ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
حدود و قیود!
اہل پشاورکے لئے ’شہری زندگی‘ کی خوبصورتی جیسی اصطلاح کا مفہوم واضح نہیں۔ رہائشی علاقوں میں تجارتی مراکز کے قیام سے شہر کا کوئی ایک حصہ بھی محفوظ نہیں اور عجیب صورتحال یہ ہے کہ ’شہری ترقی‘ کے نام پر ایک سے زیادہ سرکاری اداروں کی موجودگی کے باوجود بھی رہائشی علاقوں کے رہنے والوں کو کم سے کم ذہنی سکون اور احساس تحفظ حاصل نہیں! یہ معاملہ عدالت میں بھی زیرسماعت ہے جہاں سے ملنے والے واضح احکامات کے باوجود‘ بطور تجربہ (ٹیسٹ کیس) یونیورسٹی ٹاؤن میں تجارتی سرگرمیاں ختم نہیں جا سکیں اور اِس بے قاعدگی کا نوٹس لیتے ہوئے ’پشاور ہائی کورٹ‘ نے تیس مارچ کے روز کئی حکومتی اعلیٰ حکام کو طلب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر ’چیف سیکرٹری’ سیکرٹری لوکل کونسل بورڈ‘ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر پشاور‘ عدالت کے روبرو پیش ہو کر (تجاہل عارفانہ پرمبنی اپنے طرزعمل کی) وضاحت نہیں کریں گے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اب تک یونیورسٹی ٹاؤن (رہائشی علاقے) میں جاری تجارتی سرگرمیاں ختم نہیں ہو سکی ہیں تو اِن تمام افراد کے خلاف توہین عدالت جیسی دفعات کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ عدالت کی جانب سے مسلسل احکامات نظرانداز کرنے کا معاملہ صرف یونیورسٹی ٹاؤن کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ پشاور کے قبرستانوں میں تجاوزات اور قبضہ مافیا کی کارستانیاں بھی واضح عدالتی احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں ہیں! لیکن چونکہ عدالت کی اپنی آنکھیں اُور کان نہیں‘ اِس لئے جب تک کوئی شخص اِن بے قاعدگیوں سے متعلق عدالت سے رجوع نہیں کرے گا یا پھر ذرائع ابلاغ مفاد عامہ کے ایسے کسی معاملے کو پوری قوت سے بار بار نہیں اُٹھائیں گے اُس وقت عدالت حرکت میں نہیں آتی! اگر ’پشاور ہائی کورٹ‘ قبرستانوں میں تجاوزات کے حوالے سے اپنے ہی احکامات پر عمل درآمد کا جائزہ لے اور معزز جج صاحبان زحمت کرتے ہوئے قبرستانوں کا دورہ کریں تو اُنہیں صرف حقیقت حال ہی نہیں بلکہ برسرزمین حقائق کی سنگینی کا بھی اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی سے پشاور کے قبرستانوں کی اراضی ہڑپ کر لی گئی ہے! کس طرح جنازہ گاہ اور چھوٹی مساجد و مدارس کی آڑ میں سینکڑوں قبریں مسمار کر کے رہائشی کالونیاں بنا لی جاتی ہیں‘ جنہیں قانونی طور پر جائز بنانے کے لئے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹرز کے ترقیاتی فنڈزسے گلیاں کوچے نالے نالیاں ٹیوب ویل اور بلدیاتی اداروں کے دفاتر قائم کئے جاتے ہیں۔
وزیرباغ کی اراضی بطور خاص جس طرح قبضہ کی گئی اور آج وزیرباغ کی جو حالت ہے‘ اُس سمیت پشاور کے جملہ باغات کا ازخود نوٹس لینا تو بنتا ہے کہ جنہیں کمرشل کرنے کے نام پر ایک خاص جماعت سے تعلق رکھنے والوں کو اجارے پر دے دیا گیا!
وزیرباغ کی اراضی بطور خاص جس طرح قبضہ کی گئی اور آج وزیرباغ کی جو حالت ہے‘ اُس سمیت پشاور کے جملہ باغات کا ازخود نوٹس لینا تو بنتا ہے کہ جنہیں کمرشل کرنے کے نام پر ایک خاص جماعت سے تعلق رکھنے والوں کو اجارے پر دے دیا گیا!
پشاور کے سیاسی حکمرانوں نے انتخابی سیاست اور دیگر ذاتی مفادات کو عزیز رکھا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے تو جہاں عدالت سرکاری اہلکاروں کی کارکردگی کا احتساب کر رہی ہے تو وہیں پشاور کے ماضی و حال کے سیاسی و بلدیاتی فیصلہ سازوں کے اثاثوں اور مالی حیثیت کا حساب کتاب بھی طلب کیا جائے تو پوری کہانی سمجھ میں آ جائے گی! یونیورسٹی ٹاؤن کے رہائشی علاقے میں غیرسرکاری تنظیموں کے دفاتر‘ تعلیمی ادارے اُور علاج معالجے کے مراکز ازخود قائم نہیں ہوئے‘ کہیں نہ کہیں سے اجازت اور کہیں نہ کہیں سیاسی دباؤ کی وجہ سے چشم پوشی کی گئی ہے۔ اِس معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے 4 رکنی بینچ جس کی قیادت ’جسٹس وقار احمد سیٹھ‘ کر رہے ہیں نے 4ماہ کا مزید وقت دیا تھا کہ یونیورسٹی ٹاؤن کی حدود میں جاری تمام کمرشل سرگرمیاں ختم کرائی جائیں اور یہ عرصہ بہت تھا لیکن اگر کام کیا جاتا۔ عدالتی احکامات کو خاطر میں نہ لانے والوں کی نیت پر تو شک نہیں کیا جاسکتا البتہ اُن کے عمل سے صاف ظاہر ہے کہ کمرشل سرگرمیوں کے عوض بھاری ماہانہ کرائے وصول کرنے والوں کے مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے تو کہیں کمرشل سرگرمیاں جاری رکھنے کی رعایت دے کر بھی کچھ نہ کچھ ضرور کمایا گیا ہے‘ جو یقیناًاتنا زیادہ ضرور ہے کہ ’توہین عدالت‘ کے ارتکاب جیسا خطرہ بھی مول لینے میں قباحت محسوس نہیں کی گئی۔
مسئلہ بیوروکریسی (افسرشاہی) کے شاہانہ مزاج کا ہے‘ جنہیں کسی کام کا حکم ملنا اُور پھر اس کی تکمیل کی توقع رکھنے والے اگر ماضی کی مثالیں ذہن میں رکھتے تو یوں عدالت کا وقت برباد نہ ہوتا۔ عوام الناس کی نظر میں نہ تو قوانین کی اہمیت باقی رہی ہے‘ جس میں خواص کو رعائت دی جاتی ہے اور اِن قوانین و قواعد کا اطلاق صرف اور صرف عام آدمی پر ہوتا ہے۔ قوانین اور قواعد کی تشریح کرنے والا عدالتی نظام کی فعالیت پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے‘ جس کے وابستہ عام آدمی کی توقعات پوری نہیں ہو رہیں! کیا کسی نے سوچا کہ جو افسرشاہی ’پشاور ہائی کورٹ‘ کے ’4 رکنی ڈویژنل بینچ‘ کو خاطرمیں نہیں رہی اُس کی نظر میں کسی عام آدمی (ہم عوام) کی بطور سائل وقعت ہی بھلا کیا ہوگی!
مسئلہ بیوروکریسی (افسرشاہی) کے شاہانہ مزاج کا ہے‘ جنہیں کسی کام کا حکم ملنا اُور پھر اس کی تکمیل کی توقع رکھنے والے اگر ماضی کی مثالیں ذہن میں رکھتے تو یوں عدالت کا وقت برباد نہ ہوتا۔ عوام الناس کی نظر میں نہ تو قوانین کی اہمیت باقی رہی ہے‘ جس میں خواص کو رعائت دی جاتی ہے اور اِن قوانین و قواعد کا اطلاق صرف اور صرف عام آدمی پر ہوتا ہے۔ قوانین اور قواعد کی تشریح کرنے والا عدالتی نظام کی فعالیت پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے‘ جس کے وابستہ عام آدمی کی توقعات پوری نہیں ہو رہیں! کیا کسی نے سوچا کہ جو افسرشاہی ’پشاور ہائی کورٹ‘ کے ’4 رکنی ڈویژنل بینچ‘ کو خاطرمیں نہیں رہی اُس کی نظر میں کسی عام آدمی (ہم عوام) کی بطور سائل وقعت ہی بھلا کیا ہوگی!
تصور کیجئے کہ پشاور ہائی کورٹ نے 30 اکتوبر 2013ء کو ایک حکم دیا تھا کہ پشاور کے رہائشی علاقوں بالخصوص یونیورسٹی ٹاؤن کی حدود میں ہرقسم کی تجارتی (کمرشل) سرگرمیاں ختم کر دی جائیں لیکن ایک طویل عرصہ اور سماعتوں کی تاریخ پر تاریخ تبدیل ہونے کے باوجود بھی ایسا نہیں ہوسکا تو ایسی عدالت کا وقار اور ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے! یقیناًاُس تمام افسرشاہی کا احتساب ہونا چاہئے جو تیس اکتوبر دوہزار تیرہ سے آج تک پشاور پر حکم تو چلاتی رہی لیکن اُس نے عدالتی احکامات کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی۔ سرکاری اداروں کو باسہولت دفاتر اور ضرورت سے زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔ تنخواہوں اور مراعات بھی باقاعدگی سے وصول کی جا رہی ہیں تو پھر کام کیوں دکھائی نہیں دیتا۔ بات صرف یونیورسٹی ٹاؤن میں جاری کمرشل سرگرمیاں ختم کرنے کی حد تک کیوں محدود سمجھ لی گئی ہے؟
اندرون شہر کی تنگ گلی کوچوں میں تعمیر ہونے والے کثیرالمنزلہ تجارتی مراکز‘ دکانیں اور مارکیٹیں کیا ’بلڈنگ کوڈز‘ کی خلاف ورزی نہیں؟ پیپل منڈی جیسا تجارتی مرکز کیا رہائشی علاقے کے وسط میں نہیں اُور ’ٹرک اڈے‘ سے دُوری کے سبب کیا پیپل منڈی (ہول سیل مارکیٹ) میں اَجناس کی نقل و حمل کے باعث مقامی اَفراد (اُور ملحقہ رہائشی علاقوں) میں رہنے والے مشکلات اُور مسائل سے دوچار نہیں؟ ضرورت ہے کہ پشاور کے جملہ رہائشی علاقوں کو اُن کا سکون واپس دلایا جائے۔ رہائشی و کمرشل علاقوں کے درمیان فرق (تمیز) موجود ہے‘ جن کی ازسرنو حدود بندی یا پہلے سے مقرر کمرشل علاقوں کی مناسب تشہیر کے ذریعے عوام الناس کو مطلع کیا جائے کہ وہ کن کن علاقوں میں رہائش اور کن حدود میں تجارتی سرگرمیاں کر سکتے ہیں۔
اندرون شہر کی تنگ گلی کوچوں میں تعمیر ہونے والے کثیرالمنزلہ تجارتی مراکز‘ دکانیں اور مارکیٹیں کیا ’بلڈنگ کوڈز‘ کی خلاف ورزی نہیں؟ پیپل منڈی جیسا تجارتی مرکز کیا رہائشی علاقے کے وسط میں نہیں اُور ’ٹرک اڈے‘ سے دُوری کے سبب کیا پیپل منڈی (ہول سیل مارکیٹ) میں اَجناس کی نقل و حمل کے باعث مقامی اَفراد (اُور ملحقہ رہائشی علاقوں) میں رہنے والے مشکلات اُور مسائل سے دوچار نہیں؟ ضرورت ہے کہ پشاور کے جملہ رہائشی علاقوں کو اُن کا سکون واپس دلایا جائے۔ رہائشی و کمرشل علاقوں کے درمیان فرق (تمیز) موجود ہے‘ جن کی ازسرنو حدود بندی یا پہلے سے مقرر کمرشل علاقوں کی مناسب تشہیر کے ذریعے عوام الناس کو مطلع کیا جائے کہ وہ کن کن علاقوں میں رہائش اور کن حدود میں تجارتی سرگرمیاں کر سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment