ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خواب سہانا!
اکتیس مئی دوہزار تیرہ: ’خیبرپختونخوا قانون ساز اسمبلی‘ کے اراکین صوبے کے ’بائیسویں وزیراعلی‘ کے لئے پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے پرویز خٹک کو اکثریت رائے یعنی 84 ووٹوں سے منتخب کیا جبکہ اُن کے مدمقابل پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے حمایت یافتہ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کے نامزد اُمیدوار مولانا لطف الرحمن 37 اراکین کی حمایت حاصل کر سکے اور یوں ایک روز قبل اسپیکر کے عہدے پر فائز ہونے والے اسد قیصر کے لئے اپنے ہی ’ہم جماعت‘ کی بطور ’وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا‘ کامیابی کے اعلان سے ایک ایسا دور شروع ہوا‘ جس میں صوبائی حکومت سے انقلابی و جنونی تبدیلیوں اور اصلاحات کی توقعات آسمان سے باتیں کر رہی تھیں بالخصوص پشاور سے صوبائی اسمبلی کی 11 نشستوں پر کامیاب ہونے والوں کے سامنے ترقی سے محروم ایک ایسا شہر تھا‘ جس کے وسائل پر آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے سبب پینے کے صاف پانی کی قلت‘ نکاسئ آب کا اَبتر نظام اُور کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) ٹھکانے لگانے جیسے تین بنیادی کام بحرانوں کی صورت منتظر تھے اور یہ مسائل آج بھی حل نہیں ہوسکے تو ذمہ دار کون ہے؟
پندرہ اپریل دوہزار سترہ: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے ’’پشاور ہیرٹیج ٹریل‘‘ کے نام سے ’کثیرالجہتی‘ ترقیاتی منصوبے کی منظوری دی‘ جس کے تحت اندرون شہر ہر قسم کی گاڑیوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔ سڑکیں کشادہ کرنے کے ساتھ تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے گا۔ ’ٹف ٹائلز‘ سے فٹ پاتھ بنائے جائیں گے۔ بجلی‘ ٹیلی فون کی تاریں‘ نکاسئ آب سمیت تمام یوٹیلیز زمین دوز بنائی جائیں گی۔ قدیمی تاریخی عمارتوں کی تعمیرومرمت‘ بحالی اُور آرائش کی جائے گی۔ اِس منصوبے میں شہری ترقی اور تعمیرات کے 12 محکمے ’آرکیالوجی (آثارقدیمہ)‘ کی معاونت کریں گے اور اِس پورے منصوبے کی نگرانی ضلع ناظم اُور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی سربراہی میں تشکیل پانے والی کمیٹیاں کریں گی۔ پہلے مرحلے میں گورگٹھڑی (تحصیل) سے بازار کلاں‘ مینا بازار‘ گھنٹہ گھر تا چوک یادگار تک کھدائی کر کے دن رات کام کیا جائے گا تاکہ ’’تین مہینے (کی ریکارڈ مدت)‘‘ میں یہ کام مکمل کر لئے جائیں۔
پندرہ اپریل دوہزار سترہ: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے ’’پشاور ہیرٹیج ٹریل‘‘ کے نام سے ’کثیرالجہتی‘ ترقیاتی منصوبے کی منظوری دی‘ جس کے تحت اندرون شہر ہر قسم کی گاڑیوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔ سڑکیں کشادہ کرنے کے ساتھ تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے گا۔ ’ٹف ٹائلز‘ سے فٹ پاتھ بنائے جائیں گے۔ بجلی‘ ٹیلی فون کی تاریں‘ نکاسئ آب سمیت تمام یوٹیلیز زمین دوز بنائی جائیں گی۔ قدیمی تاریخی عمارتوں کی تعمیرومرمت‘ بحالی اُور آرائش کی جائے گی۔ اِس منصوبے میں شہری ترقی اور تعمیرات کے 12 محکمے ’آرکیالوجی (آثارقدیمہ)‘ کی معاونت کریں گے اور اِس پورے منصوبے کی نگرانی ضلع ناظم اُور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی سربراہی میں تشکیل پانے والی کمیٹیاں کریں گی۔ پہلے مرحلے میں گورگٹھڑی (تحصیل) سے بازار کلاں‘ مینا بازار‘ گھنٹہ گھر تا چوک یادگار تک کھدائی کر کے دن رات کام کیا جائے گا تاکہ ’’تین مہینے (کی ریکارڈ مدت)‘‘ میں یہ کام مکمل کر لئے جائیں۔
