ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مسلط عذاب!
’خیبرپختونخوا میڈیکل انسٹی ٹیوشن ریفارمز ایکٹ 2015‘ کے تحت پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں صوبائی حکومت نے سرکاری علاج گاہوں کو ایک ایسی ’خودمختاری‘ دی ہے‘ جس سے وابستہ بہتری کی توقعات پوری ہی نہیں ہوئیں بلکہ سرکاری علاج گاہوں کے مسائل پہلے سے زیادہ اُلجھ گئے ہیں۔ اصلاح احوال (بہتری لانے کی غرض سے کئے گئے قانون سازی پر مبنی اقدام) کا بنیادی خیال (مقصد) یہ تھا کہ سرکاری علاج گاہوں سے جڑی عوام کی مشکلات بصورت مسلط عذاب کم ہوں‘ یہ ہسپتال مالی طور پر اپنے فیصلے‘ اپنی ضروریات (حاجات) کے مطابق خود کریں اور مالی وسائل کا ترقیاتی امور پر زیادہ مالی وسائل خرچ ہوں لیکن جو کچھ حاصل ہوا وہ اِس کے برعکس رہا یعنی سرکاری ہسپتالوں کو دیئے جانے والے مالی وسائل یا اُن کی اپنی آمدنی کا بڑا حصہ غیرترقیاتی امور (چنیدہ انتظامی عہدیداروں کی تنخواہوں اُور مراعات) پر خرچ ہونے لگے اور یہیں سے وہ خرابی شروع ہوئی‘ جس کی وجہ سے علاج معالجے کا معیار روز بہ روز گرتا چلا گیا! برسرزمین حقائق یہ ہیں کہ اصلاحات کے عرصہ تین سال بعد بھی سرکاری علاج گاہیں وہیں کی وہیں بھی کھڑی ہوتیں تو کوئی بات نہیں تھی لیکن مالی و انتظامی خودمختاری ملنے کے بعد اُلجھنیں ہر ’گزرتے دن‘ بڑھتی چلی گئیں۔
سرکاری علاج گاہوں کے انتظامی مسائل اور سرکاری ملازمین کے شاہانہ مزاج اپنی جگہ ناقابل تردید حقیقت ہیں۔ ضلع ایبٹ آباد کے ’ایوب ٹیچنگ ہسپتال‘ کی مثال لیں تو معالجین اُور معاونین پر مشتمل عملے نے ’خودمختار (مادرپدر آزاد) انتظامیہ‘ کے خلاف پہلا باضابطہ احتجاج 28 جولائی 2015ء کو کیا تھا‘ جس میں سوائے ایمرجنسی علاج معالجے کی تمام سہولیات معطل کر دی گئیں تھیں اور اُس وقت جن خدشات کا اظہار کیا گیا‘ وہ وقت کے ساتھ ایک ایک کرکے درست ثابت ہوتی چلی گئیں اُور اُن کی اِصلاح باوجود یقین دہانی بھی نہیں کی گئی جس کے وجہ سے یہ نوبت آئی کہ ’28 مارچ کے روز ڈاکٹروں نے انوکھا احتجاج شروع کرتے ہوئے ایوب ٹیچنگ ہسپتال (کمپلیکس) کی عمارت کے اندر مریضوں کا معائنہ کرنے کی بجائے عمارت کے احاطے میں شامیانے لگا کر ’اُو پی ڈی‘ قائم کی‘ اور یوں کھلے آسمان تلے مریضوں کا معائنہ تمام دن جاری رہا جس میں دوہزار سے زائد مریض آئے۔ تصور کیجئے کہ ہسپتال آنے والے مریضوں نے ’کتنا اَچھا‘ محسوس کیا ہوگا‘ جب تمام دن ’’طبی معائنہ اُور اِحتجاج‘‘ ساتھ ساتھ چلتے رہے اور اُنتیس مارچ کے روز دوسرے دن بھی ڈاکٹروں نے ’اُو پی ڈی‘ کے تحت مریضوں کا معائنہ موسم بہار کی کھلی کھلی دھوپ میں کیا!
