Tuesday, April 4, 2017

Apr2017: Spare parts smuggling business!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
باسہولت قانون شکنی!
اَصل (بنیادی) مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے کے بااثر اُور فیصلہ سازی کے منصب پر فائز کردار‘ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ’قانون شکنی‘ میں ’’ملوث‘‘ ہیں اُور جب تک قانون کے اِحترام کی عملی مثالیں ’اُوپر سے نیچے (اعلیٰ سے ادنیٰ تک)‘ منتقل نہیں ہوتیں‘ اُس وقت تک بہتری تو بہت دُور کی بات حالات مزید بگڑتے چلے جائیں گے۔ جرائم پیشہ عناصر گروہوں کی صورت معاشرے کے لئے مستقل خطرہ بنے رہیں گے۔ ایک ایسے ماحول میں دہشت گرد اُور اِنتہاء پسند عناصر کو بھی ’پھلنے پھولنے‘ کے مواقع میسر آتے ہیں‘ جہاں قانون ’پر عمل درآمد‘ سب کے نزدیک الگ الگ معنی رکھتا ہو۔

قانون ساز اسمبلی کے اراکین کی اکثریت کے پاس ایسی گاڑیاں ہیں جو ’آف روڈ (off road)‘ کہلائی جاتی ہیں۔ اِن ’دیوہیکل گاڑیوں‘ کی ساخت میں اِس بات کا بطور خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ اِنہیں ایسی ’اُونچی نیچی (ناہموار) اُور دلدلی یا پتھریلے راستوں پر اِستعمال کیا جائے گا جہاں عمومی اِستعمال کی موٹرگاڑیاں نہیں چل سکتیں۔ موٹے موٹے ٹائروں والی ایسی گاڑیوں کا اِستعمال ایک فیشن بھی ہے اور اِن سے کسی شخص کی مالی حیثیت اُور مرتبے کا اندازہ بھی ہوتا ہے‘ چونکہ ایک سے پانچ کروڑ روپے مالیت کی یہ درآمد شدہ ’فور بائی فور‘ گاڑیاں رکھنے والوں کا ایک مقصد اپنی دولت و امارت (مالی رعب و دبدبے) کا اظہار بھی کرنا ہوتا ہے اِس لئے یہ ’نیا رجحان‘ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ایک ہی قسم (ماڈل) اُور رنگ کی (ایک جیسی) دو ’لینڈ کروزر‘ یا اِس قسم کی ’آف روڈ‘ گاڑیاں آگے پیچھے ایک قطار (کاروان) کی صورت دکھائی جائیں! جن کے اگر شیشوں پر ’سیاہ رنگ‘ کے اِسٹکرز بھی چسپاں ہوں تو کیا پھر گاڑی کے مالک کی شان ہی نرالی ہوتی ہے۔ ایک اُور منفی رجحان یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ گاڑی کی نمبر پلیٹ قانون نافذ کرنے والے اِداروں بالخصوص فوجی گاڑیوں کی طرح مستقل نہ لگائی جائیں بلکہ نمبر پلیٹیں اِس طرح سے لگائی جائیں کہ اُنہیں تبدیل کرنا آسان ہو۔ فوج کے اعلیٰ حکام (ون سٹار بریگیڈئرز) کی گاڑیوں سے اِس قسم کی تختیاں نصب کرنے کی اِبتدأ ہوتی ہے جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دفتری اوقات اُور وردی کے بغیر وہ سرکاری نمبر اور ستارہ (سٹار) لگی سرخ رنگ کی تختی کا استعمال نہ کریں۔ غیرملکی سفارتکاروں اور حاضر سروس پولیس کے اعلیٰ حکام کو بھی اِسی قسم کی نمبر پلیٹ والی گاڑیاں رکھنے کی اجازت دی گئی ہے اُور اِن کی دیکھا دیکھی یہ رجحان عوام الناس کو منتقل ہو گیا ہے جس کے خلاف ٹریفک پولیس اہلکاروں کو سخت کاروائی کرنی چاہئے لیکن عموماً اِیسی بڑی گاڑیوں کو روکنے کی ہمت و جرأت ’ٹریفک پولیس اہلکاروں‘ میں نہیں ہوتی! جو دل سے جانتے ہیں کہ کروڑ سے پانچ کروڑ روپے کی گاڑی کا مالک قطعی طور پر ’’عام‘‘ نہیں ہو سکتا۔
گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات کے لئے پشاور کا رُخ کرنے والوں کو پہلا پڑاؤ ’’شعبہ بازار‘‘ ہوتا ہے جہاں جدید ماڈل کی نئی (اِلیکٹرانک) اُور پرانی گاڑیوں کے اِستعمال شدہ پرزہ جات نہایت ہی اَچھی حالت میں مل جاتے ہیں۔ 

کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اِس قدر بڑی مقدار میں استعمال شدہ پرزہ جات کہاں سے آتے ہیں جنہیں عرف عام میں ’’کابلی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ’کابلی سپیئر پارٹس‘ درحقیقت چوری شدہ گاڑیوں سے نکالے گئے ہوتے ہیں اور ملک کے مختلف حصوں سے یہ پرزہ جات پشاور کی منڈیوں میں لائے جاتے ہیں۔ ایسے پرزہ جات کی ایک بڑی مقدار اسمگل (غیرقانونی طور پر درآمد) ہونے کے مناظر ’طورخم‘ سرحد پر عام دیکھے جاسکتے ہیں جہاں ہتھ ریڑھیوں پر اِن پرزہ جات کو بچے منتقل کر رہے ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ اتنی برق رفتاری سے ہو رہا ہوتا ہے کہ پاک افغان سرحد پر تعینات فوج اور حتی کہ خفیہ اداروں کے اہلکار بھی نہیں دیکھ پاتے! لب لباب یہ ہے کہ جب تک قومی خزانے سے تنخواہیں اور مراعات لینے والے پاکستان سے عملاً وفادار نہیں ہوں گے اُس وقت تک عام آدمی (ہم عوام) جس قدر بھی حب الوطنی کی تجدید اور عہد کرتے رہیں‘ قومی ترانے کے احترام میں چاہے ایک ہی پاؤں پر کیوں نہ کھڑے رہیں ٹس سے مس (کھکھ) فائدہ نہیں ہوگا۔

’شعبہ بازار‘ کے بعد استعمال شدہ ’پرزہ جات‘ کا دُوسرا (بڑا) مرکز پشاور ہی کے ’قمردین گڑھی‘ میں واقع ہے اور پشاور کے رنگ روڈ براستہ کارخانو خیبرایجنسی سے متصل اِس واحد دکان کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اِداروں کی لاعلمی پر تعجب ہوتا ہے۔ جہاں سے ’واٹس ایپ‘ کے ذریعے بھی خریدوفروخت ہوتی ہے۔ خریدار ملک کے کسی بھی حصے میں بیٹھ کر ’درکار (مطلوب)‘ پرزے کی تصویر ’واٹس اَیپ‘ کے ذریعے اِرسال کرتا ہے‘ جس کی قیمت بذریعہ بینک یا موبائل فون (اِیزی پیسہ وغیرہ) ادا کرنے والوں کو مطلوبہ پرزہ بذریعہ ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ اِرسال کردیا جاتا ہے۔ یہ ’ٹیکس فری کاروبار (لین دین)‘ سینکڑوں ہزاروں یا لاکھوں روپے نہیں بلکہ کروڑوں روپے مالیت ہے‘ لیکن کسی کو دکھائی نہیں دے رہا!
شعبہ بازار ہو یا گھڑی قمر دین‘ ملک کے مختلف حصوں میں گاڑیوں کے استعمال شدہ فاضل پرزہ جات کی خریدوفروخت کے مراکز قائم ہیں اُور اِس صورتحال کا نسبتاً زیادہ سنجیدہ پہلو یہ ہے کہ حکومتیں گاڑیاں بنانے والے شعبے کے مفادات کی محافظ ہے اور اگر کوئی شخص اِس شعبے میں موجود مختلف اقسام کے بگاڑ کو نزدیکی سے جاننا چاہتا ہو تو اُسے ہمارے کمزور سرحدی انتظام اور بڑی سطح پر ’بے ضابطہ معیشت‘ کا جائزہ لینا ہوگا۔ 

آخر ہمیں خیبرپختونخوا اُور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی ’’کابلی گاڑیوں‘‘ کی بصورت پرزہ جات تجارت کیوں دکھائی نہیں دے رہی! 

کیا ہم عقل کے اَندھے ہو چکے ہیں یا دانستہ آنکھیں موند لینے کے پیچھے اِنتظامی عہدوں پر فائز افراد کی حرص و طمع ہے جس کو کسی کروٹ سکون نصیب نہیں ہورہا! تصور کیجئے اُور داد دیجئے کہ انتظامی عہدوں پر فائز افراد نے ’کتنی صفائی‘ اُور ’کتنے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نہ صرف عام آدمی (ہم عوام) کے لئے ’اَمن و اَمان کا حصول‘ ایک خواب‘ اُمید اور دُعا بنا دیا ہے بلکہ راتوں رات اَمیر بننے کی ’’بے قرار خواہشات‘‘ کی وجہ سے ہماری معیشت اَن گنت خطرات سے دوچار ہے!

No comments:

Post a Comment