ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پشاور کے حقوق: جلد اَز جلد!
وحشت ہو یا نہ ہو لیکن پشاور کا نقشہ جس زوایئے سے بھی دیکھیں اُلٹا دکھائی دیتا ہے! تعمیروترقی کے نام پر ’’اعمال کی کہانی‘‘ کا سرنامہ کلام یہ ہے کہ ’’پشاور کا ماضی و حال ایک جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ آخر وہ تبدیلی کیوں نہیں آ رہی جس کا ہر عام انتخاب میں وعدہ کیا جاتا ہے جبکہ ہر دور حکومت میں‘ ہر ترقیاتی حکمت عملی میں اُور یعنی ہر مالی سال کے آغاز پر ’ترقیاتی کاموں‘ کے لئے وسائل باقاعدگی سے مختص اُور خرچ کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں؟
سبھی سوالات کا جواب ’سیاسی و انتخابی ترجیحات‘ ہیں جن کی وجہ سے فیصلہ ساز مصلحتوں کا شکار رہے ہیں۔ ترقیاتی عمل کے لئے ’ذمہ دار اِداروں‘ کے درمیان آپسی ’تعاون نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی ’عدم مربوطیت‘ کے باعث نہ صرف قیمتی مالی وسائل ضائع ہوئے بلکہ کئی ایسے علاقے بھی ہیں‘ جہاں ترقی کے نام پر حکومتی اِداروں کی کارکردگی ’افتتاحی تختیاں‘ تک محدود دکھائی دیتی ہے! ’خواب سہانا (سترہ اَپریل)‘ اُور ’ترجیحات: پشاور کے مفادات (اَٹھارہ اپریل)‘ کے ذریعے پشاور میں ’ترقی کا جو منظرنامہ‘ پیش کیا گیا‘ اُس میں تحریک انصاف کی صوبائی و ضلعی حکومتوں نے تبدیلی (اصلاح) کے لئے جو قابل ذکر (ٹھوس) اقدامات کئے اُن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ’پشاور ہیرٹیج ٹریل ڈویلپمنٹ پراجیکٹ‘ کے تحت ترقیاتی امور سے متعلق جملہ 12 اِداروں کو باہم مربوط کر دیا گیا ہے اُور اُمید ہے کہ گورگٹھڑی سے چوک یادگار تک ترقی کا جو خاکہ اور منصوبہ بنایا گیا وہ بروقت مکمل کر لیا جائے گا۔ چین سے آمدہ اطلاعات کے مطابق ’’اِقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے‘‘ میں ’پشاور کو شامل‘ کرتے ہوئے جن پانچ منصوبوں کے لئے مفاہمت کی یاداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں اُن میں پشاور کا رنگ روڈ مکمل کرنے کے لئے 12ارب روپے ‘ چمکنی کے مقام پر نئے جنرل بس اسٹینڈ کی تعمیر کے لئے 10ارب روپے‘ موجودہ جنرل بس اسٹینڈ میں ’سی پیک ٹاور‘ کے لئے 5 ارب روپے‘ ریگی ماڈل ٹاؤن شپ میں 22 ارب روپے کا ’’ہیلتھ سٹی‘‘ اُور کمرشل و ریزیڈینشل سنٹر کے لئے 11 ارب روپے‘ کی بیرونی سرمایہ کاری آئے گی اور مفاہمت کی دستاویزات پر دستخطوں کے بعد صوبائی حکومت اِن منصوبوں کے ’پی سی ون‘ تیار کرے گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ گورگٹھڑی سے متعلق ایک ترقیاتی منصوبے پر چین سے سرمایہ کاری متوقع ہے!
