ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیاسی اخلاقیات!
پاکستان مزید سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ مریم اورنگزیب کا قول سلیم ہے کہ ’’اگر اُور مگر ختم ہونا چاہئے۔‘‘ کاش کہ ایسا ہی ہوتا اور عدالتی فیصلے کے فوراً بعد سے رات گئے تک نہ تو مٹھائیاں تقسیم جاتی اور نہ مبارک بادوں کا تبادلہ کرنے والے تصاویر ’سوشل میڈیا‘ پر جاری کرتے۔ عدالتی فیصلے سے اپنے مطلب کے معانی اخذ کرنے اور سیاق و سباق پر غور کرنے والے ’غیرآئینی امور‘ کے ماہرین کے شکوک و شبہات اور تحفظات بدسور موجود ہیں۔ 20 اپریل کی طرح 21 اپریل کا دن بھی پاکستان پر بھاری رہا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے جاری اجلاس میں حزب اختلاف کے اراکین کو بات کرنے کا موقع نہ دیتے ہوئے اجلاس ختم کرنے کی روایت ’عدم برداشت‘ اور اختیارات کے غلط استعمال کی عکاس ہے۔ عدالتی فیصلہ وہی کا وہی رہنا تھا اگر تحریک انصاف کے سربراہ کو قومی اسمبلی سے خطاب کی اجازت دے دی جاتی اور برہمی پر مبنی ردعمل منطقی تھا کیونکہ عمران خان بہت کچھ ’’فلور آف دی ہاؤس (آن ریکارڈ)‘‘ کہنے کی خواہش رکھتے تھے اور یقیناًاُن کا مقصود یہی تھا کہ قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر بھی وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کریں‘ جو اُن سمیت پیپلزپارٹی کی جانب سے ’جلدبازی‘ میں اگر یہ اعلان پہلے ہی سامنے نہ آتا تو ’وفاقی حکومت‘ ہوشیار نہ ہوتی جو اتنی بھی سادہ نہیں کہ اپنے خلاف محاذ پر محاذ کھولنے دے جو پہلے ہی بیس اپریل کے ’عدالتی فیصلے اور حزب اختلاف کی جانب سے جوش خطابت میں ’کڑے تنقیدی حملوں‘ کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔
پانامہ کیس میں تحریک اِنصاف کے شانہ بشانہ کھڑی ’جماعت اِسلامی پاکستان‘ بھی خود کو ’سرخرو‘ سمجھ رہی ہے۔ گویا ایک ایسا عدالتی فیصلہ آیا ہے جس سے سب کی دلی مرادیں پوری ہو گئیں ہوں! جماعت کے مرکزی اَمیر (سربراہ) سراج الحق کا مؤقف اُور مطالبہ معمولی نہیں۔ کیا ہوا اگر وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی اجلاس میں حزب اختلاف کے اراکین کو بولنے نہیں دیا کیونکہ اُسی قومی اسمبلی کے باہر ’یکے بعد دیگرے‘ سبھی جماعتوں کے رہنماؤں نے ذرائع ابلاغ کے سامنے ’’دل کے پھپھولے‘‘ کھول کھول کر بیان کر دیئے۔
تاریخ تو بہرحال رقم ہو رہی ہے‘ بیس اپریل کا دن اتنا تاریخی (ناقابل فراموش) تھا‘ کہ اس کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اب ہر دن ’تاریخی‘ ثابت ہو رہا۔ ’جلدباز‘ فریقین غلطیوں پر غلطیاں کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جا رہے ہیں۔ سراج الحق کا کہنا ہے کہ سپرئم کورٹ کے کہے کو سمجھا جائے کہ ’’وزیراعظم اور اُن کے اہل خانہ کے بیانات درست نہیں پائے گے۔ دو ججز نے کہا کہ وزیراعظم نااہل جبکہ باقی تین نے ایک عدد تفتیش کی ضرورت محسوس کی ہے تو یہ کس طرح حکمراں جماعت کی کامیابی ہو سکتی ہے!؟ جماعت اسلامی ایک عرصے سے کرپشن کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ ٹرین مارچ‘ سڑکوں سے ایوانوں تک جلسے جلوس اور احتجاج کے بعد عدالت کا دروازہ بھی کٹھکٹھانا اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کم سے کم اخلاقی طور پر ’پیپلزپارٹی‘ سے بلند ہیں اور مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے سدباب کے لئے قول و فعل کے تضاد کا شکار نہیں!
پانامہ کیس کا فیصلہ منزل نہیں لیکن کامیابی کی جانب پیش قدمی ہے۔ کیا سپرئم کورٹ کے دو جج صاحبان کا فیصلہ معمولی قرار دی جاسکتی ہے؟
ضرورت اِس امر کی ہے کہ متحدہ اپوزیشن کا ایک ہی مطالبہ ہونا چاہئے کہ وزیراعظم اخلاقی طور پر استعفی دے اس لئے کہ اگر وہ بڑی کرسی پر موجود رہتے ہیں تو اس سے تفتیشی و تحقیقاتی عمل پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ بقول سراج الحق ’’موجودہ اور سابق حکمرانوں نے اداروں کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ قوم کو اُن سے یہ توقع ہی نہیں کہ ایک کم گریڈ کا افسر اپنے سے اعلیٰ گریڈ کے افسر کا احتساب کرے گا‘ لہٰذا وزیراعظم ’نواز شریف‘ کی عزت اسی میں ہے کہ وہ استعفی دے کر ایک آزادانہ تفتیش کا ماحول فراہم کریں۔ جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے اراکین کون ہونے چاہیءں اِس پر بھی حزب اختلاف کا مؤقف صرف اور صرف اُس صورت تسلیم کیا جاسکتا ہے جبکہ وہ متحد رہیں! کیونکہ ماضی میں بننے والی ایسی ہی کئی مشترکہ تفتیشی ٹیموں کی کارکردگی اور حاصل ہونے والے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کرنے کی بجائے رائٹ کو دائیں کی بجائے صحیح (حق) اور لیٖفٹ بائیں کی بجائے غلط سمجھنے کے اصولوں پر سیاست ہونی چاہئے تاکہ ملک میں کم سے کم اُن اخلاق قدروں کو حکمرانی کا موقع مل سکے جن میں نمو (ارتقاء) کی طاقت چھپی ہوئی ہے۔
لوگوں کے دین اور مسلک جدا (الگ الگ) ہو سکتے ہیں لیکن اخلاق ایک ایسا اصول (معیار) ہے جو پوری دنیا کو جوڑ اور اِسی کی عدم موجودگی میں پیدا ہونے والی تفریق کی وجہ سے ممالک اور اقوام تقسیم (ٹکڑے) بھی سکتی ہیں!
حق‘ عدل اور اخلاق کا تقاضا یہی ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے تک وزیراعظم اپنے عہدے سے علیحدہ رہیں۔ پارلیمینٹ میں اکثریت رکھنے والی مسلم لیگ (نواز) کسی دوسرے رکن کو وزیراعظم نامزد کر سکتی ہے۔ جمہوریت رواں دواں رہ سکتی ہے اور جمہوریت کو رواں دواں ہی رہنا چاہئے!
No comments:
Post a Comment