Friday, April 7, 2017

Apr2017: Rapid Bus Transit Project for Peshawar!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پشاور: اِحساس کی دُنیا!
صوبائی حکومت کی جانب سے پشاور کے لئے تیزرفتار ’’پبلک ٹرانسپورٹ سروس (بس ریپڈ ٹرانزٹ)‘‘ منصوبہ کب شروع اُور مکمل ہوگا‘ اِس بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی لیکن ’اُنتیس کلومیٹر‘ طویل ’باون اِعشاریہ چھتیس اَرب روپے‘ مالیت کے جس منصوبے کا خواب گذشتہ تین برس سے دکھایا جا رہا ہے‘ اُس کے بارے میں ’ضلعی اِسمبلی اِجلاس‘ میں بحث کا خلاصہ یہ رہا کہ ضلعی حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے اراکین نے اظہار اطمینان جبکہ حزب اختلاف کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے ضلع اسمبلی کے اراکین نے اِسے مقامی افراد کی مالی استطاعت سے متصادم قرار دیا ہے۔ رواں ہفتے ضلعی اسمبلی کے اَیوان میں ہونے والی ایک روزہ (چند گھنٹوں کی نشست اور) بحث کی تفصیلات اپنی جگہ ’کم سے کم‘ بلدیاتی نمائندوں کو ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے جڑی ’اہل پشاور کی تکالیف کا احساس تو ہوا ہے اور اگرچہ اِس احساس میں احساس ندامت شامل نہیں لیکن پھر بھی یہ اپنی جگہ اہم ضرور ہے!

پشاور کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کی ضرورت مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں سبھی سیاسی جماعتوں کے منشور کا حصہ تھی اُور اِس ضرورت سے آج بھی انکار نہیں کیا جا رہا لیکن ایک طبقہ تمام تر اختیارات اور وسائل رکھنے کے باوجود اِس مسئلے کا فوری یا مرحلہ وار حل نہیں دے رہا تو دوسرا اِس فیصلے کی سیاسی مخالفت کرتے ہوئے ایسے شکوک و شبہات پیدا کر رہا ہے‘ جس کی انتہاء نہیں جیسا کہ یہ کہنا کہ بس کا کرایہ پچاس روپے فی سواری مقرر کرنا ظلم ہے اور اگر اُنہیں برسرزمین حقائق کا علم ہوتا تو کبھی بھی یہ نکتہ نہ اُٹھاتے کہ پشاور کی ملازمت پیشہ اُور طالب علموں پر مشتمل اکثریت پبلک ٹرانسپورٹ سے اِستفادہ کرتی ہے جنہیں پچاس روپے سے زیادہ کرایہ اُور ہر روز جس ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اُس کا حساب ممکن ہی نہیں! اُنتیس کلومیٹر طویل بس منصوبے کے بارے میں ’پشاور کی ضلعی اسمبلی‘ کو دی جانے والی بریفنگ کا مقصد اِس منصوبے کا تعارف نہیں تھا لیکن صوبائی حکومت کی کوشش تھی کہ اِس منصوبے پر غوروخوض کرتے ہوئے مثبت تجاویز سامنے آئیں لیکن شاید ہمارے ہاں جمہوریت اُور جمہوری رویئے ابھی اتنے توانا نہیں ہوئے کہ اجتماعی بہبود کے تصورات سیاسی مفادات پر حاوی ہو جائیں۔ عوام کے منتخب نمائندے چاہے بلدیاتی ہوں یا قانون ساز ایوانوں کے معززین‘ سبھی ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ’پشاور سے محبت کی بنیاد پر نہ تو تعلقات اِستوار ہیں اُور نہ ہی مخالفت برائے مخالفت کی وجہ پشاور کے وسائل و مسائل ہیں۔‘ پبلک ٹرانسپورٹ کی طرح پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ نکاسئ آب اُور گندگی تلف کرنے جیسی چار بنیادی ضروریات کی فراہمی کس کی ذمہ داری ہے؟ صوبائی حکومت کی جانب سے ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کو جدید خطوط پر اِستوار کرنے کا دعویٰ اُور یہ کہنا کہ ’تھرڈ جنریشن بس سروس‘ چین کے بعد اَگر دُنیا کے کسی دوسرے حصّے میں فعال ہو گی‘ تو وہ پشاور ہوگا‘ تو اگر چین ہی ترقی کے معیار کی کسوٹی ہے‘ تو پھر شہری زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات کا معیار بھی عوامی جمہوریہ چین ہی مساوی ہونا چاہئے۔ ہمارے ہاں تحقیق و ترقی کا معیار اِس حد تک گر چکا ہے کہ ہمارے ماہرین اگر اپنے ہاں کی ضروریات کے مطابق ایک بس سروس بھی نہیں دے سکتے اور سب کچھ اگر درآمد ہی کرنا ہے تو پھر پورے کا پورا ’خیبرپختونخوا‘ ہی چین کو ٹھیکے پر کیوں نہیں دے دیا جاتا؟ 