تخیلات کی حد نہیں۔ ترقی کے امکانات اور ضروریات لامحدود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ’ہیرٹیج ٹریل ڈویلپمنٹ پراجیکٹ‘ پشاور کی قسمت بدل سکتا ہے اگر اِس پر کام حسب حکمت عملی شروع اور اِسے ’دن رات‘ ایک کرکے مکمل کر لیا جائے اور اگر ایسا کر لیا گیا تو کم سے کم اندرون پشاور سے تحریک انصاف کو انتخابی شکست نہیں دی جا سکے گی! لیکن تعجب خیز امر یہ ہے کہ ایک طرف وزیراعلیٰ اور ضلعی ناظم نے آثار قدیمہ کے ماہر کو ’شہر کی ترقی‘ سونپی جبکہ اُن کا علم و تجربہ شہری ترقی سے متعلق نہیں ہے اور دوسری جانب اُسی ماہر آثار قدیمہ کو اپنے ساتھ چین کے دُورے پر لے گئے ہیں جبکہ ضرورت اِس امر کی تھی کہ گورگٹھڑی سے چوک یادگار تک تعمیرات کے لئے تمام تر توانیاں‘ وسائل اور دستیاب وقت کا ہر منٹ مرکوز کر دیا جاتا۔ بہرکیف گورگٹھڑی سے چوک یادگار تک ’450 میٹر‘ طویل سڑک کے دونوں اطراف 16 اضافی گلیوں کی تعمیر بھی منصوبے کے حصہ ہے جسے گذشتہ سال منظور کر لیا گیا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر اِس ترقیاتی کام شروع نہ ہوسکا اور سرکاری اداروں کی کارکردگی سے مایوسی کی یہی وجہ رہی ہوگی کہ ’سول ورک‘ کا کام متعلقہ حکومتی ادارے کو دینے کی بجائے ایک ماہر آثار قدیمہ کو سونپ دیا گیا کہ چلو کوئی تو اِس کو انجام تک پہنچائے گا۔ حسب منصوبہ بندی رواں برس ماہ اگست کے بعد تعمیراتی کام (سول ورک) شروع ہو گا‘ جس کے ڈیزائن کی پہلے ہی منظوری دی جا چکی ہے اور اگر حالات معمول پر رہتے ہیں تو اُمید ہے کہ اگست میں شروع ہونے والا کام دسمبر کے آخر تک مکمل کر لیا جائے گا۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ دسمبر 2016ء سے ’گورگٹھڑی‘ کی عمارت کو صرف خیبرپختونخوا ہی نہیں بلکہ پاکستان کا پہلا ’آرکیالوجیکل پارک‘ قرار دیا جا چکا ہے لیکن اِس بارے شاید ہی اہل پشاور کو علم ہو کہ ’آرکیالوجیکل پارک‘ کیا ہوتا ہے؟
عام آدمی (ہم عوام) کی آثار قدیمہ سے متعلق علوم سے لاعلمی و اپنے ہی پشاور کے تاریخی تعمیراتی اثاثوں سے لاتعلقی نے بہت سے سرکاری محکموں کا کام آسان کر دیا ہے‘ جنہیں نمائشی بورڈ یا سنگ بنیاد و افتتاحی تختیاں آویزاں کرنے سے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ پشاور کے کم سے کم پانچ خاندان ایسے ہیں جنہوں یہاں کے مختلف انتخابی حلقوں سے بطور اُمیدوار حصہ لینے کا ٹھیکہ اُٹھا رکھا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ پشاور کو ترقی سے محروم رکھنا یا غیرپائیدار ترقی اُن کے لئے مستقبل میں کمائی کے کتنے دروازے کھول دے گی! گورگٹھڑی سے چوک یادگار تک جن گلیوں کو ترقیاتی حکمت عملی میں شامل کیا گیا ہے‘ اُن کے بارے مقامی افراد کو اعتماد میں لینے کے لئے ذرائع ابلاغ سے زیادہ کوئی دوسرا مؤثر پلیٹ فارم نہیں۔
