ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
منظر‘ پس منظر‘ پیش منظر!
بڑے کیس کی بڑی بھی گھڑی گزر گئی!
پانامہ کیس میں ’سپرئم کورٹ‘ فیصلے سے ’پاکستان مسلم لیگ‘ کی جیت اور حکمراں جماعت کو حسب دعویٰ ’سرخرو‘ ملی ہے۔ اصولی طور پر پانامہ پیپرز کے بارے میں تفتیش پہلے اور اِس سلسلے میں سپرئم کورٹ سے بعد میں انصاف کا مطالبہ کیا جاتا تاکہ حقائق و شواہد کا جائزہ لینے کی یوں کمی محسوس نہ ہوتی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سمیت سیاسی قائدین جلدبازی نہ کرتے اور ابتدأ میں کمیشن قائم کرنے کی جس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا اب اُسی کو تسلیم کرنے کے سوأ چارہ نہیں پا رہے تو آج صورتحال اور فیصلہ مختلف آ سکتا تھا لیکن حزب اختلاف نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ وقت اور حالات دونوں پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے! سپرئم کورٹ کے فیصلے کے مطابق آئندہ دو ماہ ’کریمنل انویسٹی گیشن‘ کی طرح تفتیش ہو گی۔ شواہد اکٹھے کئے جائیں گے جن کی بنیاد پر سپرئم کورٹ ہی حتمی فیصلہ سنائے گی‘ جس سے وابستہ اُمیدوں کی سانسیں چلتی رہنی چاہیئں۔
سپرئم کورٹ کے حکم پر جو افسران تفتیش کے لئے نامزد ہوں گے اگر وہ کمزوری دکھائیں اور چاہیں بھی تو حقائق کو چھپا نہیں سکیں گے یقیناًسپرئم کورٹ کا فیصلہ اُس نوعیت سے واضح نہیں جیسا کہ ہونا چاہئے تھا لیکن ملک کے وسیع تر مفاد اور سسٹم کو بچانے کے لئے ’مزید تفتیش اور تحقیقات‘ کی اجازت دیتے ہوئے وزیراعظم کو اگر ایک اُور موقع دیا گیا ہے تو اِس میں کوئی حرج بھی نہیں کیونکہ ملک کا نظام اور معاملات بھی اہمیت رکھتے ہیں جنہیں جذبات کی عینک لگا کر نہیں دیکھا جانا چاہئے۔
پانامہ کیس کے فیصلے کا لب لباب یہ ہے کہ پانچ جج صاحبان نے جو ایک بات مشترک طور پر کہی ہے اور جس پر اُن میں اختلاف رائے نہیں وہ یہ ہے کہ ’’وزیراعظم اُور اُن کے اہل خانہ کی جانب سے دیا جانے والا جواب تسلی بخش نہیں تھا‘‘ اِسی وجہ سے ’تفتیشی کمیشن‘ قائم کیا گیا تاکہ بادی النظر میں جو کام سپرئم کورٹ نہیں کر سکی اب وہی کام 2 خفیہ ادارے (آئی ایس آئی اور ایم آئی) پر مبنی تین رکنی ٹیم کرے گی جس کی قیادت وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کو سونپی گئی ہے جو وفاقی حکومت کا ماتحت ادارہ ہے اور جس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر (اُنیس گریڈ عہدے والے آفیسر) کو تفتیش سونپ کر یہ نہیں سوچا گیا کہ اگر اُس سرکاری ملازم کی مدت ملازمت تیس سال سے کم ہوئی تو موصوف اِسی حکومت کے تعینات کردہ (احسان مند) ہوں گے! سوال (جواز) اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا بیس اپریل کا یہی وہ فیصلہ تھا جسے ’’بیس برس‘‘ یاد رکھنے کی قوم کو اُمید دلائی گئی تھی؟
سوال یہ بھی ہے کہ جب سپرئم کورٹ کے سامنے باوجود بار بار استفسار کے بھی شواہد (جوابات) پیش نہیں کئے گئے تو کس طرح اُمید رکھی جا سکتی ہے کہ ایک ’ایڈیشنل ڈائریکٹر‘ کی صدارت میں جو ٹیم تشکیل ہو گی اُس کے سامنے وزیراعظم بمعہ اہل و عیال پیش بھی ہوں گے اور سچ بول کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی بھی مار دیں گے؟ گنتی پھر سے شروع ہو گئی ہے‘ قوم کو ایک اُور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے والوں کو بہرصورت یقینی بنانا ہوگا کہ تفتیش کا عمل ’ساٹھ دن‘ ہی میں مکمل کیا جائے اور اگر وزیراعظم یا اُن کے اہل خانہ اچانک بیمار ہو بھی جائیں تو تفتیش کا عمل آئندہ عام انتخابات تک طول پکڑنے نہ پائے۔
تفتیش کا معیار بھی ہونا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ سیکورٹی خدشات کو جواز بنا کر مذکورہ ٹیم ’وزیراعظم ہاؤس‘ جا کر رسمی کاروائی (بیان ریکارڈ) کر کے ایک ایسی تفتیشی رپورٹ سپرئم کورٹ کے سامنے پیش کرے جس کی روشنی میں اختلافی نوٹ لکھنے والے دو جسٹس صاحبان بھی ایک دوسرے کا سر پکڑ کر بیٹھ جائیں!
بیس اپریل پاکستان کے اُن غریبوں (ہم عوام) کی توہین ہوئی ہے‘ جن کی جان و مال‘ جن کے نام پر لئے جانے والے قرضہ جات اور جن کے ادا ہونے ٹیکس کی کوئی وقعت نہیں! سچ تو یہ ہے کہ سچ تک رسائی کے لئے ہم عوام کو ابھی مزید کچھ دن‘ کچھ ہفتے‘ کچھ سال‘ کچھ دہائیاں اور شاید صدیوں انتظار کرنا پڑے گا۔عربی زبان کا محاورہ ہے کہ ’’انتظار موت سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔‘‘
No comments:
Post a Comment