ہمارے تعمیراتی اُور شہری ترقی کے اِداروں کی کارکردگی اُور فیصلہ سازوں کے اثاثوں میں اضافہ اگر کسی کو سمجھ نہ آ رہا تو ’چیچک زدہ سڑکیں‘ اُور اہل پشاور کو فراہم ہونے والا مضر صحت پانی دیکھ لے۔ آخر کس چیز کی کمی ہے ایک سے بڑھ کر ایک مالی و انتظامی بدعنوانیوں کی مثالیں بکھری پڑی ہیں اُور جنہوں نے پشاور کے وسائل کو لوٹ کھایا‘ جنہوں نے قبرستانوں کی اراضی کو بھی نہ بخشا‘ وہی خاندان اور اُنہی خاندانوں کی ایک نئی نسل کو فیصلہ سازی سونپ دی گئی ہے! بنیادی سوال اُور لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ پشاور کے لئے تیزرفتار بس سروس (پبلک ٹرانسپورٹ) منصوبے کی شفافیت کا معیار کیا ہوگا؟ 

ماضی میں بنائے جانے والے فلائی اُوورز‘ سڑکیں‘ نکاسئ آب کے چھوٹے بڑے منصوبے اُور دیگر تعمیراتی کاموں میں ہوئی مالی بدعنوانیوں کے مقدمات قائم ہوئے۔ اَربوں کی کرپشن کرنے والے لاکھوں روپے ادا کرکے ’باعزت بَری‘ ہوتے رہے تو کیا پشاور میں ترقی کے نام پر بدعنوانی کی تاریخ ایک مرتبہ پھر دہرائی جائے گی؟ منصوبے کے نگران ضلعی ناظم اُور صوبائی حکومت کا تعلق ایک ہی سیاسی جماعت سے ہونے کی وجہ سے مالی معاملات میں شفافیت کے بارے شکوک و شبہات پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے اُور اگر تعریف و توصیف پیش نظر نہیں تو ضلعی اسمبلی میں عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (نواز) کے اراکین کو بھی اُن نگرانوں میں شامل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں‘ جو معترض بھی ہیں لیکن ایک ایسے جرم کے مرتکب بھی کہ جب پشاور کی ترقی کے لئے مختص مالی وسائل بنوں اور مردان کے اَضلاع میں خرچ ہو رہے تھے‘ جب ترقیاتی کاموں میں حصہ داری (کمیشن) باقاعدہ و باضابطہ پارٹی فنڈ (چندے) کے نام پر وصول کیا جاتا تھا۔ 

پشاور کو یاد ہوگا جب سیاسی رہنماؤں کے لئے ’ایزی لوڈ‘ جیسی اصطلاحات عام تھیں تو کیا ماضی کا مقابلہ موجودہ تبدیلی سے ممکن و جائز ہوگا جبکہ سرکاری اِدارے اپنے فیصلوں میں زیادہ خودمختار و آزاد بھی ہیں اور کیا ایسے سیاسی فیصلہ سازوں کے کردار پر انگلی اُٹھائی جا سکتی ہے‘ جنہوں نے اصلاحات کی صورت ایسی مثالیں قائم ہیں جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی‘ اے کاش کہ تبدیلی کا یہ عمل مثالی شفافیت کے ساتھ ناقابل یقین حد تک سست رفتار نہ ہوتا!

No comments:

Post a Comment