گورگٹھڑی کے احاطے میں قائم شادی ہال اور دیگر پختہ تعمیرات کو ’تجاوزات‘ قرار دے کر مسمار کرنے کا حکم پشاور ہائی کورٹ نے ایک مقدمے کی سماعت مکمل کرنے کے بعد نہایت سوچ سمجھ کر دیا تھا۔ مذکورہ مقدمہ گرینز گروپ آف ہوٹلز اور میونسپل کارپوریشن پشاور کے درمیان 28 مارچ 2016ء کو عدالت کے روبرو پیش ہوا‘ جس پر فیصلہ یکم اپریل 2016ء کو آیا اور اِس فیصلے کی رو سے شادی ہال سمیت گورگٹھڑی کے احاطے میں کی جانے والی تمام تعمیرات کو مسمار کرنا تھا۔ اگر اُنیس صفحات پر مشتمل اِس عدالتی فیصلے پر کئی مضامین تحریر کئے جا سکتے ہیں کیونکہ اِس میں دیگر صوبوں کی مثالیں اور اُس جعل سازی کا بھی ذکر بطور حوالہ موجود ہے‘ جو تحریک انصاف سے قبل پشاور کی ضلعی اورصوبائی حکومتوں کے فیصلہ سازوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کیا۔ جو قارئین اِس عدالتی فیصلے کی دستاویز کا بذات خود تفصیلی مطالعہ کرنا چاہیں وہ بذریعہ برقی مکتوب (اِی میل) peshavar@gmail.com یا ٹوئٹر اکاونٹ @peshavar رابطہ کرکے اِس فیصلے کی ’پی ڈی ایف فائل‘ بلاقیمت حاصل کر سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ عدالت کے واضح احکامات کے باوجود گورگٹھڑی کے احاطے میں مذکورہ شادی ہال اور دیگر پختہ تعمیرات (تجاوزات) مسمار نہیں کی جاسکیں؟ یہ سوال جب چین کے دورے پر گئے ڈائریکٹر آرکیالوجی ڈاکٹرعبدالصمد سے بذریعہ ’واٹس ایپ‘ پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ ’’شادی ہال اور دیگر تعمیرات کا قبضہ اُنہیں حاصل ہوگیا ہے لیکن مذکورہ عمارت کو فوری طور پر نہیں لیکن بہرحال مسمار کیا جائے گا۔‘‘
ڈائریکٹر آرکیالوجی کو سمجھنا ہوگا کہ تحریک انصاف کی صوبائی و ضلعی حکومت کا دور کسی نعمت سے کم نہیں اور اگر انہوں نے موجودہ دور حکومت میں یہ کام نہ کیا تو آئندہ عام انتخابات کے نتائج مختلف ہو سکتے ہیں‘ عین ممکن ہے تحریک انصاف کو ماضی کی طرح پشاور شہر سے اکثریتی نشستیں حاصل نہ ہوں۔ ڈائریکٹر آرکیالوجی بخوبی جانتے ہیں کہ ایک وقت میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان گورگٹھڑی کا دورہ کرنے کے خواہشمند تھے اور اِس سلسلے میں استقبالیہ کے انتظامات بھی مکمل کر لئے گئے تھے لیکن آخری لمحے ایک رکن صوبائی اسمبلی نے عمران خان کو اپنے ہی حلقے کی ’’شان و شوکت‘‘ والی اِس خاص عمارت کے دورہ کرنے سے روک دیا۔ گورگٹھڑی کی اہمیت اور احساس ہر کسی کا نصیب نہیں۔ ضروری نہیں کہ پشاور میں رہنے والا ہر شخص اِس کی محبت سے سرشار ہو اُور یہ بھی لازم نہیں کہ پشاور شناسی یہاں آ کر آباد ہونے والوں کی رگوں میں خون کی طرح گردش کر رہی ہو! لہٰذا تحریک انصاف کی صوبائی اور ضلعی حکومتوں سے ملنے والی توجہ‘ وسائل اور پشاور کے حقوق اَدا کرنے کی شدید خواہش جس قدر جلد بلکہ ’جلدازجلد‘ عملاً پوری کر دی جائے‘ اُتنا ہی بہتر اور پشاور کے حق میں مفید ہوگا۔
No comments:
Post a Comment