ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تصویری مقابلہ: اَصول‘ قواعد اُور نتائج!
صحافت کی حد یہ ہے کہ اِس کی کوئی حد نہیں۔ یہ بہت سے علوم کا مجموعہ ہے اور اپنی ذات میں ایک ایسا منفرد علم بھی ہے‘ جس کے اَصولوں کی روشنی (رہنمائی) میں تحریر و تحقیق اور بیانات کی عملی اشکال اور اثرات کا بیان جبکہ اِسی کے ذریعے نہ صرف گردوپیش کے حالات و واقعات سمجھنے اُور سمجھانے کے علاؤہ انسانی معاشروں میں پائے جانے والے امتیازات ختم کرنے کی جانب فیصلہ سازوں کا دھیان مرکوز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو زیادہ سنجیدہ فرائض منصبی (ذمہ داری) ہے۔ دنیا کا کوئی بھی دوسرا علم اپنی ذات میں اِس قدر معنویت (وسعت) نہیں رکھتا کہ اِس کے ذریعیاَقوام عالم سے لیکر مقامی سطح پر گروہی اختلافات‘ امتیازات یا حقوق کے تحفظ جیسے آئینی و سماجی مسائل زیربحث لائیں جائیں لیکن صحافت کی معنویت اُس وقت حاصل ہوگی جبکہ ’آزادی اظہار‘ کے ساتھ جڑے ’فرائض‘ کی باریکیوں کو سمجھا جائے‘ اُن کی قدر کی جائے اور اِس کے مروجہ عالمی اَصولوں کی ’بہرصورت پاسداری‘ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
قیام پاکستان کے وقت سے شمال مغربی سرحدی صوبے (خیبرپختونخوا) میں صحافت سے جڑے چند معتبر ناموں میں ’لالہ امیر صدیقی (مرحوم)‘ کا بھی شمار ہوتا ہے۔ آپ پشاور پریس کلب کے بانی رُکن اور اپنی ذات میں رہنما انسان تھے۔ آپ کی شخصیت کے ایک رخ یعنی صحافتی خدمات کو خراج تحسین اور ’یادگار‘ رکھنے کے لئے ’لالہ امیر صدیقی (مرحوم) سے منسوب اعزازات‘ کا آغاز سال 2016ء میں کیا گیا‘ جن کا ایک مقصد خیبرپختونخوا اُور قبائلی علاقہ جات میں ’ذمہ دار اُور معیاری صحافت‘ کا فروغ بھی ہے۔ اِس سلسلے میں ’’سالانہ میڈیا ایوارڈز‘‘ کے سلسلے میں تقریب رواں برس بھی 30مارچ ہی کے روز منعقد ہوئی۔ اعزازات ’مختلف شعبوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر دیئے گئے جن میں تحقیقی رپورٹ‘ انگریزی میں بہترین فیچر کالم‘ اُردو میں فیچر رپورٹ‘ فوٹوجرنلزم‘ ریڈیو رپورٹ‘ صحافتی ٹیلی ویژن کے لئے کیمرہ مین اُور ٹیلی ویژن پیکج کا ’انتخاب‘ کرکے صحافیوں کو ایک پروقار تقریب میں اعزازات سے نوازہ گیا۔ حسن اتفاق ہے کہ زیادہ تر اعزازات اُنہی اِداروں کے حصے میں آئے جن سے مقابلے کے منصفین کا تعلق تھا لیکن اِس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کم سے کم کسی کو تو خیال آیا کہ ’ذمہ دار صحافت‘ کرنے والوں کی خدمات کا اعتراف کیا جائے۔ یہ اقدام تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کے لئے بھی دعوت فکر ہے کہ وہ ’انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (محکمۂ اطلاعات)‘ کو ’’ایوان اطلاعات‘‘ میں ڈھال کر ایک ایسے شعبے کی سرپرستی کرے‘ جس سے وابستہ افراد‘ بناء عہدوں اُور مراعات کی لالچ نہ صرف اپنی زندگیاں وقف کئے ہوئے ہیں بلکہ وہ غیرمعمولی حالات میں خطرات بھی مول لیتے ہیں اور یہ حقیقت اپنی جگہ اعتراف حقیقت چاہتی ہے کہ خیبرپختونخوا میں صحافت کا علم حاصل کرنا تو آسان ہے لیکن یہاں کبھی بھی صحافت کرنا آسان نہیں رہا۔
