ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جیل خانہ جات: اصلاحات
خیبرپختونخوا حکومت نے ’جیل خانہ جات اِصلاحات‘ پر نہ صرف عمل درآمد یقینی بنایا ہے‘ بلکہ جیل خانہ جات میں سہولیات کی فراہمی کا معیار بھی بلند کیا ہے اور کئی ایسے ترقیاتی کامجن کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی اِس بات کا بین ثبوت ہیں کہ تبدیلی قدرے تاخیر سے ہی لیکن اِس کے ثمرات بہرحال ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
سنٹرل جیل پشاور میں نویں اور دسویں جماعتوں کے لئے بورڈ کی زیرنگرانی امتحانی مرکز میں ممتحن اور مبصر داد دیئے بغیر نہ رہ سکے کیونکہ سنٹرل جیل پشاور کا ماحول اس سال تبدیل دکھائی دیا۔ سبزہ زار‘ رنگ برنگے پھولوں کی کیاریاں اور شجرکاری نے منظر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے یقیناًقیدیوں کے لئے صحت افزأ ماحول‘ سہولیات اُور انسان دوست روئیوں کے نہایت ہی مثبت اثرات ظاہر ہوں گے۔
سنٹرل جیل پشاور میں نویں اور دسویں جماعتوں کے لئے بورڈ کی زیرنگرانی امتحانی مرکز میں ممتحن اور مبصر داد دیئے بغیر نہ رہ سکے کیونکہ سنٹرل جیل پشاور کا ماحول اس سال تبدیل دکھائی دیا۔ سبزہ زار‘ رنگ برنگے پھولوں کی کیاریاں اور شجرکاری نے منظر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے یقیناًقیدیوں کے لئے صحت افزأ ماحول‘ سہولیات اُور انسان دوست روئیوں کے نہایت ہی مثبت اثرات ظاہر ہوں گے۔
سنٹرل جیل پشاور میں کھانے پینے کا بہتر انتظام اور قیدیوں کی مشاورت سے ’مینو (اشیائے خوردونوش کی فہرست)‘ بھی ترتیب دی گئی ہے جو اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ماضی کی طرح قیدیوں کے لئے جاری ہونے والے فنڈز فیصلہ سازوں کے جیبوں میں منتقل نہیں ہو رہے اور قیدیوں کو غیرمعیاری کھانا نہیں دیا جارہا! جیل اِنتظامیہ کو یقین ہے کہ ’’صحت مند رہن سہن اُور ماحول کی فراہمی سے مجرموں میں منفی روئیوں کی اِصلاح ہو گی اُور اپنی اپنی سزا کاٹنے کے بعد معاشرے میں ایک ذمہ دار کردار و مثبت سوچ کو آگے بڑھائیں گے تاہم مجرموں کی ذہن سازی (تربیت) اُور کچھ ایسی رعایت دینا بھی ضروری ہے جس سے قیدخانوں پر افرادی بوجھ کم ہو سکے۔ اِمتحانات دینے والے قیدیوں سے ہوئی بات چیت میں بھی مطالبہ سامنے آیا کہ وزیراعلیٰ علم حاصل کرنے والے قیدیوں کے لئے رعائت کا اعلان کریں کیونکہ جو قیدی یہ چاہتے ہیں کہ قید سے رہائی کے بعد عملی زندگی میں ایک کامیاب اور مختلف انسان ثابت ہوں تو حکومت کو اُن کے جذبات کی قدر اور اُن کے لئے آسانیوں کی فراہمی یقینی بنانی چاہئے۔ اچھے اخلاق و کردار اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنے والے قیدیوں کی اگر سزاؤں میں تخفیف دی جائے تو اِس میں کوئی مضائقہ نہیں اور جیل خانہ جات کو ’اصلاحی گھروں‘ میں تبدیل کر دیا جائے تو بھی معاشرے کی اُسی طور خدمت ہوگی جیسا کہ دوسروں کے لئے خطرہ بننے کو الگ تھلگ رکھ کر کیا جاتا ہے۔
کیا سنٹرل جیل پشاور کا ہر قیدی اپنے ہی جرم کی سزا کاٹ رہا ہے؟
کیا قیدیوں کو دی جانے والی سزا میں وہ اذیت بھی شامل ہونی چاہئے جو ماضی میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے وہ بے زبان جانوروں کی طرح سہتے رہے؟
کیا جیل خانہ جات کا ماحول اس قدر بہتر نہیں ہونا چاہئے کہ جرائم کا ارتکاب کرنے والے ایک تبدیل شخصیت اور شناخت کے ساتھ رہائی پائیں تو معاشرہ اُن کی مثالیں دے؟
