ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
درس و تدریس: احتساب اُور خوداحتسابی!
خیبرپختونخوا میں ’تعلیمی ایمرجنسی‘ کا نفاذ ’دوہزار تیرہ‘ میں تحریک اِنصاف کی حکومت قائم ہونے کے ساتھ ہی ہوگیا تھا‘ جس کے تحت دعویٰ کیا گیا کہ صوبے کے ہر بچے کو جدید اُور معیاری تعلیم کی فراہمی ممکن بنا دی گئی ہے تو کیا ماضی میں محکمۂ تعلیم کی سرپرستی و نگرانی میں ’جدید اور معیاری تعلیم‘ فراہم نہیں ہو رہی تھی؟ پھر تین سال تک ’تعلیمی اَیمرجنسی‘ کے تحت جو اِصلاحات کی گئیں‘ اُن سے متعلق ’تین سالہ کارکردگی رپورٹ‘ ’’ستمبر2016ء‘ میں جاری کرتے ہوئے یاد دلایا گیا کہ ’’مالی سال (دوہزار سولہ سترہ) میں ’اِبتدائی و ثانوی تعلیم‘ کے لئے ’100 ارب روپے‘ مختص کئے گئے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں (حسب روایت) بہت سے ’اعدادوشمار‘ بھی شامل تھے جن کے مطابق 2013ء سے 2016ء کے دوران صوبے کے دور دراز اُور پسماندہ علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کے لئے 1251 کیمونٹی سکول بنائے گئے۔ 2 ارب سے زائد تعلیمی وظائف اور ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کے تحت 26کروڑ روپے کے سکالرشپ دیئے گئے لیکن اِس ’تین سالہ کارکردگی رپورٹ‘ کا دلچسپ حصہ ’’اساتذہ کی تربیت‘‘ سے متعلق تھا یعنی تین سال کے دوران خیبرپختونخوا حکومت نے قریب ’ایک لاکھ چوبیس ہزار‘ میں سے ’66 ہزار 905‘ اساتذہ کو درس و تدریس کی تربیت دی‘ جس پر 80کروڑ روپے خرچ ہوئے!
تصور کیجئے کہ ہمارے ہاں تعلیم کے نام پر سب کچھ (دستیاب) ہے جبکہ اگر محسوس ہونے والی کسی ایک چیز کی کمی دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو وہ ’’صرف اُور صرف‘‘ ایسے معلمین کی ہے جو معلم ہونے کے اہل ہوں!
’اساتذہ بے تیغ سپاہی (چوبیس اپریل)‘ ذریعہ تعلیم اُور نتائج (پچیس اپریل)‘ بنیادی تعلیم: بنیادی خامی! (پچیس اپریل) کے تحت جو کچھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی‘ اُسے حکومتی و تعلیم کے نگران حلقوں نے پسند نہیں کیا تو اِس کی منطق سمجھ آتی ہے لیکن شعبۂ تعلیم میں اصلاحات کے نام پر مالی وسائل کا ضیاع اور خردبرد پر افسوس کا اظہار‘ سوچنا اور لکھنا بند کر دیا جائے‘ تو نہایت ہی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ بنیادی وثانوی تعلیم کی ترقی کے لئے صوبائی حکومت کے جوانسال مشیر نجی اللہ خٹک کی یہ خواہش پوری نہیں کی جاسکتی۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کسی اُور کے لئے ’ذریعہ معاش‘ اور ’روزگار کا نادر موقع‘ تو ہو سکتی ہے لیکن کم سے کم ذرائع ابلاغ کو اِس سے دلدل سے الگ رہتے ہوئے رہنمائی کی ذمہ داری نبھاتے رہنی چاہئے۔ عین ممکن ہے الفاظ کی قدر نہ کی جائے‘ اُنہیں بکواس کہا جائے‘ لیکن سچ کی توہین باوجود کوشش بھی ممکن نہیں ہوگی!
