Wednesday, March 29, 2017

Mar2017: Political Tug of War!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سرخرو سیاست!
نورا کشتی ملاحظہ کیجئے کہ وزیراعظم تین مرتبہ اندرون سندھ کا دورہ کر چکے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے پنجاب میں مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور دونوں جماعتیں ہی آئندہ عام انتخابات میں ایک دوسرے کو کڑا مشکل سے دوچار کرنے کے دعوے کر رہی ہے جبکہ عوام کو درپیش بحرانوں کے حل کی نوید سناتے اور ذمہ داروں کا تعین بھی کرتے تو اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے وسائل کی لوٹ مار کرنے میں جن سیاسی جماعتوں کا بنیادی کردار رہا ہے‘ اُن کا تعلق یا تو حکومت سے رہا ہے یا پھر حزب اختلاف سے۔ باری بدل بدل کر حکمرانی کرنے والوں کی نظریں بھی سپرئم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں جہاں فیصلہ مرتب ہو رہا ہے یا سو رہا ہے‘ ایک ہی بات ہے!

پیپلزپارٹی خود کو سرخرو سمجھ رہی ہے۔ سابق وفاقی وزیر حامد کاظمی ’باعزت بری‘ ہوئے‘ تو مبارکبادوں اور مخالفین پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے کیونکہ اُن کے خلاف بنائے جانے والے مقدمات ’سنی سنائی‘ باتوں پر مبنی تھے۔ سابق چیف جسٹس اِفتخار چودھری نے سیاسی جج ہونے کا کردار ادا کیا۔ جس کا دباؤ موجودہ سپرئم کورٹ پر ڈالتے ہوئے ’پیپلزپارٹی‘ للکار رہی ہے اور قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ پانامہ کیس میں وزیراعظم کے خلاف فیصلہ نہیں آئے گا‘ اور اِسی ’ناانصافی‘ کو لیکر وہ آئندہ انتخابات کے لئے ہمہ وقت تیار ہے لیکن اِس مرتبہ سندھ سے نہیں بلکہ پنجاب کو مرکز بنائے گی!

اٹھائیس مارچ کے روز لاہور میں مقیم آصف زرداری نے مبینہ طور پر ’پارٹی کے دیگر قائدین‘ سے مشاورت کے بعد ’سیاسی صف بندی‘ کا فیصلہ کیا ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اُن کے کسی فیصلے سے کسی کو بھی اختلاف کی جرأت نہیں ہو سکتی! لیکن جس سیاسی صف بندی کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے اُسے ’سپرئم کورٹ‘ کے فیصلے سے مشروط کر دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ پیپلزپارٹی دیگر سیاسی جماعتوں سے ایک قدم آگے سوچ رہی ہے اور اُس نے ہر طرح کے حالات کے لئے الگ الگ حکمت عملی مرتب کر رکھی ہے۔

آصف علی زرداری کبھی بھی اِتنے فعال اُور کھلے کھلے نہیں رہے۔ حالیہ دورۂ ملتان میں سابق وزیر حامد سعید کاظمی سے ملاقات کے بعد انہوں نے عدلیہ پر نشترزنی کا یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا لیکن اِس سے زیادہ خطرناک بات یہ تاثر دینا ہے کہ ’’وزیراعظم کے خلاف پانامہ کیس میں کبھی بھی فیصلہ نہیں آئے گا۔‘‘ پیپلزپارٹی کے قائدین جس لب و لہجے اور جس گرمجوشی سے عدالتی نظام پر اپنی بے اعتمادی کا بھی اظہار کر رہے ہیں‘ اُنہیں سمجھنا چاہئے کہ عوام کے پاس صرف یہی ایک اُمید باقی بچی ہے۔ باقی سب اداروں کا تو وہ پہلے ہی ’خانہ خراب‘ کر چکے ہیں۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کی تاریخ میں ’قومی احتساب بیورو (نیب)‘ اور ’وفاقی تحقیقاتی اِدارہ (ایف آئی اے)‘ فعال ہیں؟ بطور سیاستدان آصف علی زرداری سمیت سبھی ہر کسی کو یہ حق حاصل ہے وہ کسی بھی انتخابی حلقے سے بطور اُمیدوار عام انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے لیکن کیا ایسا کرنے کی صورت اُس حلقے کے مقامی کارکنوں کی حق تلفی نہیں ہوگی؟ الیکشن کمیشن کو اِس بارے غور کرنا چاہئے کہ ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب میں بطور اُمیدوار حصہ لینے پر پابندی عائد ہونی چاہئے کیونکہ ’پے در پے‘ ضمنی انتخابات‘ کسی بھی صورت سستے نہیں ہوتے۔

