنٹ کے نام پر چلتے کچھ ٹیلی ویژن ڈراموں کا جائزہ لینے کی کوشش نے اس حوالے سے مایوس کیا ہے۔ لکھاری کسی معاشرے کا نباض ہوتا ہے جو مختلف بکھری کہانیوں کو جوڑ کر ایک جیتی جاگتی تصویر پیش کرتا ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ موضوعات کے چناؤ میں حقیقت سے دور ڈرامہ اسکرپٹس کو پروڈکشن ہاؤسز کیسے اسکرین پر چلاتے چلے جارہے ہیں۔ دو بہنوں میں سے ایک کو بطور ڈائن اور دوسری کا کردار روتی دھوتی قربانی کی دیوی‘ اکلوتی ہو یا کثیرالتعداد بیٹیاں کہانی صرف شادی بیاہ کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ بیویوں کے کردار میں ہمارے لکھاری ابھی تک اُنیس سو سینتیس کے ماڈل میں پھنسے ہوئے ہیں اور سب سے بڑی فکری بددیانتی ملازمت پیشہ خواتین کے کرداروں سے برتی جا رہی ہے۔ آج بھی تعلیم سے لے کر کریئر بنانے تک گھر سے باہر جاتی عورت کے کردار کو اس کے لباس اور بول چال سے ناپا جاتا ہے‘ اگرچہ اس کا چاردیواری سے باہر ہونا ہی بدکرداری کی واضح علامت بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ ہر دوسرا ڈرامہ ان خواتین کی مشکلات میں اضافہ کرتے صرف یہ دکھا رہا ہے کہ آفس میں کام کرتی ایک نوجوان خاتون اپنے باس سے فلرٹ کر رہی ہے جس کا انجام کار شادی پر ہی ہے۔ کسی جوان بیوہ کا کردار ہے تو مجال ہے کہیں یہ دکھایا جائے کہ سرکاری ملازم کی بیوہ پینشن کے حصول سے لے کر دیگر دفتری معاملات میں کیسے نفسیاتی طور پر کچلی جاتی ہے یا اگر کوئی ذاتی کام کاج کرنے والا شخص دنیا سے چلا گیا تو اس کی بیوہ بچوں کے مسائل کس نوعیت کے ہوسکتے ہیں اور ان سے لڑتی باہمت عورت کیا کچھ کر سکتی ہے۔
تیزاب گردی‘ غیرت کے نام پر قتل‘ وٹہ سٹہ‘ ونی اُور دیگر ایسے حساس موضوعات کو ہینڈل کرنے کا ڈھنگ نہیں سیکھ پا رہے۔ عورت کے استحصال کا آغاز دہلیز کے باہر نکلنے سے قبل گھر سے ہی ہوا کرتا ہے اور غور کیا جائے تو پہلا پتھر گھر کی بڑی بوڑھیوں کی ہاتھ میں ہوتا ہے۔ خوراک‘ صحت اُور تعلیمی درسگاہ کے اِنتخاب تک میں صنفی تقسیم اور بددیانتی برتی جاتی ہے۔ بچی بڑی ہو رہی ہے تو دودھ‘ انڈے‘ خشک میوہ جات اور گوشت وغیرہ سے بچانا چاہئے لیکن پوتے کو یہ سب زیادہ مقدار میں ٹھونسنے کو دیا جائے۔ رشتہ دیکھنا ہے تو لڑکی دبلی پتلی‘ گوری چٹی‘ سر و قد‘ تیکھے نقوش‘ سگھڑاپے کی مورت‘ کم عمر ہو لیکن ڈگریاں ڈٹ کر حاصل کر رکھی ہوں۔ بہو سے زیادہ بیٹے کی صحت و خوراک پر توجہ مرکوز کی جائے‘ پھر چاہے وہ بہو گھر سنبھالنے اور بچے پیدا کرنے کے ساتھ گھر سے باہر ملازمت کر کے شوہر کا ہاتھ ہی کیوں نہ بٹاتی ہو۔ چکی کے دو پاٹ اور اس میں پِستی عورت جبکہ اکثر پیسنے والی دوسری عورت!
زندگی سے خوبصورت کچھ نہیں اُور بیٹی ہو یا بیٹا اسے اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے کا گر سکھانا چاہئے۔ بچوں کو اعتماد دیا جائے تو صنف مخالف کے وجود کو کچل کر اپنی ذات منوانے کی بدصورت روایات ختم ہوسکتی ہے۔
تعلیم‘ شعور اُور صحت مند سوچ ہر بچے کاحق ہے۔ پاکستان میں قانون سازی کے ساتھ اِجتماعی شعور میں تبدیلی کی بھی ضرورت ہے۔
زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنی جگہ بناتی ہوئی عورت ہو یا دیگر خواتین کے تحفظ و حقوق کے بارے میں آواز اٹھاتی‘ قانون سازی میں حصّہ ڈالتی خواتین‘ سب جانتی ہیں کہ ہر دو جگہ بدصورت روئیوں کا اظہار کرنے والوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ سوچ بدلے گی تو عورت کو بطور اِنسان تسلیم کرنے کی راہ میں آسانیاں بھی آتی جائیں گے کہ فی الحال تو خود سے زیادہ کامیاب اور زیادہ کماتی عورت ہر رشتے اُور حوالے سے اکثریت کو عدم تحفظ کا شکار کردیتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے رویئے بھی تبدیل ہونے چاہیءں‘ جس میں عورت کے حوالے سے پیش کئے جانے والے نظریات اُور تصورات سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں!
![]() |
Thinking about women should be change, now or never |
No comments:
Post a Comment