Thursday, April 20, 2017

Apr2017: The judgement day!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام

دائمی فیصلہ!


پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ’پانامہ انکشافات‘ سے متعلق مقدمے کا فیصلہ نہ صرف ’عہدساز‘ ثابت ہوگا بلکہ اِس سے ملک میں ’’طرز حکمرانی‘‘ کی سمت بھی متعین ہو جائے گی جیسا کہ پاکستان کی پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیئے جانے کا عدالتی فیصلہ اہم تھا‘ اور جس طرح آج بھی پاکستان ’4 اپریل 1979ء‘ کے اُس ایک دن کے حصار سے نہیں نکل سکا‘ جب 1973ء سے 1977ء تک ملک کے 10ویں وزیراعظم اور قبل ازیں 1971ء سے 1973ء تک ملک کے چوتھے صدر رہنے والے ایک مدبر سیاستدان کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ 

بھٹو کا خون ایک ایسا داغ ثابت ہوا‘ جو باوجود کوشش بھی دھل نہ سکا اور اِسی ’آمرانہ اقدام‘ نے پاکستان کی سیاسی سوچ اور انتخابی عمل کو دو واضح حصوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا۔ دنیا اِس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ’سیاست دان‘ ہونے کے معنوی اور اصطلاحی مفہوم پر ہرلحاظ سے پورا اُترتے تھے اور اُن کی سزائے موت کے بعد پاکستان کا طرز حکمرانی مالی وانتظامی بدعنوانیوں کی دلدل میں دھنستا چلا گیا‘ جس سے نکلنے یا اِس میں دھنسے رہنے کا انتخاب ’پانامہ مقدمے کے فیصلہ‘ سے ثابت ہوگا۔ قیام پاکستان کے بعد‘ ذوالفقار علی بھٹو کا بذریعہ عدالت قتل اور عدالت ہی دانش و بصیرت میں ’پانامہ کیس کے فیصلے‘ سے سمجھنا ہوگا کہ سپرئم کورٹ آئندہ حکمرانوں یا اُن کے اہل خانہ کو کتنی ہی کڑی سے کڑی سزا‘ اور نااہل قرار دے بھی دے تو اِس سے آسمان نہیں ٹوٹے گا‘ نہ پاکستان کو لوٹا ہوا سرمایہ واپس ملے گا‘ لیکن بدعنوانی کے ارتکاب میں ’خاص و عام‘ کا امتیاز ختم یا پھر ہمیشہ کے لئے برقرار رہے گا۔ 

ایک بات تو طے ہے کہ پانامہ مقدمے کا فیصلہ آنے کے بعد (post-panama) پاکستان بہرصورت تبدیل ہوگا کیونکہ سپرئم کورٹ میں ایک مرتبہ پھر صرف کسی ایک شخص یا سیاسی جماعت کے ’سیاسی مستقبل‘ کا نہیں بلکہ یہ پاکستان کی قسمت کا ’ہمیشہ ہمیشہ کے لئے (دائمی) فیصلہ‘ ہونے جا رہا ہے۔ کیا ہمیں ایک ایسے طرز حکمرانی کی ضرورت ہے جس میں حکمران خاندانوں کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ جب چاہیں اور جس طرح سے چاہیں ملکی قوانین و قواعد کو پائمال کریں؟ اداروں پر نااہل اور منظورنظر افراد مسلط کرنے کا اختیار حکمرانوں کو ملنا چاہئے؟ 

کیا عہدے اختیارات اور سرکاری وسائل سے ذاتی اثاثے میں اضافہ یا مشکوک ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی کی غیرقانونی طریقوں سے بیرون ملک منتقلی یا حسب آمدن ٹیکس کی اَدائیگی سے گریز اور کسی قومی اِدارے سے حلیفہ بیانات کے باوجود بھی اثاثے پوشیدہ رکھنے (دروغ گوئی) کا ارتکاب جائز سمجھا جائے؟ 

پانامہ کیس کے فیصلے پر صرف ایک خاندان ہی کا نہیں بلکہ اُن تمام پاکستانی خاندانوں کی ساکھ اُور مستقبل کے سیاسی و سماجی کردار کا بھی اِنحصار ہے‘ جن کی سانسیں ’’اپریل دوہزارسولہ‘‘ میں منظرعام پر آنے والے ’’ایک کروڑ ساڑھے گیارہ لاکھ‘‘ سے زائد دستاویزات منظرعام پر آنے کے بعد سے اٹکی ہوئی ہیں! جن پاکستانیوں کا یہ خیال ہے کہ صرف ’پانامہ لیکس‘ کے ذریعے ماضی و حال کے حکمرانوں کے کرتوتوں کا بھانڈا پھوٹا ہے تو وہ غلطی پر ہیں کیونکہ ابھی تو متحدہ عرب امارات میں اثاثے اور سوئزرلینڈ کی بینکوں میں خفیہ طور پر اکاونٹس رکھنے والوں سے بھی نمٹنا باقی ہے لیکن یہ سب صرف اور صرف اُسی صورت ممکن ہوگا‘ جبکہ ’پانامہ مقدمے‘ کا فیصلہ کا آج (بیس اپریل) سنائے جانے کا اعلان کردیا گیا ہے لیکن اِس فیصلے کو سیاسی مفادات کی عینک لگا کر (تنگ نظری سے) نہیں بلکہ وسیع تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔

رواں برس بائیس فروری سے محفوظ ہونے والا پانامہ کیس کا فیصلہ کسی سیاسی جماعت کی مخالفت یا مؤقف کو درست ثابت کرنے کا جواز نہیں بلکہ ایک نیا دن بن کر طلوع ہونا چاہئے۔ ایک مرتبہ پھر نظریں سپرئم کورٹ پر ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی یاد آ رہی ہے یقیناًآج پاکستان کی اُس ساٹھ فیصد آبادی کی قسمت کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے‘ جن کے بنیادی حقوق ادا نہیں ہوئے۔ جنہیں انصاف نہیں ملا اُور جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں!

No comments:

Post a Comment