پیپلزپارٹی قبل ازیں بھی پنجاب سے عام انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہے اور اگر اپنے دور میں جنوبی پنجاب پر مشتمل علاقوں کو الگ صوبے کا درجہ ’حسب اعلان‘ دے چکی ہوتی‘ تو اُن کی کامیابی کے واضح امکانات دکھائی دے رہے ہوتے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اندرون سندھ نواز لیگ اور اندرون پنجاب پیپلزپارٹی درحقیقت تحریک انصاف کا راستہ روکنے کے لئے بطور متبادل قیادت خود کو پیش (متعارف) کروا رہی ہے اور تاریخ دیکھے گی کہ دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کسی بھی طرح دوہزار تیرہ سے مختلف نہیں ہوگا۔ قوم کا حافظہ کمزور ہے لیکن اتنا کمزور بھی نہیں۔ عوام نہیں بھولی کہ پیپلزپارٹی حکومت کے بدترین طرزحکمرانی اور بدعنوانی کی کیسی کیسی داستانیں زبان زد عام ہوئیں! اب اگر زرداری صاحب پورے پنجاب کو اپنی مٹھی میں کرنے کی بات کر رہے ہیں تو اس کے لئے انہیں عوام سے ٹوٹا رابطہ بحال کرنا ہوگا۔ 

پورے پنجاب میں پیپلزپارٹی کو فعال کرنا ہوگا جبکہ پارٹی کا وجود چند گھرانوں تک محدود ہو چکا ہے۔ آج بھی بھٹو کے نام میں بڑی توانائی ہے۔ آج بھی روٹی کپڑے اور مکان کا نعرہ وقعت ہے۔ آج بھی بھٹو خاندان کے خون سے لکھی ہوئی قربانیوں کی داستان کا ہر لہو چمک رہا ہے لیکن ملک کے بڑے شہروں میں ذرائع ابلاغ کی بنیاد پر ووٹ کا فیصلہ کرنے والے اور 27فیصد سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو یقین دلانا ہوگا‘ عام آدمی (ہم عوام) کو بتانا ہوگا کہ وہ اجتماعی بہبود کے لئے ایسا کیا مزید کرنا چاہتے ہیں جو پہلے نہ کرسکے۔ 

پیپلزپارٹی قیادت کو خیبرپختونخوا کے حوالے سے بھی اپنی ترجیحات کھول کر بیان کرنی چاہیءں کیونکہ پیپلزپارٹی کارکنوں میں پائی جانے والی اِنتہائی مایوسی کسی بھی صورت نیک شگون نہیں اور آئندہ عام انتخابات پر منفی اثرانداز ہو سکتی ہے۔ بہرحال ملک کا کوئی بھی صوبہ ہو‘ آخری فیصلہ عوام نے ہی کرنا ہے جو سیاسی جماعت کو مطمئن کرے گا‘ وہی سرخرو ہو گی‘ محض زبانی جمع خرچ اور آئندہ عام انتخابات میں قربانیوں کے بطور صلہ‘ ہمدردی کے ووٹ ملنے کی اُمید نہیں رکھنی چاہئے۔
Understanding between ruling PMLN and PPP not beneficial for the people of Pakistan, why not


No comments:

Post a Comment