اُمید کی جاسکتی ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا بھی فرصت کے کسی لمحے اچانک سنٹرل جیل پشاور یا صوبے کے دیگر اضلاع میں جیل خانہ جات کا دورہ کریں گے جہاں اُنہیں موقع ملے گا کہ قیدیوں سے براہ راست ملاقات میں اُن کی جرائم پر اُس ’’ندامت و پشیمانی‘‘ کا بذات خود نوٹس لیں جنہیں یہاں الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
کیا سنٹرل جیل پشاور کا ہر قیدی اپنے ہی جرم کی سزا کاٹ رہا ہے؟
کیا قیدیوں کو دی جانے والی سزا میں وہ اذیت بھی شامل ہونی چاہئے جو ماضی میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے وہ بے زبان جانوروں کی طرح سہتے رہے؟
کیا جیل خانہ جات کا ماحول اس قدر بہتر نہیں ہونا چاہئے کہ جرائم کا ارتکاب کرنے والے ایک تبدیل شخصیت اور شناخت کے ساتھ رہائی پائیں تو معاشرہ اُن کی مثالیں دے؟
اُمید کی جاسکتی ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا بھی فرصت کے کسی لمحے اچانک سنٹرل جیل پشاور یا صوبے کے دیگر اضلاع میں جیل خانہ جات کا دورہ کریں گے جہاں اُنہیں موقع ملے گا کہ قیدیوں سے براہ راست ملاقات میں اُن کی جرائم پر اُس ’’ندامت و پشیمانی‘‘ کا بذات خود نوٹس لیں جنہیں یہاں الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
سنٹرل جیل پشاور میں قیدیوں کی ایک بڑی تعداد تندرست و توانا افراد پر مشتمل ہے جنہیں اگر کسی صنعت یا دور افتادہ علاقے میں کیمپ لگا کر ترقیاتی کاموں میں شریک کر لیا جائے تو اِس سے نہ صرف اُن کے مشکل اوقات کٹنے میں آسانی رہے گی بلکہ وہ کم معاوضے کے عوض ترقیاتی عمل کا حصہ بھی بن جائیں گے اور ہنرمند بھی ہو جائیں گے۔ اِس سلسلے میں ’’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ‘‘ ایک اچھی عملی (لائق مطالعہ) مثال کا درجہ رکھتا ہے جس میں ہمسایہ ملک چین سے لائے گئے قیدیوں کا ایک کیمپ خیبرپختونخوا میں بھی قائم کیا گیا ہے اور تعمیراتی کاموں میں قیدیوں کی خدمات (معاونت) سے استفادہ کیا جارہا ہے۔ اگر قیدیوں کو چین سے لاکر پاکستان میں ترقی کے عمل میں شریک کیا جا سکتا ہے تو یہی کام ہم اپنے قیدیوں سے کیوں نہیں لے سکتے جبکہ اسلام بھی ایسے افراد کی خدمات سے مشروط استفادے کی اجازت دیتا ہے اگر مشقت لیتے ہوئے مزدوروں کے انسانی حقوق (لیبر قوانین) کا خیال اور انسانیت کا احترام و تعظیم ملحوظ رکھی جائے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت صرف جیل خانہ جات میں سہولیات ہی فراہم نہیں کر رہی بلکہ ایک جامع اصلاحی تربیتی حکمت عملی بھی تشکیل دی گئی ہے جس کے لئے پچیس کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں اور حکمت عملی کے تحت خیبرپختونخوا کے 9 بڑے (مرکزی) جیل خانہ جات بشمول ہری پور‘ پشاور‘ کوہاٹ‘ بنوں‘ نوشہرہ میں خواتین اور کم عمر (نابالغ) قیدیوں کو مختلف پیشوں کی فنی و تکنیکی تربیت دی جائے گی تاکہ وہ قیدخانوں کے بعد اپنی عملی زندگی میں کامیاب و کامران ثابت ہو سکیں۔ قابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا کے محکمۂ داخلہ نے ایک سروے مکمل کر لیا ہے جس میں ایسے قیدیوں کے معمولی نوعیت کے جرمانے معاف کرنے اور انہیں رہائی دینے کا سلسلہ جاری ہے جو اپنی قید کی مدت تو پوری کر چکے ہیں لیکن جرمانہ نہ ہونے کی وجہ سے جن کی رہائی ممکن نہیں ہو پا رہی‘ اُن کی آنکھیں مسیحاؤں کی منتظر ہیں۔ اِس سلسلے میں انسانی حقوق کمیشن‘ عدالت اور صوبائی حکومت سے بھی رابطہ کیا گیا ہے کہ معمولی جرائم کے جرمانے ادا نہ کرنے کی وجہ سے زیرحراست مجرموں کو کس طرح معاف کرتے ہوئے رہائی دلائی جائے۔ یاد رہے کہ جرمانہ ادا کرنے کی مالی سکت نہ رکھنے والے سنٹرل جیل بنوں میں ایسے قیدیوں کی تعداد 6‘ سنٹرل جیل پشاور میں 13‘ سنٹرل جیل ہری پور میں 6‘ سنٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان میں 2‘ سنٹرل جیل تیمرگرہ میں 2‘ سنٹرل جیل کوہاٹ میں 2 جبکہ سنٹڑل جیل چترال میں ستائیس سالہ ابراہیم ولد صلاح الدین نامی قیدی ایسا بھی ہے جسے محض جرمانہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے رہائی نہیں مل پا رہی۔
اگر اِس سلسلے میں محکمۂ داخلہ یا صوبائی حکومت یا جیل خانہ جات کی جانب سے اپیل کی جائے تو کئی ایسے مخیرحضرات بھی ہوں گے جو یہ جرمانہ اپنی جیب سے ادا کر کے قیدیوں کی رہائی ممکن بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں گے لیکن اِس معاملے پر مختلف آئینی پہلوؤں سے غور کے بعد ایک واضح حکومتی پالیسی سامنے آنی چاہئے جس میں دیگر قیدیوں کی رہائی اور جیل خانہ جات پر آبادی کے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔ لب لباب یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے جیل خانہ جات میں اصلاحات کا ’’عملاً نفاذ‘‘ ایک ایسی ضرورت تھی جس کا ایک عرصے سے تقاضا اُور اُمید کی جارہی تھی اور اِن اصلاحات نے سیّد قمر عباس مرحوم کی یاد بھی دلائی ہے‘ جنہوں نے بطور وزیر جیل اصلاحات کی تھیں اور اُس وقت یہ معمولی اضافہ کہ قیدیوں کے لئے صابن کی ایک چھوٹی ٹکیہ دی جایا کرے گی‘ غیرمعمولی بات تھی۔
آج ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے خیبرپختونخوا حکومت کو اعزاز حاصل ہوا ہے کہ قیدیوں سے انسانی بنیادوں پر بہتر سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور یہ قطعی طور پر ایسی معمولی بات نہیں کہ اِس پر تحریک انصاف کی صوبائی اور مرکزی قیادت فخر نہ کرے۔
اگر اِس سلسلے میں محکمۂ داخلہ یا صوبائی حکومت یا جیل خانہ جات کی جانب سے اپیل کی جائے تو کئی ایسے مخیرحضرات بھی ہوں گے جو یہ جرمانہ اپنی جیب سے ادا کر کے قیدیوں کی رہائی ممکن بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں گے لیکن اِس معاملے پر مختلف آئینی پہلوؤں سے غور کے بعد ایک واضح حکومتی پالیسی سامنے آنی چاہئے جس میں دیگر قیدیوں کی رہائی اور جیل خانہ جات پر آبادی کے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔ لب لباب یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے جیل خانہ جات میں اصلاحات کا ’’عملاً نفاذ‘‘ ایک ایسی ضرورت تھی جس کا ایک عرصے سے تقاضا اُور اُمید کی جارہی تھی اور اِن اصلاحات نے سیّد قمر عباس مرحوم کی یاد بھی دلائی ہے‘ جنہوں نے بطور وزیر جیل اصلاحات کی تھیں اور اُس وقت یہ معمولی اضافہ کہ قیدیوں کے لئے صابن کی ایک چھوٹی ٹکیہ دی جایا کرے گی‘ غیرمعمولی بات تھی۔
آج ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے خیبرپختونخوا حکومت کو اعزاز حاصل ہوا ہے کہ قیدیوں سے انسانی بنیادوں پر بہتر سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور یہ قطعی طور پر ایسی معمولی بات نہیں کہ اِس پر تحریک انصاف کی صوبائی اور مرکزی قیادت فخر نہ کرے۔
![]() |
Prisons in Khyber Pukhtunkhwa reformed |
No comments:
Post a Comment