’لالہ اَمیر صدیقی (مرحوم) میڈیا ایوارڈز‘ کسی نعمت سے کم نہیں‘ جن میں فوٹوجرنلزم (صحافتی مقاصد کے لئے کی جانے والی عکاسی) کو بھی شامل کیا گیا ہے تو یہ محض رسمی درجہ بندی نہیں ہونی چاہئے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ برس منصفین میں فوٹوگرافی کے شعبے کے کسی ایسے ماہر کو شامل کیا جائے گا جو ضروری نہیں کہ مقامی ہی ہو اور وہ کسی فوٹوگرافر کی ایک تصاویر یا ایک ویڈیو رپورٹ ہی کو نہیں بلکہ اُس کے ہاں تکنیکی مہارت کی مفصل جانچ کرنے کے بعد فیصلہ صادر کرے۔ رواں برس جن قابل احترام جج صاحبان بشمول سینئر صحافیوں نے ’تصاویر‘ اور ’ویڈیو رپورٹس‘ کی درجہ بندی کی یقیناًاُنہوں نے پوری دیانتداری کا مظاہرہ کیا ہوگا جو ہر قسم کے شک و شبے سے بالاتر ہے لیکن کسی ’تکنیکی مہارت‘ کے معیار کی جانچ کے لئے محض ’نیک نیتی‘ ہی کافی نہیں ہوتی۔ آدھا علم تو یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنی لاعلمی کا اعتراف کرے لیکن ابھی اتنا علم ہمارے ہاں نہیں آیا اور علم سے زیادہ تجربہ شخصیات کا تعارف بن چکا ہے۔ بہرکیف فوٹوگرافی اور ویڈیوگرافی پر مشتمل تخلیقات کا فیصلہ اُن سے کرایا گیا‘ جو اِن علوم کے بارے اپنے اپنے جمالیاتی ذوق کے مطابق ’ایک رائے‘ رکھتے ہیں (جبکہ رائے علم نہیں ہوتی) اور ہمارے ہاں چونکہ المیہ یہ ہے کہ چیزیں اپنے مقام پر پڑی پڑی ہی ’سینئر‘ بھی ہو جاتی ہیں اور اُنہیں کچھ نہ کرنے جیسی ’قومی خدمت‘ کی ’پاداش‘ میں ’’حسن کارکردگی‘‘ جیسے ’اِعزازات‘ بھی مل جاتے ہیں‘ تو اِسی کو کارکردگی کا معیار سمجھنے والوں کو دیکھنا ہوگا کہ ’قومی اعزازات‘ کی عام آدمی (ہم عوام) کی نظر میں وقعت اُور اہمیت نہ ہونے کی بنیادی وجہ بھی یہی سالانہ ’دل پشاوری‘ کرنے کی ترکیب ہے۔
صحافتی مقصد کے لئے بنائی جانے والی کسی بھی تصویر کا ’پیغام‘ اُس کی قدروقیمت کے تعین کا پہلا معیار ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ جو تصویر کسی خاص موقع پر اخبارات یا دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے نشر ہوئی وہ چند دنوں‘ ہفتوں یا مہینوں بعد بھی انسانی ذہن پر اُتنا ہی یا ویسا ہی اثر کرے‘ جیسا کہ کسی خاص وقت اُور خاص حالات میں اُسے دیکھنے والوں کے جذبات پر ہوا تھا۔ اِس سلسلے میں ایک تجویز فوٹوجرنلسٹس کے لئے بھی ہے کہ جب وہ کسی بھی مقامی یا عالمی مقابلے کے لئے اپنی بنائی ہوئی کسی تصویر کا انتخاب کریں تو خود کو منصف کی جگہ رکھ کر سوچیں اور اپنی تخلیقات کا بذات خود تنقیدی جائزہ لیں۔
