Tuesday, April 18, 2017

Apr2017: Peshawar & Developmental priority!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ترجیحات: پشاور کے مفادات!
چین کے سلسلۂ سلاطین ’ٹانگ ڈائنسٹی (Tang dynasty)‘ کا دور بادشاہت 618ء سے 907ء رہا اُور اِس دوران بدھ مت کے ماننے والے چینی مفکر‘ سیاح اُور مترجم ’’شان زانگ (Xuanzang)‘‘ نے پشاور سمیت برصغیر کے اُن مختلف علاقوں کا دورہ کیا‘ جہاں بدھ مت کی عبادت گاہیں قائم تھیں۔ ’شان زانگ (پیدائش 602ء۔ وفات: 664ء)‘ نے ساتویں صدی کے اوائل میں پشاور کا دورہ بھی کیا اُور یہاں بدھ مت کے مرکز کا ذکر کرتے ہوئے بطور خاص اُس عمارت کا ذکر کیا جہاں ’بدھ مت کے بانی گوتم بدھ‘ کے زیراستعمال و منسوب (مقدس) اشیاء جس عبادت گاہ (stupa) میں رکھی گئیں تھیں وہ مقام آج کے پشاور میں ’گورگٹھڑی (Gor Khatri)‘ کہلاتا ہے اُور یہی مقام بدھ مت کے ماننے والوں کے لئے سالانہ مذہبی تہوار کی جگہ بھی تھی جہاں آنے والے یاتری اپنے بال منڈوا کر مذہبی رسومات اَدا کیا کرتے تھے۔ 

پشاور صرف قدیم ترین تاریخی شہر ہی نہیں بلکہ قدیم ترین اور ایک ایسا ’زندہ تاریخی‘ شہر کا درجہ رکھتا ہے جو پورے جنوب مشرق ایشیاء میں ممتاز ہے اور پشاور ہی ’گندھارا تہذیب کا مرکز‘ رہا جس کا ذکر تاریخ کی ہر کتاب میں کسی نہ کسی حوالے سے موجود ہے‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پشاور کا ذکر کئے بغیر برصغیر (پاک و ہند) اُور بدھ مت کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی تو غلط نہیں ہوگا لیکن کیا پشاور کی اِس قدیمی و تاریخی اہمیت اور بدھ مت کے مرکزی شہر ہونے جیسی ’مقدس حیثیت‘ کا کماحقہ اِحساس کیا گیا؟ جو دنیا بھر سے سیاحوں کے لئے کشش کا باعث بن سکتا ہے اور بالخصوص ’چین پاکستان اِقتصادی راہداری (سی پیک)‘ جیسے کثیرالجہتی ترقیاتی منصوبے میں جہاں دیگر شعبوں کو ’ترقیاتی حکمت عملی‘ کا حصہ بنایا گیا ہے‘ وہیں بدھ مت (buddhism) کے ماننے والوں کے لئے پشاور کی ’مقدس حیثیت‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر خیبرپختونخوا میں ’’مذہبی سیاحت (religious tourism)‘‘ کے شعبے کو بھی توجہ دی جائے تو نہ صرف اِس شعبے میں غیرملکی سرمایہ کاری کے وسیع امکانات موجود ہیں بلکہ پشاور سے عوامی جمہوریہ چین کی محبت و دلچسپی ’سی پیک‘ ترقیاتی منصوبے کے تصور و ارادے سے پہلے ہی سامنے آ چکی تھی اور یہی وجہ تھی کہ ’اُرومچی (Urumqi)‘ کو پشاور کا جڑواں شہر قرار دیا گیا اور پشاور صرف چین ہی کا نہیں بلکہ انڈونیشیا کے مکاسر (Makassar) اور یمن کے صنعاء (Sana'a) کا بھی ’’جڑواں شہر‘‘ قرار ہے لیکن اِس نسبت و تعلق کا پشاور اُور اہل پشاور (عام آدمی) کو کوئی قابل ذکر‘ وسیع البنیاد فائدہ نہیں ہوا تو اِس کے لئے عام آدمی (ہم عوام) نہیں بلکہ مختلف اَدوار کے سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ ساز ذمہ دار ہیں‘ جن کا دلی تعلق پشاور سے خاطرخواہ مضبوط نہیں رہا اور اشد ضرورت ہے کہ باہمی تعاون کے وسیع و عریض موجود اور نت نئے امکانات کی تلاش اور انہیں قابل عمل حکمت عملیوں میں ڈھالنے پر توجہ دی جائے۔ بطور خاص یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ ’دسمبر دوہزار تیرہ‘ میں ’اِٹلی‘ کے صوبہ ’نے پُلس (Naples)‘ کے علاقے ’اجے رولا (Agerola)‘ کو پشاور کو جڑواں شہر بنانے کی پیشکش کی گئی کیونکہ سکھ دور پشاور کے گورنر (اٹلی نژاد فوجی) جنرل ایویٹیبل (General Paolo Avitabile) کا تعلق اِسی شہر سے تھا‘ جسے اہل پشاور ’ابوطبیلہ‘ کہتے اور اُنہی کے دور میں قلعہ بالاحصار کی مضبوطی و بلندی‘ نکاسئ آب کے لئے شاہی کھٹہ کی تعمیر سمیت یہاں کے باغات کی خوبصورتی و سرسبزی میں اضافہ کیا گیا لیکن یہ سبھی احسانات اپنی جگہ توسیع اور انہی خطوط پر اگر آگے بڑھائے جاتے تو پشاور پاکستان کا ایسا واحد شہر ہوتا‘ جہاں ترقی یورپی ممالک کی طرز پر مثالی ہوتی۔ ماضی و حال کی ترقیاتی حکمت عملیوں اور ترجیحات کا موازنہ کرتے ہوئے جو بنیادی نکتہ حاصل فکر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ پشاور کی جس قدر ترقی رنجیت سنگھ (Ranjeet Singh) کے دور اُور بعدازاں برطانوی راج کے دوران ہوئی اُس کا تعلق اُور مقصد ’مستقبل کی ضروریات‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا جبکہ ہمارے ہاں ترقیاتی حکمت عملیوں کا محورومرکز اور سوچ ’’صرف اور صرف درپیش مسائل کا جز وقتی (ایڈہاک) حل (نمودونمائش)‘‘ ہوتا ہے اُور یہی سبب ہے کہ ماضی و حال کے کئی ایسے ترقیاتی منصوبے ہیں‘ جن کا آج نام و نشان بھی نہیں رہا۔ 

بہرحال ذکر’’پشاور کے مفادات‘‘ اور ترجیحات کا ہو رہا ہے کہ کس طرح بیرون ملک سرمایہ کاروں اور دلچسپی رکھنے والے دوست ممالک کی توجہ حاصل کرتے ہوئے ترقیاتی عمل میں اُن کی شراکت داری ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ چین‘ اِنڈونیشیا اُور یمن نے اپنے حصے کا کام کر دیا جبکہ اٹلی کے شہر ’اَجے رولا‘ کے میئر (mayor) کی جانب سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کو تحریری درخواست معروف برطانوی فلم ساز اُور تاریخ داں ’بوبی سنگھ بانسال (Boby Singh Bansal)‘ کے ذریعے دسمبر دوہزار تیرہ میں پہنچائی جا چکی ہے‘ جس پر تحریک انصاف کی صوبائی و مرکزی قیادت میں متوقع مشاورت ’قومی سطح پر اِصلاحات کے لئے اِحتجاجی سیاسی لائحہ عمل (جدوجہد)‘ کی نذر ہو گئی! 

پشاور کو نظرانداز کرنے کے یہی وہ قابل مذمت روئیے ہیں کہ ہرمرتبہ عام انتخابات کے موقع پر اہل پشاور کی توجہ اِس جانب مبذول کی جاتی ہے کہ وہ ’پشاور کے مفادات‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے اِنتخابی اِتحاد تشکیل دیں‘ جو صوبائی اسمبلی کی گیارہ اور قومی اسمبلی کی چار نشستوں پر ’پشاور کے نام پر‘ پشاور کے لئے ووٹ حاصل کریں اُور جن کے پیش نظر ’سب سے پہلے پشاور‘ رہے۔ چاروں صوبوں کی زنجیر اُور قومی سیاست کے نام پر پنجاب و سندھ کی سیاسی جماعتوں نے جس قدر اِستحصال پشاور کا کیا ہے‘ شاید ہی ملک کا دوسرا کوئی بھی بڑا شہر اِس قدر محروم اُور مسائل سے دوچار ہو! کیا ہم پشاور میں شہری بنیادی سہولیات کے معیار کا موازنہ لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد یا حتیٰ کہ فیصل آباد اُور ملتان سے کر سکتے ہیں؟

مذہبی مناسبت رکھنے والے مقدس مقامات کو بطور ’سیاحتی کشش‘ استعمال کرنے کا نظریہ (تصور) نیا نہیں بلکہ عالمی مثالیں تو اپنی جگہ لیکن صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی دلچسپی دیکھتے ہوئے ’عالمی بینک‘ نے سکھ مذہب کی پانچ عبادت گاہوں کے لئے مالی امداد دینے کا اعلان کیا اُور یہ اُمید ظاہر کی کہ ’مذہبی سیاحت‘ سے صوبہ پنجاب کو جو سالانہ پچاس لاکھ ڈالر آمدنی ہو رہی ہے‘ اگر بدھ مت کے مقدس مقامات کی توسیع و مرمت اور سیاحوں کے لئے خصوصی سہولیات و مراعات کی فراہمی ممکن بنائی جائے تو یہ سالانہ منافع 30 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر سکتا ہے! روئیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ 

نکتۂ نظر وسیع کرنا ہوگا۔ حال سے زیادہ مستقبل کی تہہ دار ضروریات اور تقاضوں کا ادراک ذاتی و نسلی لسانی مفادات کی قربانی چاہتا ہے۔ بار بار (متواتر) یاد دہانی کے باوجود بھی اَگر ’پشاور ایک ترجیح‘ اُور ’پشاور ہی ترجیح‘ قرار نہیں پائے گی‘ اُس وقت تک پشاور پر حکومت کرنے والوں کے نام اُور چہرے تو بدلتے رہیں گے لیکن پشاور کی قسمت نہیں بدلے گی‘ جو پارلیمانی اِداروں میں نمائندگی سے لیکر معاشرتی و سماجی سطح پر تنازعات کے حل اُورترقیاتی ترجیحات کے تعین کے لئے ’وسیع البنیاد اتفاق و اتحاد‘ کی متقاضی ہے۔

No comments:

Post a Comment