ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اقتصادی دہشت گرد: عمدہ حل!
پاکستان میں قوانین کا احترام نہ کرنے سے لیکر اُنہیں توڑ مروڑ کر اپنے حق میں استعمال کرنے جیسی مثالوں کا شمار ممکن نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ٹیکس ادائیگی کا بوجھ بھی صرف اُنہی طبقات پر مرکوز ہے‘ جو اپنی آمدن (ایٹ سورس) سے لیکر ہر چھوٹی بڑی خریداری پر سب سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں لیکن اِس کے باوجود معاشرے کے سب سے زیادہ محروم وہی پاکستانی ہیں جو بروقت اور زیادہ ٹیکس ادا کرنے کی صورت اپنا پیٹ کاٹ رہے ہیں۔ عجیب صورتحال ہیں جو لوگ بیرون ملک جا کر ٹریفک قواعد کا احترام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بیرون ملک پبلک مقامات پر تمباکو نوشی سے لیکر پبلک مقامات پر دوسروں کے حقوق (پرائیوسی) حتیٰ کہ صفائی کا خیال رکھنے والے جیسے ہی پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں اُن کے معیار ہی بدل جاتے ہیں۔ سرکاری تنصیبات اُور اثاثوں کو خیال نہیں رکھا جاتا۔ پاکستان کے بارے میں پڑھے لکھے‘ سرمایہ داروں کی اکثریت کے رویئے لمحۂ فکریہ ہیں!
بیس کروڑ کی آبادی میں ایسے افراد کا شمار شاید انگلیوں پر بھی ممکن نہ ہو کہ جو ’’پاکستان کے (قومی) حقوق‘‘ ادا کرنے میں سنجیدہ دکھائی دیں! اِس نتیجۂ خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹیکس وصول کرنے والے اداروں کی بے بسی و بے حسی ملاحظہ کیجئے کہ اپنی آمدنی سے متعلق غلط بیانی کے ذریعے ٹیکس چوری کرنے والے ’بااثر‘ دیدہ دلیروں سے ’حسب قواعد‘ نمٹنا گویا اِس کی ذمہ داری ہی نہ ہو۔ حال ہی میں قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ٹیکس نادہندگان کے شناختی کارڈز بلاک کرنے کی سفارش کی تو اِس کی مخالفت بھی کسی اُور نے نہیں بلکہ چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) نے کرتے ہوئے یاد دلایا کہ ’’ایسا کرنے کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔‘‘ عجیب صورتحال ہے کہ پاکستان میں قوانین پر عمل درآمد کرنے کے لئے بھی قانون سازی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے!
مسئلہ صرف حسب آمدنی ٹیکس کی خاطرخواہ وصولی ہی نہیں بلکہ وفاقی محکمہ خزانہ (ایف بی آر) میں مالی نظم و ضبط بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر ہم ’ایف بی آر‘ اِن لینڈ ریوینیو (قومی محصولات) کی آڈٹ رپورٹ برائے ’سال دوہزار تیرہ چودہ‘ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ رپورٹ میں 169ارب 74کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں ہیں جبکہ ’اِن لینڈ ریوینیو‘ سے متعلق چھبیس ارب سینتیس کروڑ روپے مالیت کے بائیس کیسز عدالتوں میں زیر التواء ہیں!
’ایف بی آر‘ کے قانونی مشاورت (لیگل ڈیپارٹمنٹ) میں اگر اصلاحات کی ضرورت ہے تو یہ کام کون کرے گا؟ جب اربوں روپے کے کیسز کی پیروی کرنے والے وکلأ کو ’بیس سے تیس ہزار روپے‘ ماہانہ دیئے جائیں گے تو نتیجہ یہی نکلے گا اور اسی کم ادائیگی کو جواز بناتے ہوئے ’ایف بی آر‘ ہر وکیل کو مقدمات کی پیروی کے لئے ماہانہ پینسٹھ ہزار روپے اَدا کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ زیر اِلتواء مقدمات سے متعلق ’پی اے سی‘ قانون سازی کروائے اُور زیر التوأ کیسز کی جلد پیروی کے لئے اٹارنی جنرل کے ذریعے عدلیہ سے رابطہ کیا جائے۔ ٹیکس نادہندگان اداروں کے مالکان اور افراد کے قومی شناختی کارڈ بلاک کرنا ایک ایسا ’’عمدہ حل‘‘ ہو سکتا ہے جس کا فوری نتیجہ برآمد ہوگا بلکہ بڑے پیمانے پر ٹیکس نادہندگان کے صرف قومی شناختی کارڈز ہی نہیں بلکہ پاسپورٹس بھی بلاک ہونے چاہیءں اور اگرچہ اس سے متعلق کوئی براہ راست قانون نہیں لیکن حسب آمدنی ٹیکس ادا نہ کرنے والوں ’معاشی و اقتصادی دہشت گردوں‘ شمار کرنا چاہئے اور ’نئے فنانس بل‘ میں یہ شق شامل کی جائے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ٹیکس نادہندگان اور کیسز کی پیروی نہ کرنے والوں کے شناختی کارڈز بلاک کر نے کی سفارش کر دی ہے اور کسی بھی صورت فراڈ کرنے والوں کو کسی بھی صورت معاف نہیں کرنا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment