Saturday, April 29, 2017

Apr2017: CPEC & exclusivity!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
انحصاریت
’چین پاکستان اِقتصادی راہداری (سی پیک)‘ منصوبے سے ’خیبرپختونخوا کے اِقتصادی مفادات‘ بھی لاتعداد اُمیدوں اور خوابوں کی طرح وابستہ ہیں۔ اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا حکومت کا ایک اعلیٰ سطحی وفد وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی قیادت میں رواں ماہ ’سولہ سے اٹھارہ اپریل‘ عوامی جمہوریہ چین دورہ مکمل کرنے کے بعد واپس لوٹ آیا ہے اور ہر سرکاری دورے کی طرح اِس مرتبہ بھی ’کامیابی کا دعویٰ‘ کیا جارہا ہے‘ جس کی تصدیق آئندہ چند برس میں خودبخود سامنے آ جائے گی۔ خیبرپختونخوا کے وفد نے چین حکومت اور نجی اداروں کے ساتھ مجموعی طور پر 82 منصوبوں سے متعلق مفاہمت کی یاداشتوں (ایم اُو یوز) پر دستخط کئے‘ جن سے مجموعی طورپر ’دواِعشاریہ چار کھرب روپے‘ مالیت کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔

ترقی کا ہر کام‘ اپنی ہر ذمہ داری ’سی پیک‘ سے منسلک کرنا کہاں کی سمجھ داری ہے اور یہ حکمت عملی خیبرپختونخوا کی ثقافت‘ رہن سہن اُور بول چال پر کس قدر مثبت اور منفی اثرات مرتب کرے گی‘ اِس بارے میں کوئی سوچنا ہی نہیں چاہتا۔ سب کی نظریں چین کی آسمان سے باتیں کرتی ترقی پر مرکوز ہیں‘ جس کی بنیادیں ایک مخلص و ایماندار قیادت نے رکھی تھیں! کیا ہم کسی ایسی بند گلی کے آخری حصے تک آ پہنچے ہیں جہاں سے واپسی اور مزید سفر کی تدابیر سجھائی نہیں دے رہیں؟

کہیں چین چین کرتے ہم اپنی چال ہی سے تو ہاتھ نہیں دھو بیٹھیں گے؟ اُور اگر جان کی امان ہو تو فیصلہ سازوں سے سب سوالوں کا ایک ہی سوال پوچھنے کی جسارت کر لی جائے کہ کیا چین پر بڑھتی ہوئی ’اِنحصاریت (exclusivity)‘ کے علاؤہ ترقی ممکن ہی نہیں رہی؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا اِقتصادی تعاون ’روڈ شو‘ کا بنیادی مقصد اِس تاثر کو زائل کرنا تھا کہ صوبائی حکومت ’مغربی راہداری‘ کے مطالبے کی وجہ سے ’سی پیک مخالف‘ ہو چکی ہے جبکہ خود وزیراعلیٰ بارہا کہہ چکے تھے کہ ’خیبرپختونخوا‘ سی پیک کی ملکیت رکھتا ہے تو اِس سے دستبردار یا اِس کا مخالف کیسے ہو سکتا ہے؟ بہرحال ایک سرکاری دورہ ہوا‘ جس کا نام ’’خیبرپختونخوا اقتصادی تعاون ’روڈ شو‘‘ تھا اور اس کی سب سے خاص بات (اگر خبر اور خبریت کی تلاش مقصود ہو تو) یہ ہے کہ چین خیبرپختونخوا میں جو ’دو کھرب روپے‘ سے زائد مالیت کی سرمایہ کاری کرے گا‘ جو بطور قرض نہیں بلکہ خالص امداد ہوگی اور صوبائی یا وفاقی حکومت کے وسائل سے کچھ بھی خرچ کرنا نہیں پڑے گا۔ کیا چین حکومت اور نجی اداروں کے پاس ’دوکھرب پاکستانی روپے سے زائد جیسی خطیر رقم یونہی پڑی ہوئی تھی‘ جسے وہ ہنستے مسکراتے خیبرپختونخوا میں بطور امداد (انسانی دوستی کے جذبے واحترام میں) خرچ کرنے پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے؟ یاد رہے کہ دنیا میں کچھ بھی مفت نہیں ہوتا لیکن اُس کی قیمت کوئی نہ کوئی ادا کر رہا ہوتا ہے!

مشاورت در مشاورت کے مراحل کب اور کہاں مکمل ہوئے اِس بارے تفصیلات دستیاب نہیں لیکن چین حکومت کی جانب سے ’خیبرپختونخوا میں سیاحت کی ترقی‘ اُور ’آثار قدیمہ سے متعلق علوم کے فروغ تحفظ‘ قدیم عمارتوں کے بحالی اور عجائب گھروں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے بھی ’دو منصوبوں‘ کا انتخاب ہوچکا ہے۔ وزیراعلیٰ کے ہمراہ ڈائریکٹر آرکیالوجی ڈاکٹر عبدالصمد بھی چین کے دورے پر تھے جنہوں نے اپنے محکمے کی جانب سے مذکورہ مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط کئے۔ جن کی تفصیلات کے مطابق ’سی پیک‘ منصوبے سے منسلک راستوں پر ’20‘ ایسے تاریخی مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے‘ جنہیں چین کے شمال مغربی صوبے ’شانسئی (Shaanx)‘ کی حکومت کے مالی و تکنیکی تعاون سے مکمل کیا جائے گا۔ اِن بیس مقامات میں (گورگٹھڑی) پشاور‘ سوات‘ مردان‘ ہری پور‘ چترال اُور ڈیرہ اسماعیل خان کے مقامات شامل ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ چین کے ’شانسئی‘ صوبے ہی سے ’شاہراہ ریشم‘ کا آغاز ہوتا ہے اور پاکستان کے راستے برصغیر و مشرق وسطی کے ممالک تک چین کی تجارت کا یہ راستہ پانچ ہزار سال پرانا ہے۔ جو ماہرین یہ سمجھ رہے ہیں کہ ’سی پیک‘ منصوبہ اپنی نوعیت کا منفرد‘ اچھوتا اور دوطرفہ اقتصادی تعاون کا پہلا ایسا منصوبہ (انوکھا تصور) ہے تو انہیں خطے کی اُس پانچ ہزار سال پرانی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے‘ جس میں اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت کا ایک ایسا جال (نیٹ ورک) پھیلا ہوا تھا‘ جس میں صرف چین کے تاجر ہی نہیں بلکہ سیاح بھی یہاں کا دورہ کرنے آتے تھے اور پشاور سمیت خطے کے کئی ایسے ممالک ہیں‘ جن کی آج (معلوم و) مستند تاریخ کے حوالے (انحصار اِنہی) چینی سیاحوں کے قلم سے اخذ کردہ معلومات پر بنیاد کرتی ہیں۔ بہرحال ’شانسئی صوبہ‘ نہ صرف ’شاہراہ ریشم‘ کے آغاز کا نکتہ ہے بلکہ آثارقدیمہ کے لحاظ سے بھی چینی تاریخ و ثقافت کا مرکز ہے۔ جہاں چین کے بادشاہ ’قین شی ہواینگ (Qin Shi Huang)‘ کے فوجیوں کے ہزاروں کی تعداد میں ’مٹی کے مجسمے‘ نمائش کے لئے رکھے ہیں۔

صوبہ ’شانسئی‘ کے فنی و تکنیکی تعاون سے خیبرپختونخوا کے ’آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ‘ کی اَفرادی قوت کو تربیت بھی دی جائے گی‘ جنہیں عجائب گھروں کے انتظامات‘ نمائش کے طور طریقوں اُور جدید اسلوب سکھائے جائیں گے۔ اُمید ہے چین کے ہاں سے نصابی کتابی علم کے ہمراہ ’تعمیروترقی کا وہ بلند معیار‘ بھی ہمراہ آئے گا جو امانت و دیانت کے ساتھ فرائض کی انجام دہی میں یک سوئی پر مبنی ہے۔ کیا ہمارے ہاں کے سرکاری ملازمین کا موازنہ چین کی تعمیروترقی میں جڑے فرض شناسوں سے ممکن ہے‘ جنہیں ہمارے ہاں کی طرح مادر پدر آزادیاں اور ’فری اکنامی‘ جیسی سرمایہ دارانہ رعونت بھی حاصل نہیں! آج یا کل نتیجہ یہی اخذ ہوگا کہ قومیں تعمیرات سے نہیں بلکہ انفرادی واجتماعی حیثیت میں فرض شناسی پر ارتقائی مراحل طے کرتی ہیں اور چین سے ترقی بطور امداد یا قرض طلب کرنے والوں کو یہ دیکھنا چاہئے کہ کس طرح چین کے معاشرے نے زرعی‘ صنعتی پیداوار‘ معاشی‘ اقتصادی اور دفاع جیسے کلیدی شعبوں ہی میں مربوط ترقی نہیں کی بلکہ اُنہوں نے دنیا کو قومیت کا ایک ایسا نکھرا نکھرا (خودار) تصور بھی دیا ہے جس میں اپنی (مادری) زبان و ثقافت (بودوباش) کی اہمیت ترقی کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے!

No comments:

Post a Comment