اَیوب ٹیچنگ ہسپتال کی خودمختاری کے بعد قائم ہونے والے ’بورڈ آف گورنرز (خودمختار انتظامیہ)‘ کے سات اراکین میں جاوید پنی‘ ڈاکٹر عاصم یوسف‘ کرنل ریٹائرڈ صلاح الدین‘ طارق خان‘ بریگیڈئر (ریٹائرڈ) ڈاکٹر خالد حسین‘ میجر جنرل (ریٹائرڈ) پروفیسر ڈاکٹر آصف علی خان‘ سابق ڈائریکٹر جنرل وفاقی وزارت خزنہ ڈاکٹر نجیب عباسی شامل ہیں‘ جن سے باوجود کوشش بھی رابطہ ممکن نہیں ہوسکا تاہم ’آف دِی ریکارڈ‘ ڈاکٹروں کی ہڑتال اُور بدعنوانی کی نشاندہی کو بے بنیاد الزامات قرار دیا لیکن ’پروانشیل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (پی ڈی اے) کے صوبائی صدر ڈاکٹر امین آفریدی کا مؤقف اور دلائل ’نظرانداز‘ کرنا ممکن نہیں! اُن کے تلخی بھرے (تندوتیز) لب و لہجے میں موجود سچائی ’سیاسی یا غیرسیاسی مخالفت یا انتظامی امور میں مداخلت‘ قرار دے کر نظراَنداز نہیں کی جا سکتی کیونکہ سچائی الفاظ کو معطر بھی کر دیتی ہے۔
ڈاکٹر امین آفریدی کا کہنا ہے کہ ایوب ٹیچنک ہسپتال میں جاری احتجاج کے ’تین بنیادی محرکات‘ ہیں۔1: ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے ڈاکٹروں کو فراہم کی گئیں ’رہائشگاہیں (ہاسٹلز)‘ میں صرف بنیادی سہولیات ہی نہیں ناکافی سیکورٹی (حفاظتی امور) کی وجہ سے اب تک ایک ڈاکٹر کی ہلاکت اور کئی ایک افسوسناک واقعات پیش آ چکے ہیں۔ بدعنوانی کے غالب امکان کی وجہ سے سرکاری ہسپتال کے اپنے ہاسٹل کی تعمیر کا منصوبہ التوأ (سردخانے) کی نذر کر دیا گیا ہے اور ایک نجی ہاسٹل کو سال 2008ء سے سالانہ ایک کروڑ تیس لاکھ روپے کرائے کی مد میں ادا کیا جا رہا ہے۔ اگر ہسپتال کی انتظامیہ مخلص و ایماندار ہوتی تو اتنی بڑی رقم کسی نجی مالک مکان کو دینے کی بجائے اِسی پیسے سے وسیع و عریض ہسپتال کے اندر کسی کونے میں ’ہاسٹل تعمیر کر سکتی تھی!‘ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ہاسٹل کی تعمیر کا منصوبہ ’پی سی ون (ابتدائی منصوبہ بندی)‘ کے باوجود بھی کیوں منسوخ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹروں کے احتجاج کی دوسری وجہ ہسپتال میں غیرقانونی بھرتیاں ہوئی ہیں اور تیسری وجہ من پسند ریٹائر افراد کی خدمات تین سے پانچ لاکھ روپے ماہانہ کے عوض حاصل کی گئیں ہیں‘ جس سے مریضوں کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن بھاری تنخواہیں اور مراعات پانے والوں کے ’وارے نیارے‘ ہیں!
تصور کیجئے کہ ایوب ڈیٹنسٹری اور ایوب پیڈز گائنی (خواتین کے لئے مخصوص) 300بیڈز جیسے اہم منصوبوں (شعبوں)کو فعال کرنے کے لئے تو مالی وسائل دستیاب نہیں اُور ہسپتال میں موجود سہولیات میں اضافے کے اِن ’کلیدی منصوبوں‘ میں مالی بدعنوانیاں بعدازتحقیقات ثابت ہونے کے باوجود بھی ذمہ دار (بدعنوان) عناصر کا نہ تو احتساب عملاً ممکن ہوا‘ اُور نہ ہی اُنہیں سرکاری وسائل کی لوٹ مار کرنے کی پاداش میں اِنتظامی عہدوں سے علیحدہ کیا گیا‘ تو جب اِنصاف و اِحتساب (سزا و جزأ) کے تصورات اور فکروعمل کے معیار اِس قدر دھندلے (مقروض محکوم و مجبور) ہوں گے تو ایسی صورتحال کو ’نئے خیبرپختونخوا کی تشکیل‘ یا کسی ایسی ’تبدیلی‘ سے تعبیر (منطبق) نہیں کیا جاسکتا‘ جس کا مقصد عوام کی فلاح (اِجتماعی بہبود) ہو۔ زمینی حقیقت ہے کہ جب سے ’ایم ٹی آئی‘ نافذ ہوا ہے‘ کم وبیش 3 سال کے عرصے کے دوران ’’12 کروڑ روپے‘‘ ہسپتال کے چند انتظامی عہدوں پر فائز ’’بااثر افراد‘‘ کو تنخواہوں‘ دیگر مراعات اور مختلف شہروں میں آمدورفت (قیام و طعام) کی مد میں ادا کئے گئے ہیں۔ کسی ہسپتال پر اوسطاً ’4کروڑ روپے‘ سالانہ کا مالی بوجھ معمولی قرار دے کر نظرانداز کر دیا جائے جبکہ اِس خطیر رقم سے نہ صرف سینکڑوں ہزاروں مریضوں کو مفت اَدویات اور پیچیدہ امراض کے آپریشنز (جراحتی عمل مکمل) کئے جا سکتے ہیں! بلکہ ایک پورا ہسپتال چلایا بھی جا سکتا ہے!
سوال یہ ہے کہ ضلع ایبٹ آباد سے منتخب ہونے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی نمائندے اپنے معنوی وجود کے ہونے کا ثبوت کیوں نہیں دے رہے؟ عوام کے منتخب نمائندوں نے کیوں ’تجاہل عارفانہ‘ اِختیار کر رکھا ہے جبکہ اُن کی ناک تلے ہونے والی بدعنوانیوں‘ بے ضابطگیوں‘ بے قاعدگیوں اُور بدانتظامیوں کی ’حشرسامانیاں) دیکھنے کے باوجود بھی نہیں دیکھ رہے! (خدانخواستہ‘ خاکم بدہن) کہیں ایسا تو نہیں کہ ’بنی گالہ‘ سے مسلط ہونے والے فیصلوں کا سحر (جادو منتر) کی تاثیر کچھ ایسی ہے کہ منتخب نمائندوں کی سوچنے سمجھنے اُور بولنے کی صلاحیتوں سلب ہو چکی ہیں؟
’’میرے چاروں طرف ایک سیلاب خوں کس اذیت میں ہوں۔۔۔
کس قدر خوف ہے میرے اعصاب پر‘ شعر کیسے لکھوں؟ (احمد امتیاز)۔‘‘
![]() |
Doctors of Ayub Teaching Hospital Abbottabad on Protest against corruption |
No comments:
Post a Comment