قریبی دوستوں کی پسند و ناپسند پر انحصار اُورجلدبازی نہ کریں۔کسی منصف کو بہت سی تصاویر کا جائزہ لینا ہوتا ہو‘ اُسے صرف ایک تصویر نہیں دیکھنا ہوتی‘ اِس لئے فوٹوگرافر کے لئے ضروری ہے کہ چاہے وہ کسی مقابلے میں حصہ لے یا نہ لے لیکن وہ اپنی تخلیقات کا موازنہ دوسرے ہم عصروں کے کام سے مسلسل کرتا رہے۔ فوٹوگرافر کو چاہئے کہ سب سے پہلے خود سے سوال کرے کہ کیا واقعی اُس کی بنائی ہوئی کوئی بھی تصویر کسی مقابلے کے قابل بھی ہے اُور اگر ہے تو پھر کیوں؟
آخر تصویر میں ایسا کیا مختلف دکھایا گیا ہے جو اُس کی تخلیق کو دیگر سے الگ و نمایاں (ممتاز) کرے گا؟ کسی جج کی نظر میں تصویر کے چار معیار ہو سکتے ہیں۔ اُس کااثر (impact) کیا ہے۔ اُس میں ’تکنیکی باریکیوں(technical excellence) کا کتنا خیال رکھا گیا ہے اُور اِسے بناتے ہوئے ’تخلیقی مہارت (creativity)‘ سے کتنا کام لیا گیا ہے۔ تصویر بناتے ہوئے قواعد (rules) کو کتنا مدنظر رکھا گیا ہے اُور اگر اِس سلسلے میں صرف ایک ہی قاعدے یعنی ’کمپوزیشن (compositio)‘ کو معیار مان لیا جائیکہ ’رول آف تھرڈز (rule of thirds)‘ مرکز نگاہ رہا ہے یا نہیں تو بھی فیصلہ کرنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ اِس سلسلے میں ایک ضمنی ہدایت فوٹوگرافرز کے لئے یہ بھی ہے کہ جو کسی مقابلے میں حصہ لینے کے خواہشمند ہوں تو اُنہیں چاہئے کہ اپنی تخلیقات ارسال کرنے سے قبل مقابلے کے قواعدوضوابط (اگر ہوں تو اُنہیں) اچھی طرح سمجھ لیں اور اگر کوئی ایک نکتہ بھی سمجھ میں نہ آئے تو اُس کے بارے اپنی تسلی تک تک بار بار منتظمین سے پوچھتے رہیں۔
کسی تصویر کا کم سے کم ’معیار‘ اُور اُس کی ’جزئیات‘ کی جانچ عالمی (مروجہ)اصولوں کے مطابق ہونی چاہئیتاکہ تصویر اُور آڈیو ویڈیو تخلیقات مقابلے کے لئے پیش کرنے والوں کے تجربے‘ مہارت‘ تخلیقی قوت‘ جمالیاتی ذوق‘ اُور اپنے پیشے سے لگن و محنت کا نہ صرف ’درست اندازہ‘ لگایا جا سکے بلکہ اِسی کی بنیاد پر ڈیجیٹل (digital) آلات کی مدد سے حاصل ہونے والی تخلیقات (محنت) کی درجہ بندی بھی ممکن ہو۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے حصے کے مقابلے خیبرپختونخوا اُور قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں فوٹوگرافی کرنا بذات خود ایک مشکل کام ہے جس کے لئے تکنیکی مہارت کے ساتھ اضافی نمبر مقرر ہونے چاہیئں!
لب لباب یہ ہے کہ فوٹوگرافی ہو یا ویڈیوگرافی‘ دونوں کا ایک تعلق ’جمالیاتی ذوق‘ سے بھی ہے اور اِس نعمت کا ’عکس درعکس‘ جہاں رہن سہن‘ بول چال اور زندگی بسر کرنے کے سلیقے سے بھی عیاں ہوتا ہے‘ وہیں یہ ہنر اپنی جگہ روحانی تسکین کا باعث بھی ہے اور نشہ آور بھی کہ فوٹو یا ویڈیوگرافی اعزازات کی محتاج نہیں ہوتی لیکن صداقت کا اعتراف اپنی جگہ ’سزا و جزا‘ کی طرح اہم ہے۔ بالآخر طے ہے کہ کسی تصویر کے ذریعے اگر ہزاروں الفاظ پر مبنی پیغام منتقل کیا جا سکتا ہے تو تصویر کی یہ طاقت کو مدنظر رکھتے ہوئیاُس کے معیار کا تعین کرنا اتنا سادہ و آسان نہیں ہوسکتا کہ کوئی بھی ’سینئر‘ کہلانے والا یہ کام کرسکے؟
No comments:
Post a Comment