اعتراف حقیقت ہے کہ ’ابتدائی (پرائمری) و ثانوی تعلیم‘ کے فروغ کی خواہش رکھنے والی ’خیبرپختونخوا حکومت‘ کے لئے درپیش چیلنجز کی ’قطعی کوئی کمی‘ نہیں تھی۔ فہرست مرتب کی جائے تو تین بڑی مشکلات میں پہلی رکاوٹ یہ تھی کہ بچوں کی تعداد اور آبادی کے تناسب سے پسماندہ علاقوں میں سکول موجود نہیں تھے‘ جہاں سکول تھے تو بنیادی ضروریات نہیں تھیں۔ اساتذہ حاضری تک کو ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ ایسے سرکاری اساتذہ بھی پائے گئے جنہوں نے اپنی جگہ چند گھنٹے حاضری کے لئے بے روزگاروں کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں! علاؤہ ازیں غربت و دیگر محرکات کی وجہ سے والدین کی ایک بڑی تعداد بچوں کو سکول نہ بھیجنے پر بضد تھی‘ جنہیں قائل کرنا سیاست دانوں (اصلاح کاروں) کے لئے باوجود خواہش و کوشش بھی مشکل نہ ہوا‘ اور جب ہر حربہ ناکام ثابت ہوا‘ تو بعدازاں قانون سازی کا سہارا بھی لیا گیا جو ہنوز کارگر ثابت نہیں ہوا کیونکہ قوانین پر عمل درآمد کرانے کا ’ٹریک ریکارڈ‘ زیادہ اچھا نہیں! اگر ہم خیبرپختونخوا کی موجودہ حکومت کے تین سال‘ گیارہ ماہ‘ پندرہ دنوں (مئی دوہزار تیرہ سے اپریل دوہزار سترہ) کی کارکردگی دیکھیں تو قوانین پر عمل درآمد کے لحاظ سے ہم آج بھی وہیں کے وہیں کھڑے ہیں‘ تبدیلی کے ثمرات عملاً دیکھنے کے خواہشمند ہیں! اِس حد درجے مایوسی کا ثبوت خود حکومتی رپورٹ (Annual Status of Education Report ASER) میں بھی ملتا ہے جو دسمبر 2015ء کے آخری ہفتے جاری کی گئی اور جس میں کہا گیا تھا کہ ’’سال دوہزار تیرہ (خیبرپختونخوا حکومت کے پہلے سال) میں 13فیصد بچے سکولوں سے باہر تھے لیکن دوہزار چودہ کے اختتام پر یہ تعداد کم ہونے کی بجائے (’دو فیصد‘ بڑھ کر) 15فیصد ہو گئی!‘‘ تو کیا اِس میں بہتری آئی ہے یا صرف اعدادوشمار تبدیل کردیئے گئے ہیں!؟
سکولوں کی تعداد اُور تعلیمی اداروں سے باہر تعداد کے بعد تیسری مشکل اساتذہ تھے‘ جن کی اکثریت یا تو سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے اپنی بنیادی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی یا پھر اُن کی ذمہ داریاں میں غیرمتعلقہ امور شامل کر دیئے گئے ہیں جبکہ باقی ماندہ ایسے بھی ہیں‘ کہ جن کے درس وتدریس کا طریقہ تعلیم وتربیت کے جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں! یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں کسی معلم (ٹیچر) کی وہ عزت و تکریم (مقام) بھی دکھائی نہیں دیتا کہ جو عملاً ہونا چاہئے۔ ترقی یافتہ (معاشروں) مغربی ممالک میں کسی اُستاد اور بالخصوص سرکاری تعلیمی اداروں سے وابستہ معلمین کا مقام دیکھنے لائق ہوتا ہے‘ جنہیں عمومی قوانین میں استثنی تک دیا جاتا ہے جیسا تقدس ہمارے ہاں صدر‘ وزیراعظم‘ گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کو حاصل ہے۔ بہرحال اساتذہ کو اُن کے منصب و مقام سے آشنا کرنے اور تدریس کے جدید تصورات سے روشناس کرانے کے لئے خیبرپختونخوا حکومت پہلے مالی سال سے چوتھے سال تک کروڑوں روپے خرچ کر چکی ہے‘ لیکن (مایوس کن) صورتحال جوں کی توں (بدستور) برقرار ہے تو اِس سلسلے میں اساتذہ اور اُن کے ذمہ دار نگرانوں کو بھی ’خوداحتسابی‘ کے تحت اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ کیا وہ سرکاری خزانے سے ملنے والی تنخواہ اُور دیگر مراعات کے ’حقیقت میں‘ حقدار (بھی) ہیں؟
کیا استاد ایسا کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اپنی کارکردگی کا موازنہ دیگر سرکاری ملازمین سے کرتے ہوئے مطمئن ہو جائیں کہ اگر وہ کام نہیں کررہے تو دیگر سرکاری ملازمین نے ایسی کون سی کارکردگی کا مظاہرہ کر دیا ہے؟ معاشرے میں تبدیلی (ارتقاء) حکومتوں کی نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی سے ممکن ہوسکتا ہے اور بس‘ اُس نظام سے جس میں خوداحتسابی کا عنصر شامل ہو‘ جس میں ہر سرکاری ملازم ’فرض آشنا‘ ہو اور اُس کے لئے دوسرے نہیں بلکہ وہ ’بذات خود‘ دوسروں کے لئے ’مثال‘ قرار پائے!
No comments:
Post a Comment