ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بنیادی تعلیم: بنیادی خامی!
خیبرپختونخوا حکومت نے ’سرکاری پرائمری سکولوں‘ کو ’نجی اِداروں‘ کے ’برابر‘ لانے کے لئے ’اَنگریزی زبان‘ کو بطور ’ذریعۂ تعلیم‘ متعارف کرتے ہوئے جن زمینی حقائق کا ادراک نہیں کیا‘ وہی شرمندگیکا سبب بھی ہے اور ایک ایسی حکمت عملی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے جس پر صوبائی خزانے سے ’چالیس کروڑ‘ روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی خاطرخواہ فائدہ حاصل نہیں ہوسکا۔ افسوس تو اِس بات کا بھی ہے کہ اِس قدر خطیر رقم خرچ کرنے والوں کو ’افسوس‘ بھی نہیں! ’اَنگریزی زبان‘ میں تدریس کی حکمت عملی بنانے والوں نے جب سرکاری سکولوں کے پرائمری اساتذہ کا تدریسی تجربہ‘ نتائج‘ تعلیمی قابلیت اور سالہا سال پر پھیلی ’تدریسی اہلیت‘ کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ پرائمری درجات میں زیرتعلیم طالبعلموں سے قبل اساتذہ کو انگریزی زبان سکھائی جائے اور اس مقصد کے لئے برطانوی ادارے ’برٹش کونسل‘ سے ایک معاہدہ پر ’19 جولائی 2016ء‘ کے روز پشاور میں دستخط ہوئے‘ جس کے تحت ’پانچ سو‘ پرائمری اَساتذہ کو بطور ’ماسٹر ٹریننر‘ چار مضامین ’انگریزی‘ حساب‘ سائنس اُور معلومات عامہ (جنرل نالج)‘ کے مضامین سیکھ کر باقی ماندہ 80ہزار سے زائد اساتذہ کو تربیت دے کر یہ تربیت عمل رواں ماہ کے آخر (30 اپریل) تک مکمل ہونا تھی جو صرف اِس وجہ سے مکمل نہ ہوسکی کیونکہ سرکاری اداروں نے تربیت کاروں کو بروقت وسائل مہیا نہیں کئے۔
پرائمری سطح پر خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں انگریزی زبان متعارف کرانے کی حکمت عملی اُور ’برٹش کونسل‘ کے ذریعے تربیت و نگرانی سے متعلق قبل ازیں ’اساتذہ: بے تیغ سپاہی (چوبیس اپریل)‘ اُور ’ذریعہ تعلیم اُور نتائج (پچیس اپریل)‘ کے ذریعے مسلسل بیان کا اختتام اُس نکتۂ نظر پر ہو رہا ہے‘ جس میں ’حکمت عملی‘ کا دفاع کرنے والے ایک فیصلہ ساز نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ ’پرائمری معیار تعلیم نجی تعلیمی اداروں کے مساوی کرنے کے لئے ’نیک نیتی‘ پر مبنی اقدام کیا گیا لیکن اُنہیں اندازہ نہیں کہ اِس نیک نیتی کی کتنی بھاری قیمت خیبرپختونخوا کو ادا کرنا پڑی ہے۔
اگر خیبرپختونخوا میں ’احتساب کمیشن‘ فعال ہوتا تو اب تک پرائمری کی سطح پر اَساتذہ کی تربیت در تربیت پر گذشتہ چار برس میں ہوئے اخراجات کا حساب کیا جاتا‘ تو دلچسپ حقائق میں وہ رنگارنگ تشہیری مہمات بھی سامنے آتیں‘ جن پر کروڑوں روپے اُڑا دیئے گئے۔ پرائمری و ثانوی تعلیم کی بہتری کے لئے دن رات سوچنے والوں کی دلچسپی کا جواز بھی موجود ہے اور حسن اتفاق ہے کہ خیبرپختونخوا کے پرائمری تعلیم سے متعلق فیصلہ سازوں اور مشیروں میں ’برٹش کونسل‘ کے سابق تنخواہ دار ملازمین شامل ہیں۔ جولائی دوہزار سولہ میں جب خیبرپختونخوا حکومت ’برٹش کونسل‘ سے اساتذہ کی تربیت کا معاہدہ کر رہی تھی‘ اُنہی دنوں کراچی میں ’برٹش کونسل لائبریری‘ کا پندرہ برس بعد دوبارہ آغاز کیا گیا جبکہ پشاور آج بھی ’برٹش کونسل لائبریری‘ سے محروم ہے جو نائن الیون دہشت گردی کے بعد بند کر دی گئی تھی۔
تصور کیجئے کہ ’برٹش کونسل‘ خیبرپختونخوا میں اپنی خدمات کا دائرہ وسیع کرنے میں تو دلچسپی نہیں رکھتی لیکن امن و امان کی صورتحال میں بہتری پر اُسے اس قدر یقین ہے کہ ایک سال سے پرائمری اساتذہ کی تربیت اُس کی زیرنگرانی جاری ہے!
پرائمری سطح پر غیرمقامی زبان متعارف کرانے والے کسی ایک بھی ایسے ملک کی مثال نہیں دے سکتے جہاں بچوں کو کسی ایسی زبان میں تعلیم دی جاتی ہو جو اُس کے آس پاس نہ بولی جا رہی ہو! کیا بناء انگریزی زبان ’خواندگی‘ ممکن نہیں؟ تصور کیجئے ہمارے پاس ایسے اساتذہ کی ’فوج ظفر موج‘ موجود ہے جن کی اکثریت ’انگریزی زبان‘ میں کتابیں نہیں پڑھا سکتے لیکن وہ گریجویشن اور ماسٹرز کی اسناد پر تاحیات سرکاری خزانے سے مراعات پا رہے ہیں۔
فیصلہ سازوں کا کہنا ہے کہ ’’مارکیٹ کی طلب (ڈیمانڈ) مدنظر رکھتے ہوئے پرائمری سطح پر انگریزی متعارف کرائی گئی ہے کیونکہ اگر کسی بچے کو اچھی انگریزی نہیں آتی تو اُسے عملی زندگی میں ترقی کے مساوی مواقع نہیں ملتے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب امیروں کے بچوں کو پرائمری کی سطح پر انگریزی پڑھائی جاتی ہے تو کسی کو اعتراض نہیں ہوتا لیکن جب حکومت یہی سہولت سرکاری سکولوں میں متعارف کراتی ہے تو ہر طرف سے تنقید ہونا شروع ہو جاتی ہے!‘‘ پرائمری سطح پر ’انگریزی زبان میں تدریس‘ کا فیصلہ کرنے والوں نے کن ماہرین سے مشاورت کی‘ اور اُنہیں ’تنقید برائے تنقید‘ کی صورت کس دباؤ کا سامنا ہے‘ یہ تو واضح نہیں لیکن نتیجہ یہ ہے کہ خیبرپختونخوا خزانے سے ’چالیس کروڑ روپے‘ ایک ایسے منصوبے کی نذر کر دیئے گئے ہیں‘ جس سے سوائے ’’نشستن‘ خوردن اور برخواستن‘ کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکا!
No comments:
Post a Comment