’’پشاور ہیرٹیج ٹریل ڈویلپمنٹ پراجیکٹ‘‘ میں محکمۂ آثار قدیمہ کو شامل کرنا خوش آئند ہے لیکن ناقابل فہم بات یہ ہے کہ آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر (سربراہ) بننے سے ڈاکٹر عبدالصمد ’گورگٹھڑی (تحصیل)‘ کی عمارت کسی بھی قسم تجارتی یا ایسی صنعتی و کاروباری سرگرمی کے لئے استعمال کے سب سے بڑے مخالف (ایڈوکیٹ) تھے اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ’آف دی ریکارڈ‘ ایسی تکنیکی (تفصیلی) معلومات فراہم کیا کرتے تھے‘ جس سے اُس وقت کے ڈائریکٹر آرکیالوجی‘ صوبائی وزیر سیاحت و ثقافت‘ وفاقی حکومت اُور ضلعی حکومت کو ’گورگٹھڑی‘ کی تاریخی اہمیت کا احساس ہو۔ آثار قدیمہ کے قواعدوضوابط کی روشنی میں ’’گورگٹھڑی کے درودیوار میں چاہے وہ مغلیہ عہد کی تعمیرات ہوں یا ڈھائی ہزار سال قبل سے تعلق رکھتے ہوں‘ اُن میں ایک کیل بھی نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ یہ ایک عالمی اثاثہ ہے اور اِسے ’پاکستان کا پہلا آرکیالوجیکل پارک‘ بنایا جانا چاہئے۔ وہ سبھی تحاریک نجانے کیوں ختم ہو گئیں اور آج ’محکمۂ آثار قدیمہ‘ گورگٹھڑی کے ایک حصے میں مغلیہ عہد کی اُس سرائے کو ’آرٹیزن ویلیج‘ بنانا چاہتا ہے جس منصوبے میں سنگین نوعیت کی مالی بدعنوانیاں پائی جاتی ہیں اور اگر وزیراعلیٰ سمیت پشاور سے منتخب ہونے والے تحریک انصاف کے غیرمقامی اراکین صوبائی اسمبلی فرصت کے کسی لمحے ماضی میں ہوئی محکمہ ثقافت و سیاحت کی کارستانیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ کس طرح افسرشاہی اور اُن کے ہم منصبوں نے ’پشاور کے وسائل‘ کی لوٹ مار کی اور بجائے ماضی کی غلطیوں کا ازالہ اور ملوث کرداروں کو بے نقاب کرکے سزا دینے ایک ایسا منصوبہ جاری رکھنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے جو کسی بھی صورت ’گورگٹھڑی‘ کے مفاد میں نہیں اور اِس سلسلے میں رہنمائی کے لئے پشاور ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے۔
وقت تیزی سے گزر رہا ہے‘ جس کی اہمیت کا احساس ہونا چاہئے۔ خیبرپختونخوا کے نئے وزیراعلیٰ کا صوبائی اسمبلی سے انتخاب (اکتیس مئی دو ہزار تیرہ) سے ’’پشاور ہیرٹیج ٹریل‘‘ کے اعلان (پندرہ اپریل دوہزار سترہ) تک موجودہ صوبائی حکومت کے ’’تین سال‘ دس ماہ اُور پندرہ دن‘‘ قطعی معمولی عرصہ نہیں۔ اَگر اِن ’’1415 ایام‘‘ کی قدروقیمت کا احساس کر لیا گیا ہوتا تو آج پشاور کی یہ حالت نہ ہوتی۔ چودہ سو پندرہ دنوں میں سے اگر تمام سرکاری اور ہفتہ وار تعطیلات منہا بھی کر لی جائیں تو بھی 960 دن (ورکنگ ڈیز) میں بہت کچھ ایسا ممکن بنایا جا سکتا تھا‘ جس سے پشاور کو اُس کا شاندار ماضی جیسی صاف ستھری‘ معطر آب و ہوا نہ سہی لیکن کم سے کم ایک ایسا ’جدید شہر‘ ضرور بنایا جا سکتا تھا‘ جس کی پاکستان میں مثال نہ ملتی!
’’پشاور ہیرٹیج ٹریل‘‘ کے ذریعے پشاور کی ترقی کا ’سہانا خواب‘ ایک نئے دور میں داخل ہوگیا ہے۔
تاریخ و ثقافت اُور آثار قدیمہ کی حفاظت اور اِن کی شان و شوکت بحال کرنے کے لئے ’پائیدار و متوازی ترقی‘ کے جو ’’نئے اہداف‘‘ (بلندبانگ دعوے) مقرر (ارشاد) کئے گئے ہیں‘ اُن کی کامیابی کے لئے ڈھیروں دعاؤں اور تمناؤں کے ساتھ‘ تحریک انصاف کی مرکزی و صوبائی قیادت سے دست بستہ عرض ہے کہ آئندہ عام انتخابات اگر اپنے مقررہ وقت پر ہوئے اور پانامہ پیپرز سے متعلق سپرئم کورٹ کا فیصلہ قبل ازوقت عام انتخابات کا مؤجب نہ بنا تو اُن کے پاس (صوبائی حکومت کی) کارکردگی دکھانے کے لئے صرف اور صرف 390 دن باقی ہیں اور اِن 9360 گھنٹوں کے ہر پل کا اگر درست (مؤثر) استعمال کر لیا گیا تو کوئی وجہ نہیں کہ ’پشاور‘ سے صوبائی اسمبلی کی گیارہ نشستیں آئندہ بھی تحریک انصاف ہی کے حصے میں آئیں گی بصورت دیگر پانچ سالہ آئینی مدت (کم و بیش 1825 دن) کے اختتام اور نئے انتخابی نتائج کے بعد ہاتھ ملنے اور ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہرانے کے سوأ کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا‘
No comments:
Post a Comment